ملک کو بچائیں


عثمان دموہی December 30, 2022
[email protected]

مسلم لیگ (ن) کا یہ کہنا کہ اسے پتا نہیں تھا کہ ملکی معیشت اس کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اتنی خراب تھی کہ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ یہ بات بہت بچکانہ بھی ہے، اس نے اقتدار کیوں سنبھالا ،اس کی وجہ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ اس طرح اس کے رہنماؤں کے اوپر لگے چوری کے الزامات کے نتیجے میں وہ جیلوں کی سختیوں اور عدالتوں کے بار بار چکر لگانے کی مصیبت سے بچ سکیں۔

تاہم دوسری جانب پی ڈی ایم کے تمام سزائیں بھگتنے والے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان پر جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات قائم کیے گئے تاکہ انھیں سیاست سے ہی باہر کردیا جائے۔ پی ڈی ایم کے رہنماؤں پر جتنے بھی مقدمات قائم کیے گئے وہ اس وقت کی حکومت کی فرمائش پر قائم کیے گئے کیونکہ اس حکومت کا یہ پلان تھا کہ وہ مزید دس سال حکومت کرتی رہے۔

ہر حکومت کے بننے اور بگڑنے میں غیر جمہوری قوتوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ یہ سلسلہ حقیقتاً ایوب خان کے دور سے شروع ہوا اور سابقہ حکومت کے قیام تک جاری رہا۔ اب یہ سلسلہ ختم ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ سابقہ وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے پر اس کے خلاف سخت بیانات دے رہے ہیں۔

ایسا تو کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا کہ کوئی سیاستدان اپنے ملک کی فوج کی تضحیک کرے اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچائے۔ فوج ایک اہم ہی نہیں بلکہ مقدس شعبہ ہے جس پر ملکی سلامتی کو قائم رکھنے کی اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ افسوس اس امر پر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کو مذاق سمجھا جا رہا ہے ۔

اسٹیبلشمنٹ کو پھر سے سیاست میں گھسیٹنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اسے اس وقت ملک میں جاری خلفشار کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اسے ملک میں جلد انتخابات منعقد کرانے میں مدد کرنی چاہیے، یعنی کہ جس طرح پہلے سہارے سے اقتدار حاصل کیا جاتا تھا اب پھر اسی عمل کو دہرایا جائے۔

سیاستدانوں کو اب اس غلطی سے باز آ جانا چاہیے انھیں اسٹیبلشمنٹ کو ہرگز سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ اسے اپنا کام کرنے دینا چاہیے اور انھیں ملک کو خیر و خوبی سے چلانے کی فکر کرنی چاہیے۔

اس وقت ملکی معیشت کی دگرگوں حالت کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ ملک کے پچاس فیصد عوام پہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے اب تو یہ تعداد 80 فیصد تک ہوچکی ہے۔ ایسے حالات میں عوام کہاں جائیں اور اپنی پریشانیوں کا کس سے گلہ کریں۔

پی ڈی ایم کی حکومت نے جب ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی ہے تو اسے سوچ سمجھ کر معیشت کی بحالی کی فکر کرنی چاہیے۔ اب اسے اقتدار سنبھالے آٹھ ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر وہ ابھی تک معیشت کی زبوں حالی پر قابو نہیں پاسکی ہے۔ اس پر حزب اختلاف کی جانب سے مسلسل یہ الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ وہ خراب معیشت کے باوجود اللے تللے سے کام لے رہی ہے اس نے چھوٹی کابینہ رکھنے کا وعدہ کیا تھا مگر اس وقت 75 سے زیادہ وزیر مشیر مقرر کر رکھے ہیں پھر نئے وزیروں کی شمولیت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ملک میں تعیش والی اشیا کی امپورٹ اب بھی جاری ہے اور ایکسپورٹ کو بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ ہمارے سفارت خانے جو تقریباً دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں قائم ہیں وہ ملکی تجارت کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہے۔ ان کے کئی اسٹاف ممبران اپنی ذاتی تجارت میں ملوث ضرور پائے گئے ہیں مگر ملکی تجارت کو فروغ دینے میں وہ کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ شروع سے ہی ہر حکومت نے ملکی امپورٹ کو تو بڑھایا ہے مگر ایکسپورٹ کے بڑھانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں لی ہے۔ اس وقت زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے ملکی برآمد کیے جانے والے مال کے لیے ایلسیاں تک نہیں کھولی جا رہی ہیں۔

ملکی زرمبادلہ کے بڑھانے کے لیے سعودی عرب اور چین نے جو رقم دینے کا عندیہ دیا تھا اس کا کیا ہوا؟ آئی ایم ایف سے بات نہیں بن پا رہی ہے تاہم اس کے مطالبات میں شدت آنے کی وجہ سمجھ میں آ رہی ہے کہ وہاں کی سربراہ ایک بھارتی ہے جو کس طرح پاکستان کا بھلا چاہے گی۔ اب تو یہی بہتر ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے جس رقم کا اعلان کیا گیا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔

اس نے رقم کے ایک بڑے حصے کو شکیل آفریدی کو اس کے حوالے کرنے سے منسلک کردیا ہے تو شکیل آفریدی کو اب اس کے حوالے کر ہی دیا جائے اس لیے کہ وہ ہمارے کس کام کا؟ اس نے پہلے ہی ملک سے غداری کرکے اسامہ بن لادن کا پتا لگانے کے لیے امریکی جاسوس کا کردار ادا کیا تھا۔ اسے اس لیے بھی امریکا کے حوالے کر دینا چاہیے کہ امریکا سے ہمارے خراب تعلقات میں اسے حوالے نہ کرنا بھی اہم وجہ رہی ہے۔

اس نازک وقت میں حزب اختلاف کو بھی اپنی ذمے داری سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہیے اسے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کو انتخابات جیسی آزمائش میں ڈالنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس سے ملک کی معیشت مزید ابتر ہونے اور ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے اور اگر اس وقت کسی طرح الیکشن کرائے بھی گئے اور پی ٹی آئی جیت بھی گئی تو پھر اسے بھی پی ڈی ایم سے زیادہ مشکلات اور عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں