انتخابات کے انعقاد پر سیاسی الجھن
انتخابات ان حالات میں ممکن نہیں اور اس معاملے کو 2024تک لے جایا جائے
اس وقت قومی سیاست میں عام انتخابات کے انعقاد پر بحث ہو رہی ہے۔ اس میں چار نقاط پر گفتگو ہو رہی ہے۔ اول 2023میں اپریل یا مئی میں عام انتخابات کا راستہ اختیار کرلیا جائے، دوئم انتخابات اپنے مقررہ وقت پر اکتوبر 2023میں ہی منعقد ہوں۔ سوئم انتخابات ان حالات میں ممکن نہیں اور اس معاملے کو 2024تک لے جایا جائے۔
اس فیصلہ کی حمایت کرنے والے معاشی ایمرجنسی کو جواز بنا کر انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں۔ چہارم، ایک عبوری نظام حکومت جو ٹیکنو کریٹ پر مشتمل ہو اور اس کی مدت بڑھا کر عدالت سے اس کو قانونی تحفظ حاصل کیا جائے۔
تیسری تجویز پر عمران خان یہ خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ موجودہ حکمران اتحاد اکتوبر2023 میں بھی انتخابات میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ کچھ اسی طرز کی باتوں کا عندیہ بعض وفاقی وزرا یا ان کے اتحادی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے آیا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد پر حکمران اتحاد اور عمران خان کی نظریں اسٹیبلیشمنٹ کی طرف ہی ہیں۔ اگرچہ اسٹیبلیشمنٹ خود کو سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رکھنے کا پیغام دے رہی ہے مگر دونوں فریق خود سے معاملات طے کرنے کی بجائے اسٹیبلیشمنٹ سے ہی حمایت میں مدد مانگ رہے ہیں۔
عمران خان اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمران طبقہ کسی بھی صورت قبل ازوقت انتخاب کا راستہ اختیار نہیں کرے گا ۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ خود جلد انتخابات کا راستہ ہموار کرائیں ۔
عمران خان فوری انتخاب کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کی تحلیل، قومی اسمبلی سے اپنے استعفوں کی تصدیق جب کہ سندھ، بلوچستان اسمبلیوں سے استعفوں کا کارڈ کھیل کر ایک بڑے سیاسی بحران کو پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ اس معاملے میں عمران خان کو اپنی پارٹی سمیت اتحادی مسلم لیگ ق سے مزاحمت کا سامنا بھی ہے ۔
عام انتخابات کے تناظر میں سب ے بڑا محاذ پ پنجاب ہے جہاں عملاً مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں جنگ ہوگی ۔مسلم لیگ ن او ران کے اتحادیوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ موجودہ حالات ان کے حق میں نہیں اور اگر انتخابات کا راستہ فوری اختیار کیا گیا تو اس کا براہ راست سیاسی فائدہ عمران خان کو ہوگا ۔سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کے خوف سے آپ کیا الیکشن کو اپنے لیے خطرہ ہی سمجھ کر تاخیری حربے اختیار کریں گے یا کوئی سیاسی حل بھی نکالیں گے ،اصل میں مسلم لیگ ن چاہتی ہے کہ عام انتخابات سے قبل وہ کوئی بڑا معاشی ریلیف پیکیج دے سکے تاکہ ووٹروں میں اپنی سیاسی ساکھ بحال کرسکے ۔
اسحاق ڈار معیشت کو ٹریک پر لانے میں کامیاب نہیں ہوپا رہے ہیں ۔ آئی ایم ایف سے معاملات تاحال طے نہیں پائے ہیں ۔ ایسے میں معاشی ریلیف کی باتیں محض سیاست ہی ہے ۔
وفاقی وزیر داخلہ راناثنا اللہ ، وزیر دفاع خواجہ آصف ، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سمیت کئی دیگر وزرا بھی کہہ رہے ہیں کہ بغیر کوئی بڑا معاشی ریلیف دیے انتخابات کا راستہ ان کے لیے سیاسی خود کشی ہوگا۔اب تو حکومتی اتحاد میں ایسی آوازیں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ اقتدار کے کھیل نے ان کو سیاسی فائدہ کم اور نقصان بہت زیادہ دیا ہے ۔ وہ برملا کہتے ہیں اس سارے کھیل کا سیاسی فائدہ عمران خان نے اٹھایا ۔ مسلم لیگ ن کوسب سے بڑ ا سیاسی دھچکہ ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کی صورت میں ملا ۔
جو لوگ انتخابات کا التوا چاہتے ہیں یعنی اکتوبر 2023میں بھی انتخابات کے حق میں نہیں وہ تین باتوں کو بنیاد بنا کر پیش کررہے ہیں۔ ان میں معاشی بدترین حالات ، قومی سیکیورٹی کے سنگین مسائل اور دہشت گردی کی نئی لہر ہے، ان کے بقول بروقت انتخابات بھی مسائل کو حل کرنے کے بجائے ا ور زیادہ بگاڑ دیں گے ۔
استحکام نئے انتخابات کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس غیر یقینی صورتحال میں کون سی عالمی دنیا، عالمی مالیاتی ادارے یا سرمایہ کار ہم پر بھروسہ کریں گے ۔جب تک ملک سے غیر یقینی صورتحال ختم نہیں ہوگی ہم پر معاشی بدحالی کے کالے بادل برستے رہیں گے ۔اس لیے انتخابات کے التوا کوئی مسئلہ کا حل نہیں اور ہمارے فیصلہ سازوں کو ایسی مہم جوئی سے گریز کرنا چاہیے۔
جہاں تک اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی بات ہورہی ہے وہ بھی غیر منطقی ہے ۔ اگرچہ آئین او رقانون اجازت دیتا ہے مگر جو سیاسی حرکیات ہیں ان میں یہ ممکن نہیں ۔
اس بات کا احساس خود حکمران طبقہ کو بھی ہے او راسی بنیاد پر وہ پس پردہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا راستہ روکنا چاہتے ہیں ۔کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عام انتخابات کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔
حکومت اور حزب اختلاف کو بیٹھ کر عام انتخابات کی تاریخ ، اصلاحات اور انتخابی شفافیت پر کچھ بڑا اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے، تاکہ عام انتخابات سے قبل متنازعہ معاملات کو سلجھایا جاسکے ۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی بھی پس پردہ کوششیں جن کو پس پردہ قوتوں کی بھی حمایت حاصل تھی وہ بھی ابھی تک کوئی بڑا بریک تھرو نہیں کرسکے ۔ وجہ سیاسی جماعتوں میں موجود سیاسی رسہ کشی اور اعتماد کا فقدان ہے ۔
انتخابات چھ ماہ پہلے ہوں یا بروقت ہوں جانا تو ہمیں عام انتخابات کی طرف ہی ہے ۔عمران خان کو بھی اپنے سیاسی موقف میں لچک پید ا کرنی چاہیے اور بیٹھ کر ہی وہ نئے انتخابات پرعملی بات چیت کو آگے بڑھائیں ۔ بالخصوص جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کو خدشہ ہے کہ حکمران اتحاد مقررہ وقت پر بھی ملکی سطح پر عام انتخابات کو نہیں کروانا چاہتے تو پھر بیٹھ کر ہی بروقت انتخابات کو یقینی بنایا جائے ، یہ ہی ملک کے مفاد میں ہوگا۔