کام یاب ترین زندگی کے راہ نما اُصول
تمہارے اور اﷲ کے درمیان جو رشتہ ہے اُس سے زیادہ مضبوط کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا، شرط یہ ہے کہ تم اُسے تھام کر رکھو
تمام تر حمد و ستائش ﷲ رحمٰن و رحیم کے لیے اور تمام تر دُرود و سلام حضرات محمدؐ و آلِ محمدؐ کے لیے۔ آئیے! حضرت علی مرتضیٰ کرم ﷲ وجہہٗ کی اُن کے فرزند کے نام وصیّت کا ایک اجمالی مطالعہ کرتے ہیں، جس کا عنوان یہ بھی دیا جاسکتا ہے: ''کام یاب ترین زندگی کے راہ نما اُصول'' یہ وصیّت نامہ اگرچہ حضرت امام علی مرتضیٰ کرم ﷲ وجہہٗ نے اپنے فرزند حضرت امام حسن مجتبٰیؓ کے لیے تحریر فرمایا ہے، لیکن اگر بہ چشمِ غور دیکھا جائے، تو درحقیقت اِس میں ہم سب کے لیے بہترین راہ نمائی ہے۔
دُنیا کے اَخلاقی ادب میں یقیناً اِس نادر و نایاب اور یگانہ روزگار دستاویز کی نظیر نہیں ملتی۔ مکمل وصیّت نامہ ''نہج البلاغہ'' میں موجود ہے۔ اِس لاجواب سمندرِ علم و حکمت میں سے چند کُوزے ہم نے محترم و مکرّم قارئینِ روزنامہ ''ایکسپریس'' کے لیے یہاں منتخب کیے ہیں، تاکہ آپ سب بھی مستفید ہَوں۔
ابُوتراب حضرت امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرم ﷲ وجہہٗ تحریر فرماتے ہیں:
''یہ وصیت ہے اُس باپ کی جس کا خاتمہ قریب ہے، جو مانتا ہے کہ بدلتا وقت اپنے ساتھ سختیاں لاتا ہے، جس نے منہ موڑ لیا ہے، جو حالات کی مصیبتوں کے سامنے بے بس ہے، جو زمانے کی بُرائیوں کو اچھی طرح جانتا ہے، جو پہلے ہی چلے جانے والوں کی بستی میں رہ رہا ہے اور جس کا اِس علاقے سے کسی بھی دن چل چلاؤ ہے۔
بیٹے! زمانے کی گردش، دنیا کی بے وفائی اور آخر وقت کے قریب آجانے سے یہ ہُوا کہ جی چاہا سب کو بھول جاؤں، ہر طرف سے آنکھیں مُوند لوں اور اپنے سِوا کسی کی فکر نہ کروں، اور جب میں نے دوسروں کی فکر چھوڑ کر خود کو اپنی ہی فکروں تک محدود کرلیا تو میری عقل نے مجھے خواہشات سے روک دیا اور مجھے ان سے بچالیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے معاملات مجھے صاف نظر آنے لگے اور میں اِس سچی حقیقت تک پہنچ گیا ہوں جس میں غیر سنجیدہ باتوں کا دخل تک نہیں اور اس سچائی کو جان گیا ہوں جس میں جھوٹ کی ذرا سی جھلک بھی نہیں۔
میں نے دیکھا کہ تم میرا ہی ایک ٹکڑا ہو، بلکہ جو میں ہوں وہی تم ہو، یہاں تک کہ اگر تم پر کوئی آفت آئے تو جیسے مجھ پر آئی ہے اور تمہیں موت آئے تو جیسے مجھے آئی ہے۔ اِس سے مجھے تمہارا اُتنا ہی خیال ہوا جتنا اپنا ہوسکتا ہے، اِسی لیے میں نے یہ وصیت لکھ دی ہے جو تمہیں راستہ دکھائے گی، اب چاہے میں زندہ رہوں یا دنیا سے اُٹھ جاؤں۔
میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ ﷲ سے ڈرتے رہنا، اُس کے حکم ماننا، اُس کے ذکر سے اپنے دل کو آباد رکھنا اور اُس کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ تمہارے اور ﷲ کے درمیان جو رشتہ ہے اُس سے زیادہ مضبوط کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا، شرط یہ ہے کہ تم اُسے تھام کر رکھو۔
