دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
بلاشبہ پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر پروفیشنل اپروچ رکھتے ہیں
کور کمانڈر کانفرنس میں پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور اس لعنت کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر کی زیرصدارت 2 روزہ 254ویں کور کمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوئی ،جس میں پاک فوج کے پیشہ وارانہ اور تنظیمی امور کا جامع جائزہ لیا گیا۔
بلاشبہ پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر پروفیشنل اپروچ رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک کی داخلی سلامتی پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے بلکہ مکمل یکسوئی کے ساتھ دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے کارروائی کی جائے ،تاکہ ملک میں امن وامان بحال ہو اور دہشت گردی کے عفریت کا سرکچل دیا جائے ، یعنی کو رکمانڈر کانفرنس میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی اور عوامی امنگوں کے مطابق دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے جس عزم کا اعادہ کیا ہے وہ قابل تحسین عمل ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے غیرمعمولی حالت میں مسلسل دوروز کورکمانڈر کانفرنس ، انتہائی اہمیت کی حامل قرارد ی جارہی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کو جس طرح افواج پاکستان،پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے نڈر نوجوانوں نے روکا، اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
دہشت گردوں کو افواج پاکستان اور اداروں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اس بار پوری طرح ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور اس کے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ نڈر فورس موجود ہے اور جدید ساز و سامان کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے پاکستان کے اندر دہشت گردی کرنااتنا آسان نہیں ،امید ہے کہ یہ دہشت گردی فوری طورپر ختم ہو جائے گی۔
اس وقت بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں سیکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں اور ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ مفاہمت کی پالیسی کو ختم کرکے جارحانہ پالیسی اختیار کی جائے کیونکہ ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے، یہ دہشت گرد اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار ہیں اور یہ پاکستان کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔
ایسے میں ایک سوال پھر سر اٹھا رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے اور اگر اس پر عمل در آمد کیا گیا تھا تو اس کے نتائج سامنے کیوں نہیں آ رہے؟ اس سوال کا جواب کچھ یوں ہے کہ قومی ایکشن پلان کے جن 20نکات پر قومی سطح پر اتفاق رائے ہوا تھا، اب وہ نیشنل ایکشن پلان اپنا وجود کھو چکا ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2020-21 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اس پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے 14 نکات تک محدود کر دیا تھا۔ان کے مطابق 2015 میں بننے والا نیشنل ایکشن پلان اندرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے تھا جب کہ 2021 میں کی گئی نظرثانی کی وجہ سے توجہ بیرونی خطرات کی طرف چلی گئی،اس وجہ سے سارا فوکس ہی تبدیل ہو گیا لیکن اگر اس پر بھی عمل درآمد ہو جاتا تو دہشت گردی کی موجودہ لہر کو روکا جا سکتا تھا۔عسکری امور کے ماہرین بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بڑی قربانیاں دی گئیں۔
ضرب عضب اور ردالفساد جیسے بڑے بڑے آپریشنز کیے گئے جس کی وجہ سے دہشت گردی کی وارداتوں اور دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ہوا لیکن اس کے پس منظر میں جو کام کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا ان پر کام نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر دہشت گردی کی ہینڈلنگ تو ٹھیک ہوئی لیکن لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی لانے کے لیے درسگاہوں کے نصاب میں اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اختلافات کے باعث نہیں ہو سکا۔
اسی طرح دہشت گردوں کو عدالتوں سے جو ریلیف مل جاتا تھا ،اس کے لیے عدالتی اور قانونی اصلاحات لائی جانی تھیں، وہ بھی نہیں لائی جا سکیں۔ نیشنل ایکشن پلان میں کہا گیا تھا کہ ملک میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو پنپنے نہیں دیا جائے گا لیکن افغانستان کی موجودہ حکومت کے تعاون سے تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے گئے اور انھیں ایک بار پھر اپنے پاؤں جمانے کا موقع دیا گیا۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ بلکہ بین الاقومی سطح پر اس کو بڑی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ گزشتہ آٹھ برس میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات اس قدر شدت سے نہیں دیکھے گئے، جس طرح گزشتہ چند ماہ میں دیکھے گئے۔
