بیمار کراچی کے لیے ڈاکٹر آیا ہے


یونس ہمدم December 30, 2022
[email protected]

کراچی جسے کبھی عروس البلاد کہا جاتا تھا جو روشنیوں اور خوشیوں کا شہر تھا۔ جس کی صبحیں حسین ہوتی تھیں اور جس کی شامیں جگمگاتی تھیں، کراچی میں پاکستان کے ہر صوبے سے لوگ آتے تھے، انھیں یہاں ہر قسم کا روزگار ملتا تھا، رہائش کی سہولتیں ملتی تھیں اور پھر کراچی آنیوالے ،کراچی ہی کے دامن میں بس جاتے تھے۔

کراچی جو امن و سلامتی کا شہر سمجھا جاتا تھا پھر وہی کراچی دہشت گردی، بدانتظامی اور آہستہ آہستہ بے روزگاری کا تصور پیش کرنے لگا، لوگوں کی خوشیاں مسدود ہوتی چلی گئیں، کراچی مسائل کا گڑھ بنا دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں نے اور سیاسی لیڈروں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں کراچی کو اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کراچی کا سارا امن و سکون برباد کردیا گیا اور اب کراچی کا یہ حال ہے کہ اس شہر کا چپہ چپہ اور گلی گلی گندگی کا ڈھیر بن چکی ہے ۔کراچی کو چند بار ہی ایسے میئر یا ایڈمنسٹریٹر ملے جنھوں نے کراچی کی ترقی میں حصہ لیا تھا۔ ان میں ایک جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان تھے، متحدہ قومی موومنٹ کے فاروق ستار تھے یا پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں میئر مصطفیٰ کمال تھے۔

کراچی کو کوئی اچھی پہچان اور بہتر صلاحیتوں والا میئر یا ایڈمنسٹریٹر نہیں ملا جس کے دل میں کراچی کا درد ہوتا اور وہ کراچی کے حالات سدھار سکتا۔ سب نے بس اپنے ہی حالات سدھارے اور کراچی سے اپنے مفادات کے سودے کرتے رہے اور کراچی کے حالات روز و شب بگڑتے ہی چلے گئے اور مسلسل جاری ہیں۔

میں رہتا امریکا میں ہوں مگر میرے خواب و خیال میں ہر وقت کراچی بسا رہتا ہے۔ چند سال پہلے میں جب اگست کے مہینے میں کراچی میں تھا تو 14 اگست کو یوم پاکستان کی خوشی میں کراچی میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرے کا اہتمام کے ڈی اے کلب سوئمنگ پول کے قریب کیا گیا تھا۔

اس مشاعرے کی صدارت سینئر شاعر رسا چغتائی مرحوم نے کی تھی اس مشاعرے میں شہر کے چیدہ چیدہ شاعروں نے حصہ لیا تھا۔ اس مشاعرے میں، میں نے بھی ایک نظم ''کراچی کا نوحہ'' کے عنوان سے پڑھی تھی، جو موجودہ کراچی کی بگڑی ہوئی صورت کا نقشہ پیش کرتی تھی۔ چند اشعار اس نظم کے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔

یہ میرے دکھ اور درد کا اظہار بھی ہے اور کراچی سے میرا پیار بھی ہے۔یہ آج کراچی کیسا ہے؍دل دیکھ کے اس کو روتا ہے؍کل یہی کراچی ایسا تھا؍پھولوں پہ شبنم جیسا تھا؍جب راتیں روشن رہتی تھیں؍اور مہکی صبحیں ہوتی تھیں؍ہر سُو پیار کی بیٹھک تھی ہر ہنستی بستی چوکھٹ تھی؍گندگی کے ڈھیر نہ ہوتے تھے؍

ایسے اندھیر نہ ہوتے تھے ؍یہ شہر تو پیار سمندر تھا؍یہ خوشیوں کا من مندر تھا؍یہ شہر تو سب کا مسکن تھا؍خیر و خوبی کا دامن تھا؍یہ شہر تو یارو ایسا تھا؍یہ شہر تو ہیرے جیسا تھا۔اس مشاعرے میں اس نظم کو بڑا سراہا گیا تھا، پھر میں واپس امریکا آگیا تھا اور کراچی کے سیاسی حالات پر یہاں سے بھی لکھتا رہتا تھا۔

گزشتہ دنوں کراچی کے نئے ایڈمنسٹریٹر پر بڑے عرصے تک بحث و مباحثہ رہا مگر کراچی کو سندھ حکومت بھی نظر انداز کرتی رہی پھر بگڑتی حالت کو دیکھ کر گزشتہ دنوں کراچی ہی کے ایک فرزند ڈاکٹر سید سیف الرحمن کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا گیا اور کراچی کو بڑے طویل عرصے کے بعد ایک محنتی، مخلص اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے مالک ڈاکٹر سیف الرحمن کو کراچی کی ترقی کے لیے سندھ حکومت کا ایک اچھا فیصلہ سمجھا گیا ہے۔

ڈاکٹر سیف الرحمن جب کچھ عرصہ پہلے کے ڈی اے کے ڈائریکٹر تھے تو انھوں نے کراچی میں ہل پارک کے نزدیک ہی کڈنی ہل پارک کو قبضہ مافیا گروپ سے آزاد کرایا تھا اور کڈنی ہل پارک کی زمین جو جھاڑ جھنکار بنی ہوئی تھی ۔اس کو نئے سرے سے سرسبز و شاداب کرنے کی اسکیم کا آغاز کیا تھا۔