اپنے دل کو نصیحتوں اور اچھی باتوں سے زندہ رکھنا اور اپنی نیکیوں سے اس دل کی خواہشوں کو مارے رکھنا، اُسے یقین کے ذریعے مضبوط رکھنا اور سمجھ داری سے اس کو روشن رکھنا، موت کو یاد رکھ کر اسے قابو میں کرنا، اسے سمجھانا کہ سب کا خاتمہ یقینی ہے، دنیا کے حادثے اس کے سامنے لانا، زمانے کے اُتار چڑھاؤ سے اسے ڈرانا، گزرے ہُوؤں کے حالات اس کے سامنے رکھنا، تم سے پہلے والوں پر جو گزری اُسے یاد دلانا، اُن کے گھروں اور کھنڈروں کو جا کر دیکھنا، اور دیکھنا کہ دنیا میں وہ کیا کرتے رہے، کہاں چلے گئے۔
کہاں اُترے اور کہاں ٹھہرے۔ دیکھو گے تو تمہیں صاف نظر آئے گا کہ وہ دوستوں سے منہ موڑ کر چل دئیے اور پردیس کو سِدھارے، اور وہ وقت دُور نہیں جب تمہارا شمار بھی ان میں ہونے لگے۔ لہٰذا اپنی اصل منزل کے لیے بندوبست کرلو، اپنی آخرت بیچ کر دنیا نہ خریدو۔ جن باتوں کو نہیں جانتے اُن کے بارے میں بات نہ کرو۔ جس چیز کا تم سے تعلق نہیں اُس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ۔ جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو، اُس راہ میں قدم نہ اُٹھاؤ، کیوں کہ قدم کا روک لینا ہول ناکیوں میں پھنسنے سے بہتر ہے۔
دُوسروں کو نیکی کی راہ پر لگاؤ تاکہ خود بھی نیکوں میں گنے جاؤ۔ ہاتھ اور زبان کے ذریعے بُرائی کو روکتے رہو۔ جہاں تک ہوسکے بُروں سے الگ رہو۔ خدا کی راہ میں ایسا جہاد کرو کہ جہاد کا حق ادا ہوجائے اور اگر کوئی اس کو بُرا ٹھہرائے تو اُس کی باتوں کا اثر نہ لو۔
حق تک پہنچنے کی خاطر ضرورت ہو تو سختیوں میں کُود پڑو۔ دِین میں سوجھ بوجھ پیدا کرو۔ سختیوں کو برداشت کرنے کی عادت ڈالو اور یاد رکھو! حق کی راہ میں صبر کرنا بہترین اَخلاق ہے۔ ہر معاملے میں اپنے لیے ﷲ کی پناہ تلاش کرو، اِس طرح تم مضبوط پناہ گاہ اور محفوظ قلعے میں پہنچ جاؤ گے۔ صرف اپنے پروردگار سے سوال کرو، کیونکہ دینا اور نہ دینا بس اُسی کے اختیار میں ہے۔ اپنے ﷲ سے زیادہ سے زیادہ بھلائی چاہو۔
میری وصیت کو سمجھو۔ اِس سے پہلو بچا کر نہ گزرنا۔ اچھی بات وہی ہے جو فائدہ دے، جس علم میں فائدہ نہ ہو اُس میں کوئی بھلائی نہیں اور جو علم سیکھنے کے لائق نہ ہو اُس سے کچھ حاصل نہیں۔
بیٹے! میں نے دیکھا ہے کہ کافی عمر کو پہنچ چکا ہوں اور مسلسل کم زور ہوتا جارہا ہوں تو میں وقت ضائع کیے بغیر یہ وصیت لکھ رہا ہوں اور یہ ساری باتیں تحریر کررہا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سب کچھ کہہ نہ پاؤں اور مجھے موت آجائے اور دل کی بات دل ہی میں رہ جائے یا بدن کی طرح عقل اور سمجھ بوجھ کم زور پڑجائے یا میری وصیت سے پہلے ہی طرح طرح کی خواہشیں تمہیں گھیر لیں۔
تم دنیا کے جھمیلوں میں اُلجھ جاؤ اور تم بھڑک اٹھنے والے منہ زور اُونٹ کی طرح ہو جاؤ، کیوں کہ جس کی عمر کم ہو اُس کا دل خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ اُس میں جو بیج ڈالا جائے اُسے قبول کرلیتا ہے، اِس لیے میں چاہتا ہوں کہ اِس سے پہلے کہ تمہارا دل سخت ہو یا دماغ کہیں اور مشغول ہوجائے، تمہیں ضروری باتیں سمجھا دوں تاکہ تم سنجیدگی سے سوچو اور ان باتوں کو قبول کرو جن سے تجربہ کار لوگ ہی تمہیں آزمائش اور جستجو کی زحمت سے بچاتے ہیں۔
