کس سے پوچھیں کہ
اب ذرا دشمنوں کی اڑائی ہوئی چند خبریں بھی ملاحظہ فرمائیں
کرینہ سیف ،شرمیلی ٹیگوری اورسیف علی خان کے مطابق تو۔۔چھائی بہار ہے ،گل و گلزار ہے، نورالانوار ہے یعنی
یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہرگوشہ بساط
دامان باغبان و کف گلفروش ہے
مدح خرام ساقی وذوق صدائے جنگ
وہ جنت نگاہ یہ فردوس گوش ہے
ساقی بہ جلوہ دشمن ایمان وآگہی
مطرب بہ نغمہ رہزن تمکین وہوش ہے
یعنی اگر فردوس برروئے زمین است
ہمیں است وہمیں است و ہمیں است
''اباسین'' ہرطرف چین ہی چین لکھ رہا ہے، رعایا کا ہردن عید اور ہر رات شب برات ہے ،لوگ چین کی بانسری ،امن کے ڈھول اورخوشی کی شہنائیاں بجارہے ہیں،شیراوربکری ایک ہی بوتل میں اسٹراڈال کر سوفٹ واٹر پی رہے ہیں۔
لوگ سونا اچھال اچھا ل کرچلتے پھرتے ہیں، محمود اورایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہیں، امن ہی امن، چین ہی چین ، قرارہی قرار، سکون ہی سکون ،ترقی ہی ترقی بلکہ یوں کہیے کہ ابن آدم کو اس فردوس گم گشتہ تک پہنچا دیاگیا جو کہیں کھو گئی تھی ۔
بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد
کسے راباکسے کارے نہ باشد
طرح طرح کے مراعاتی سلسلے چل رہے ہیں، سہولیاتی پروگرام دوڑ رہے ہیں اورتعمیری پروگرام اڑرہے ہیں ،یہ کارڈ وہ کارڈ۔حساس پروگرام، ہشاش پروگرام، بشاش پروگرام ،شاباش پروگرام ، پاش پاش پروگرام۔
اب ذرا دشمنوں کی اڑائی ہوئی چند خبریں بھی ملاحظہ فرمائیں۔ سی ٹی ڈی (کاونٹرٹیررزم ڈیپارٹمنٹ) خیبر پختون خوا کے پاس نہ وسائل نہ افرادی قوت نہ ٹریننگ۔دہشت گردی کامقابلہ ناممکن۔
ایک برس کے دوران پنجاب میں دہشت گردی کے تین اور خیبر پختونخوا میں تین سو واقعات ہوئے۔
محکمے کو نہ مراعات حاصل ہیں، نہ شہداپیکیج کے لیے رقوم ۔بنوں میں سی ٹی ڈی سینٹر پر دہشت گردوں کا قبضہ ۔میرانشاہ میں خودکش حلمہ ،تین افراد شہید،بنوں میں صورت حال کلئیر نہ ہوسکی۔سیکیورٹی فورسز نے بنوں سی ٹی ڈی مرکز کو تین دن میں ''واگزار'' کرالیا، پچیس دہشت گرد ہلاک دو اہلکارشہید۔
اس آخری خبر میں اعداد وشمار کو بالکل نظر انداز کردئیجے کہ اس طرح کی کرینہ سیف ٹائپ خبروں میں اکثر اعدادو شمار الٹ پلٹ ہوجاتے ہیں ۔اصل قابل توجہ خبر یہ ہے کہ انیس دسمبر،بنوں سی ٹی ڈی سینٹر پر ''زیرحراست '' دہشت گردوں کا''قبضہ'' اہل کار ''یرغمال'' لکی مروت تھانے پر حملہ چار اہل کار شہید۔
اور پھر اکیس دسمبرکی خبر۔بنوں سیکیورٹی فورسز نے سی ٹی ڈی ''مرکز'' کو واگزار کرالیا۔
لیکن ساری خبریں بری نہیں ہیں، ان ہی دنوں وزیراعلیٰ نے چار میگا منصوبوں کاافتتاح کرلیا۔صحت کارڈ پلس علاج غریب پرور منصوبہ ہے، وہ تو ہمیں کیا، بہروں اندھوں تک کو علم ہے کہ انکم سپورٹ سے لے کر صحت کارڈوں تک میں کیاہوتاہے۔
انکم سپورٹ پروگرام عرف ووٹوں کی پیشگی خریداری کے لیے غریب ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا متعلقہ منتحب نمائندوں کا ووٹر ہونا ضروری ہوتاہے اورصحت کارڈ کے لیے ''بیمار'' ہونا قطعی ضروری نہیں جتنا ووٹر ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن ہمارا اصل موضوع اس قسم کی مراعات یا ووٹوں کی پیشگی خریداری نہیں بلکہ امن قائم کرنے والے اداروں کی مفلسی ہے ۔
ہمارے خیال میں شاید یہ اس صدی کاشرمناک ترین واقعہ ہے کہ زیرحراست مجرموں نے حراستی ادارے کے مرکزپر قبضہ کرلیا،ایسا ریمبوٹائپ فلموں میں تو ممکن ہے، کسی حد تک انڈیا اور ساؤتھ انڈیا کی فلموں میں بھی ممکن ہے لیکن حقیقت میں ؟
ہمارے ذہن میں ایسے بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آخر دنیا کے ہر ہرمنصوبے،رعایات و مراعات ،فضولیات کے لیے تو فنڈز کی کمی نہیں ہے لیکن ریاست کے اولین فرض اورترجیح امن وامان کے لیے فنڈزنہ ہوں ۔اس کا ایک جواب تو ہمارے ذہن میں بھی آتا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں ''بھرتی'' دستر خوان پر بٹھانے والے مونہوں کا سلسلہ ہوتاہے جب کہ سیکیورٹی اداروں میں خطرہ ہونے کی وجہ سے ''اپنوں'' کو ڈینجرس زون میں بٹھانا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن شاید ہم غلط ہوں کیوں کہ دسترخوان اور نوالوں کے لیے مونہوں کامعاملہ ذرا اونچی سطح کا ہے ،اس لیے سوچا کہ ہمہ دان ہم بیان اورہمہ جہاں، کرینہ سیف سے رجوع کیا جائے لیکن پتہ چلا کہ وہ ان دنوں امپورٹڈ اداکارہ کترینہ کیف کے ساتھ بہت زیادہ مصروف ہے۔ آخر ہر روزنئے نئے بیان پیدا کرنا اورگھڑنا بھی تو بڑا کام ہے ۔
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیاہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
اورآخر میں پشاورمیں تین ارب روپے سے زائدکے مختلف منصوبوں کاآغاز۔گومل زام ڈیم میں کروڑوں روپے کی لاگت سے مرمت کردہ مقام پر پچیس روز بعد پھر ایک سو دس فٹ بڑا شگاف۔ سی ٹی ڈی کی تربیت اور جدید اسلحہ کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