تحریک طالبان نے مسلح دہشت گردی کی کارروایوں کی کال دے رکھی ہے اور اس کے ساتھ ہی سرحدی علاقوں سے اسلام آباد تک سول سوسائٹی کو نشانہ بنا کر پاکستان کا امن خراب کرنا چاہ رہی ہے۔ان واقعات سے پاکستان میں ایک خوف و ہراس کی فضا قائم ہو چکی ہے۔گزشتہ سال اگست میں افغان طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک میں دہشت گردی کے سیکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں اور ٹی ٹی پی 141حملوں کی ذمے داری قبول کرچکی ہے۔
بنوں میں ''سی ٹی ڈی ''کی عمارت پر قبضہ ایک بہت بڑی دہشت گردی کی کارروائی تھی جس سے خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی کھل کرسامنے آگئی ، کے پی حکومت نے سی ٹی ڈی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی،سرکاری فنڈز کا استعمال ڈیڈ منصوبوں پر کیا گیا جب کہ دہشت گردوں سے لڑنے والی فورس سی ٹی ڈی کو فنڈز کی کمی کا رونا رویا گیا۔
25 سے 30 شرپسندوں نے پوری عمارت پر قبضہ کر کے وہاں اسلحہ اپنے قبضہ میں لے لیا اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا اور اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا اور بعد میں جب افواج پاکستان اور اداروں نے ان کا گھیراؤ کیا تو وہ یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان کو افغانستان فرار ہونے کے لیے کھلا رستہ مہیا کیا جائے۔
افغانستان کی حکومت نے اس حوالے سے تاحال کوئی دوٹوک موقف نہیں دیا ہے۔سوچنے والی بات ہے کہ اگر دہشت گردوں کو محفوظ راستہ فراہم کردیا جاتا تو کیا افغان طالبان انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیتے؟ افغان حکومت کو اس حوالے سے اپنا موقف واضع کرنا چاہیے تاکہ پاکستان اور اقوام عالم کو معلوم ہوسکے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے بارے میں افغان حکومت کا موقف اور پالیسی کیا ہے۔
پاکستان مخالف قوتیں پاکستان میں شرپسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا ، یہاں تک کہا گیا کہ معاشی بدحالی کے بعد پاکستان کے پاس صرف نیوکلیئر اثاثے بچے ہیں جس پر اس کے بعد سودا کیا جائے گا۔
اس وقت بدقسمتی سے افغانستان میں قائم افغان طالبان کی حکومت کے تیور بھی بدلے بدلے نظر آرہے ہیں۔ 40 سال سے پاکستان افغانستان سے آنے والے لاکھوں مہاجروں کی میزبانی کر رہا ہے۔
افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان میدان جنگ بن گیا۔ ہمارے ہزاروں فوجی اور عام شہری اس دوسروں کی جنگ میں شہید ہوئے اربوں کا نقصان الگ ہوا۔ اس کے باوجود جن کی خاطر ہم نے یہ زخم سہے وہ آج بھی ہمارے احسان مند ہونے کی بجائے الٹا ہمیں ہی نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ہمارے سابق وزیراعظم اور ان کے ساتھی ان کے غم میں گھل رہے ہیں اور وہ پاکستان مخالف عناصر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان میں پاکستان مخالف عناصر کو محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز کی سہولت میسرہے، جہاں سے وہ ہماری سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
اب اسے اگر کوئی پاکستان کی کمزوری سمجھتا ہے تو یہ اس کی بڑی بھول ہے۔ پاکستانی مسلح افواج اتنی صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ سرحد پار دشمنوں کے ان ٹھکانوں کو چند لمحوں میں نیست و نابود کر دیں، مگر وہ عالمی قوانین اور پڑوسی ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنا نہیں چاہتی۔ بھارت کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، مگر افغانستان کی پاکستان کے ساتھ دشمنی سمجھ سے بالا تر ہے لیکن یہ حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہے ۔
پاکستان مخالف قوتوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان کا امن خراب کیا گیا تو پورے خطے میں امن برقرار نہیں رہ سکتا ،علاقائی امن کے لیے بھارت اور افغانستان کو پاکستان میں مداخلت کو بند کرنا ہو گا اور دہشت گردی کے منصوبوں کو بھی ختم کرنا ہو گا۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے اثرات نہ صرف علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ بین الاقومی طور پر یورپ اور امریکا پر بھی اسکے اثرات پڑ سکتے ہیں، اگر اس دہشت گردی کو فوری طورپر نہ روکا گیا تو اس کے اثرات پوری دنیا پر نظر آئیں گے اور دہشت گردی کی لہر مختلف ممالک میں ایکٹیو ہو جائیں گے جس سے معاشی بدحالی اور خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گی۔