اِس طرح تم تلاش کی محنت سے اور دنیا کو آزمانے کی مشکلوں سے بچ رہے ہو اور تجربے اور علم کی وہ باتیں مشقت اُٹھائے بغیر تم تک پہنچ رہی ہیں جنہیں ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ اب وہ سب تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کیا جا رہا ہے جو شاید ہماری نظروں سے بھی اوجھل رہ گیا ہو۔
بیٹے! اگر چہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی، پھر بھی میں نے اُن کی زندگی پر غور کیا ہے اور اُن کے حالات کے بارے میں سوچا ہے۔
اُن کے چھوڑے ہوئے نشانوں کو اتنے قریب سے دیکھا ہے کہ میں بھی گویا اُن ہی میں کا ایک ہوگیا ہوں، بلکہ اُن سب کے حالات اور اُن کے متعلق معلومات میرے علم میں آئی ہیں، اس کے بعد تو یوں لگتا ہے جیسے میں نے تمام عمر ان ہی کے ساتھ گزاری ہے، چنانچہ میں نے صاف کو گندے اور نفع کو نقصان سے الگ کرکے پہچان لیا ہے اور اب سب کا نچوڑ تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں۔
میں نے یہ کِیا ہے کہ اچھی باتوں کو چن چن کر تمہارے لیے اکٹھا کر دیا ہے اور فضول باتوں کو تم سے دُور رکھا ہے۔ اور چونکہ مجھے تمہاری ہر بات کا اُتنا ہی خیال ہے جتنا ایک مہربان باپ کو ہونا چاہیے اور تمہاری اَخلاقی تربیت کا بھی خیال ہے۔
لہٰذا مناسب سمجھا ہے کہ تمہیں ادب کی تعلیم ایسے ہی مرحلے پردوں جب تم عمر کے ابتدائی حصے میں ہو، دنیا میں نئے نئے آئے ہو، تمہاری نیت کھری ہے اور دل کی خواہشیں پاکیزہ ہیں۔
میں نے چاہا تھا کہ پہلے تمہیں ﷲ کی کتاب اور شریعت کے حکم اور حلال اور حرام کی تعلیم دُوں اور کسی دوسرے موضوع کا رُخ نہ کروں، لیکن یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ جن باتوں پر لوگوں کے عقیدے اور مذہبی خیالات میں اختلاف ہے، اُن باتوں پر تمہارے ذہن میں اُسی طرح شبہ نہ پیدا ہوجائے جیسے ان لوگوں کے ذہن میں ہوا ہے۔
اگر چہ یہ بات مجھے پسند نہیں کہ تم سے ان غلط عقیدوں کا ذکر کروں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں تمہارے خیالات کو مضبوط کردینا اِس سے بہتر ہے کہ تمہیں ایسے حالات میں مبتلا ہوجانے دوں جن میں تمہارے مٹ جانے اور تباہ ہوجانے کا خطرہ ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ﷲ تمہیں نیکی کی توفیق دے گا اور سیدھا راستہ دِکھائے گا۔ یہی سوچ کر یہ وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔
بیٹے! رِزق د و قسم کا ہوتا ہے، ایک وہ جسے تم تلاش کرتے ہو اور دُوسرا وہ جو تمہیں تلاش کرتا ہے۔ اگر تم اُس تک نہ جاؤ گے تو وہ خود تم تک آجائے گا۔ ضرورت پڑنے پر گڑگڑانا اور کام نکل جانے پر بداَخلاقی سے پیش آنا کتنی بُری عادت ہے۔ دنیا میں تمہارا حصہ بس اُتنا ہی ہے جتنے سے تم اپنی عاقبت سنوار سکو۔ اگر تم ہاتھ سے نکل جانے والی چیز پر رونا دھونا کرتے ہو تو پھر ہر اُس چیز پر بھی رنج اور افسوس کرو جو تمہیں نہیں ملی۔
جو کچھ ہو چکا اُس کے ذریعے اُس کا پتا چلاؤ جو ہونے والا ہے، کیونکہ معاملات تمام کے تمام ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ اور خبردار! اُن لوگوں جیسے نہ ہوجاؤ کہ جن پر نصیحت کا اُس وقت تک اثر نہیں ہوتا جب تک اُن کو پوری طرح تکلیف نہیں پہنچتی۔ سمجھ دار انسان اپنی سمجھ بوجھ سے نصیحت حاصل کرتا ہے اور جانور مارپیٹ سے سیدھا ہوتا ہے۔ سر پر آنے والی مصیبتوں کو پختہ صبر اور بھر پور یقین سے دُور کرو۔ یاد رکھو! جس نے بھی درمیانی (اعتدال کا) راستہ چھوڑا وہ بے راہ ہوگیا۔
