کیلنڈر کی تبدیلی اور جمادی الثانی کا آغاز
ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے نئے سال کا آغاز قمری یا ہجری کیلنڈر کے حساب سے ہوتا ہے
آج 29دسمبر ہے اور 2022 کا تیسرا آخری دن یعنی تھرڈ لاسٹ ڈے۔ آج سے دو دن بعد کیلنڈر بدل جائے گا، 2022ء کی جگہ2023 ہوگااور اسی کے ساتھ نئے عیسوی سال کا آغاز ہوجائے گا۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے نئے سال کا آغاز قمری یا ہجری کیلنڈر کے حساب سے ہوتا ہے۔
یکم محرم کو نئے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے اور 29یا 30 ذوالحج سال کا آخری دن ہوتا ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے، دنیا کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک کا فاصلہ اب جدید ترین ٹیکنالوجیز کی بنیاد پر سمٹ چکا ہے۔
اس گلوبل ویلج میں راج عیسوی کیلنڈر کا ہے، بدقسمتی سے ہم مسلمانوں کی تنزلی نے جہاں امت کو بے شمار نقصانات پہنچائے وہاں ایک نقصان یہ بھی پہنچا کہ اْس کے کیلنڈر کی کوئی وقعت نہیںرہی، پاکستان جیسے اسلامی ملک کو بھی عیسوی کیلنڈر کے حساب سے چلنا پڑتا ہے۔
حالانکہ اسلامی کیلنڈر ایک عظیم عمل '' ہجرت'' کی یاد دلاتا ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ہجرت پہلے کے تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہجری سال ہجر و فراق کی خبر دیتا ہے کہ سال کا بڑھنا انسانی زندگی کے سال کا گھٹنا ہے۔
غافل دیتا ہے گھڑیال تجھے یہ منادی
خالق نے عمر کی اک گھڑی اور گھٹا دی
اس کے برعکس عیسوی کیلنڈر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے شروع ہوتا ہے جو کہ عمل نہیں محض واقعہ ہے، جس کا تعلق پیدائش سے ہے۔
اسی وجہ سے عیسائی برتھ ڈے اور سالگرہ مناتے ہیں جب کہ اسلام میں سالگرہ نہیں بلکہ سال گِرا ہے یعنی زندگی کا ایک سال کم ہوگیا۔ اس لیے اب فرحت نہیں بلکہ احتساب و محاسبہ کی ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنا محاسبہ خود کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔
ہر شخص اپنے آپ کو ضمیر کے کٹہرے میں لا کر اپنا احتساب کرے کہ اس سال میں نے کیا اعمال کیے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے کتنے حقوق ادا کیے؟ ان میں کتنی غفلت اور کوتاہی کی؟ اس کی تلافی کیسے ہوسکتی ہے؟ اس طرح خوداحتسابی اور محاسبہ سے عمل کی فکر، غفلت کی تلافی اور ادائیگی حقوق کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو انسانی ہمت و ارادے کو ایک نئی جلا بخشتا ہے تو پھر ایسا شخص نئے سال کا استقبال جشن سے نہیں بلکہ فکر وعمل کے جذبے سے کرتا ہے۔
نیا سال ہجری ہو یا عیسوی، ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے فرق ہم نے بیان کردیا۔ اس وقت چونکہ عیسوی سال کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور ہم مجبوراً ''مقلد'' بھی عیسوی سال ہی کے ہیں تو اسی پر بات کرلیتے ہیں۔ نیا سال ہمیں فکر و عمل، کردار سازی، صبح و شام کو غنیمت جاننے اور ہر لمحہ کو قیمتی بنانے کی دعوت دیتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ''کوئی دن ایسا نہیں، جب وہ طلوع ہوتا ہے مگر وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے انسان! میں ایک نئی پیدا شدہ مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پرگواہ ہوں۔ مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے۔ میں اب قیامت تک واپس نہیں آؤں گا''۔
ہمارا دین حیات دنیا کی اسی بے ثباتی کو انسان کے سامنے رکھتا ہے، وہ قدم قدم پر نشان دَہی کرتا اور اِسے بتاتا ہے کہ یہ ہمیشہ کی زندگی نہیں، یہاں قیام ہمیشہ کے لیے نہیں، یہ راہ گزر ہے، اصل مقام و قیام آخرت میں ہے۔ اﷲ کریم سورہ عنکبوت میں فرماتے ہیں کہ :''یہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے اور آخرت کی زندگی ہی جاودانی زندگی ہے اگر وہ جانیں''۔
دنیا کی اسی بے ثباتی اور آخرت کے دوام کو واضح کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''مجھے دنیا سے کیا تعلق اور کیا لینا دینا! میرا تعلق دنیا سے بس اتنا ہے کہ کوئی مسافر کچھ دیر سایہ لینے کے لیے کسی درخت کے نیچے ٹھہرا اور پھر اس جگہ کو چھوڑ کر چل دیا''۔( ترمذی شریف)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں کندھے پکڑ کر مجھ سے ارشاد فرمایا:''دنیا میں یوں رہو جیسے تم اجنبی ہو یا راہ چلتے مسافر!'' (بخاری شریف)