یہ کے ڈی اے کے ڈائریکٹر کی ذمے داریوں کے ساتھ کڈنی ہل پارک میں بھی شام کے بعد روزانہ وہاں جایا کرتے تھے اور دن بھر کے کام کی رپورٹ بھی لیتے تھے اور کبھی کبھی دوپہر میں آکر دیر تک یہاں کے کام کا جائزہ بھی لیتے تھے۔

انھوں نے وہاں شجرکاری مہم کا آغاز بھی کیا تھا اور مختلف پھلوں کے درخت بھی لگوانے شروع کر دیے تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کڈنی ہل پارک کو ایک خوبصورت گلستان میں تبدیل کردیا تھا۔ بچوں کی تفریحی کے سامان بھی وہاں پیدا کیے گئے اور فیملیز کی تفریح کے لیے کڈنی ہل پارک کو ایک سرسبز اور حسین ترین مقام میں تبدیل کردیا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس ہل پارک کی تیاری اور تزئین کے لیے ڈاکٹر سیف الرحمن نے حکومت سندھ پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا تھا بلکہ کراچی کے مخیر حضرات اور تاجر برادری کے دوستوں سے اس پارک کے لیے ذاتی طور پر فنڈ حاصل کیے اور کڈنی ہل پارک کے حسن میں گاہے گاہے اضافہ کرتے رہے۔

کراچی کے پریس نے بارہا ڈاکٹر سید سیف الرحمن کی ان کاوشوں کو بھی بڑا سراہا تھا اور بے لوث کام کرنے پر ان کی محنت کی بھی بڑی تعریف کی تھی۔ کڈنی ہل پارک میں کراچی کی چند مشہور شخصیات نے وہاں جا کر کچھ پودے بھی لگائے تھے۔

ایک ملاقات میری بھی ڈاکٹر صاحب سے کراچی پریس کلب میں ہوئی تھی انھوں نے مجھے بھی محبت کے ساتھ کڈنی ہل پارک آنے کی دعوت دی تھی اور پھر میں نے بھی ان کی موجودگی میں وہاں جا کر ایک پودا لگایا تھا۔ ڈاکٹر سیف الرحمن نے اپنی ہر سروس کے دوران کبھی ذاتی مفاد کا ہلکا سا بھی تصور نہیں کیا یہ بہت ہی محبت کرنیوالے اور وضع دار انسان ہیں۔ آج ان کی محنت کڈنی ہل پارک میں رنگ لا چکی ہے جو ڈھائی دو سال پہلے ہزاروں پودے لگائے گئے تھے وہ اب شاندار درخت کا روپ دھار چکے ہیں۔

یہاں فیملیز کی تفریح کے لیے واٹر فال بھی لگا دی گئی ہے اور اب یہاں کے بے شمار درختوں پر خوش رنگ پرندوں کی آمد رہتی ہے۔ یہاں کوئل کی کوکو بھی سنائی دیتی ہے، اگر آج ابن انشا حیات ہوتے تو وہ یقینا کڈنی ہل پارک پر ایک کتاب یا ایک طویل کالم ضرور لکھتے جس کا عنوان ہوتا ''چلتے ہو تو کڈنی ہل پارک چلیے'' یہاں موجود اونچی نیچی پہاڑیوں پر کھڑے ہوکر تاحد نگاہ ہر طرف سبزہ اور درخت ہی درخت نظر آئیں گے جو دیکھنے والوں کو نئی تازگی کا احساس دلائیں گے۔

اس بلند و بالا پہاڑی پر بنائے گئے پارک سے شہر کی بڑی بڑی عمارتوں کو بھی دیکھ کر خوشی محسوس کرسکتے ہیں۔ اس پارک میں لکڑی کے بورڈز پر دلکش انداز میں خوبصورت جملے بھی لکھے ہوئے نظر آئیں گے، ان جملوں میں ان لوگوں کے پیغامات ہیں جو شہر کراچی سے محبت کرتے ہیں اور شہر کراچی کی رونقوں کو پھر سے دیکھنے کے متمنی ہیں۔ کڈنی ہل پارک میں خوبصورت راستے اور راہداریاں بنائی گئی ہیں، راستوں کے ساتھ دونوں جانب آرام دہ بنچیں بھی لگائی گئی ہیں جہاں بیٹھ کر تھکان اتاری جا سکتی ہے۔

کڈنی ہل پارک میں کرکٹ کے دیوانوں کے لیے ایک چھوٹا سا کرکٹ گراؤنڈ بھی بنایا گیا ہے، یہاں سب سے اونچی پہاڑی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی آویزاں کیا گیا ہے۔ کڈنی ہل پارک میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب اور 53 مختلف اقسام کے خوبصورت درخت بھی لگائے گئے ہیں ان درختوں میں وہ درخت بھی شامل ہیں جو کراچی شہر میں اب کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔ یہ سب ڈاکٹر سیف الرحمن کی محنتوں کا ثمر ہے۔

ڈاکٹر سیف الرحمن ایک بے غرض اور کراچی کی ترقی سے جڑے ہوئے انسان ہیں۔ جب یہ کراچی میٹروپولیٹن کمشنر تھے ۔اس وقت بھی اور جب یہ کے ڈی اے کے ڈائریکٹر بنائے گئے اس دوران بھی انھوں نے کراچی کی ترقی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اب انھیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں پارٹیوں کی حمایت حاصل ہونے کے بعد کراچی کا نیا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا ہے،یہ فیصلہ کراچی کے لیے ایک نیک فال ہے۔ ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے۔

حالت میں کراچی کی کچھ فرق اب آئے گا

بیمار کراچی کے لیے ڈاکٹر آیا ہے

یہ درد کراچی کا رکھتا ہے سدا دل میں

پہلے بھی کراچی کو سرسبز بنایا ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