سچا دوست رشتے دار کی طرح ہوتا ہے، دوست وہی ہے جو پیٹھ پیچھے دوستی کا حق ادا کرے۔ جو لالچ میں پڑا، سمجھو کہ وہ مصیبت میں پڑا۔ کتنے ہی اپنے ہیں جو غیروں سے زیادہ غیر ہیں اور کتنے ہیں غیر ہیں جو اپنوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ پردیسی وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔ جس نے سچ کی راہ چھوڑی، اُس کا راستہ تنگ ہے۔ جو اپنی حیثیت پر قائم رہتا ہے، اُس کی عزت باقی رہتی ہے۔ سب سے زیادہ مضبوط تعلق وہ ہے جو آدمی اور خدا کے درمیان ہے۔
جو تمہاری پروا نہ کرے وہ تمہارا دشمن ہے۔ جب لالچ اور ہوس تباہی کا سبب ہو تو مایوسی بھی کامیابی بن سکتی ہے۔ ہر عیب ظاہر نہیں ہوا کرتا۔ فرصت کا موقع بار بار نہیں آتا۔ کبھی آنکھوں والا صحیح راستہ کھو دیتا ہے اور نابینا صحیح راستہ پالیتا ہے۔ بُرائی کو خود سے دُور رکھو، کیوں کہ وہ تو جب چاہو گے نزدیک چلی آئے گی۔
جاہل سے دوستی توڑنا عقل مند سے دوستی جوڑنے کے برابر ہے۔ جو زمانے کی طرف سے مطمئن ہو کر بیٹھ رہتا ہے، زمانہ اُسے دغا دے جاتاہے اور جو اسے بڑا سمجھ بیٹھتا ہے وہ اسے ذلیل کردیتا ہے۔ ہر تیر انداز کا تیر نشانے پر نہیں بیٹھتا۔
جب حاکم بدلتا ہے تو زمانہ بھی بدل جاتاہے۔ سفر پر چلو تو ساتھ چلنے والے کے بارے میں پہلے سے چھان بین کرلو۔ کسی مکان میں اُترو تو پہلے پڑوسی کی جانچ کرلو۔ خبردار! ایسی بات نہ کرو جس کا مذاق اُڑے، چاہے وہ کسی دوسرے کی کہی ہوئی بات کیوں نہ ہو۔
خبردار! عورتوں سے مشورہ نہ کرنا، کیوں کہ اُن کی عقل کمزور ہوتی ہے اور اُن کا ارادہ پختہ نہیں ہوتا۔ انہیں پردے میں بٹھا کر اُن کی نگاہوں کو تاک جھانک سے روکو، کیوں کہ پردے کی سختی اُن کی عزت اور آبرو کو برقرار رکھنے والی ہے۔ بدکردار لوگوں کا ان کے گھروں میں آنا جانا ان کے بے پردہ رہنے سے زیادہ خطرناک ہے۔
اگر ممکن ہو کہ وہ تمہارے سوا کسی اور کو نہ پہچانیں تو ایسا ہی کرو اور خبردار! انہیں ان کے ذاتی معاملات سے زیادہ اختیار ات نہ دو، کیوں کہ عورت ایک پھول ہے، حکم راں نہیں۔ وہ جتنی عزت کی مستحق ہے، اُس سے آگے نہ بڑھو اور یہ حوصلہ پیدا نہ ہونے دو کہ وہ دوسروں کی سفارش کرنے لگے۔ بلا سبب اور بے وجہ بدگمانی کا اظہار کبھی نہ کرنا، کیونکہ اِس سے نیک چلن اور پاک باز عورت بھی بُرائی کے راستے پر چل نکلے گی۔
اپنے ملازموں میں ہر ایک کے ذمّے کوئی کام ضرور سونپ دو تا کہ وہ تمہاری خدمت کو ایک دوسرے پر نہ ٹالیں۔ اپنے کنبے کی عزت کرو، کیوں کہ وہ تمہارے بال و پر کی طرح ہے جس سے تم اُڑتے ہو۔ یہی تمہاری بنیاد ہے جس پر تم ہر بار آکر اُترتے ہو۔ یہی تمہارے بازو ہیں جن کی مدد سے (اپنی حفاظت کے لیے) لڑتے ہو۔
لو تمہارے دِین اور تمہاری دنیا کو ﷲ کے حوالے کرتا ہوں اور اُس سے یہی مانگتا ہوں کہ تمہارے حال اور مستقبل میں اور دنیا اور آخرت میں وہ تمہارے حق میں وہ فیصلہ کرے جس میں تمہاری بھلائی ہو۔ والسلام۔''