عیسوی سال کے اختتام و آغاز کا پیغام یہی ہے کہ انسان گزشتہ کا محاسبہ کرے اوراپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔ یہ محاسبہ عامی پر بھی لازم ہے اور مقتداء و پیشوا پر بھی۔ فرد خواہ وہ استاد ہے یا شاگرد، شیخ ہے یا مرید، دین کا داعی و مبلغ ہے یا کسی دینی جماعت کا زعیم و راہبر، ہر شخص کی اپنے اپنے مقام پر مسؤلیت ہے۔
خصوصاً وہ لوگ جن کے ساتھ قوم کا اجتماعی مفاد وابستہ ہے ان کی ذمے داری کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جو افراد منصب قیادت پر فائز ہیں، ان کے لیے محاسبے کا مقام ہے کہ انھوں نے قوم کے ایک بڑے طبقے کی قیادت و رہنمائی کا منصب اپنے ذمے لیا۔ پھر وہ کس حد تک اس منصب سے عہدہ برآہوسکے؟ یعنی جتنا بڑا منصب ہے اتنا کڑا احتساب ہوگا۔
ہم دنیا کے احتساب سے تو بچ سکتے ہیں لیکن کیا ہم اﷲ کی پکڑ سے بچ سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے نیا سال ہمیں اپنے محاسبے کا درس دیتا ہے تاکہ ہم خود احتسابی کے عمل سے گزریں، اچھے کاموں پر اﷲ کا شکر ادا کریں جو غلط کام کیے ہیں، ان کی اﷲ سے معافی مانگیں جن کاموں کا ازالہ مقصود ہو ان کا ازالہ کیا جائے اور آنے والے سال میں گناہوں اورلغزشوں سے پاک زندگی گزارنے کا عزم کریں۔
قارئین:
جمادی الثانی کا چاند نظر آچکا ہے، آج جمادی الثانی کی پانچ تاریخ ہے، اس مہینہ میں انبیاء کے بعد سب سے بڑی شخصیت خلیفہ بلا فصل، امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم وصال ہے۔ آپ اسی مہینے کی بائیس تاریخ کو دنیا سے پردہ فرما گئے تھے۔
اس لیے جمادی الثانی روئے زمین پر بسنے والے ہر مسلمان کے لیے انتہائی قابل احترام ہے۔ امام الانبیائ، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ریاست مدینہ قائم کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ حقیقی ریاست مدینہ کے پہلے بلا فصل خلیفہ ہیں۔
روئے زمین پر آج تک جتنی حکومتیں قائم ہوئیں یا آگے چل کر قائم ہوں گی، ان سب کو اگر ارسطو کے نظریے کے مطابق دیکھا جائے تو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، اچھی حکومت جو فلاح و اصلاح کے لیے قائم ہو اور بری حکومت جو حاکموں کی مصلحت کے لیے قائم ہو۔ ایک اچھی حکومت کا طرہ امتیاز یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک طبقے، ایک خاندان اور ایک گروہ کی مصلحتوں کو پیش نظر رکھنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کو مطمع نظر بناتی ہے۔
ایک بری حکومت کی موٹی سی پہچان یہ ہے کہ اس کے سامنے عوامی فلاح و بہبود کے بجائے چند مسند نشینوں کی خاطر داری ہوتی ہے۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو اس تعریف کی روشنی میں ایک اچھی حکومت کا معیار خلیفہ بلا فصل امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیش کیا جو آج تک منفرد، یادگار، بے مثل و بے نظیر رتبے و مقام کا حامل ہے۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت ارسطو کے نظریے کے مطابق پہلی قسم کا ایک بہترین نمونا تھی جس کی کوئی مثال تاریخ چودہ سو سال میں پیش کرسکی نہ قیامت تک پیش کرسکتی ہے۔ انھوں نے عوامی فلاح و بہبود کو نصب العین بنانے کے نتیجے میں جس درویشی اور سادگی کی زندگی گزرای، اسے دیکھ کر اپنے تو اپنے غیر بھی سر خم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آپ ؓکے دور خلافت کے درخشندہ پہلو کیا تھے، تفصیل کے ساتھ ہم اگلے کالم میں آپ کے سامنے رکھیں گے۔
سردست اس ماہ مبارکہ کے آغاز پر پاکستان بھر کے علمائ، خطبائ، شیوخ و مشائخ کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس مہینے میں منبر و محراب کے ذریعے خلیفہ بلا فصل کی سیرت و کردار، آپؓ کے دور خلافت کے کارنامے، ریاست مدینہ، نظام خلافت راشدہ پر زیادہ سے زیادہ بات کی جائے تاکہ لوگوں کے علم میں اضافہ ہو اور ان کے دل میں پہلے سے زیادہ تڑپ پیدا ہو کہ اس ملک میں خلافت راشدہ والا نظام آجائے۔