بے حال سلطان چوکس مجرم
حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے بلوچستان اور کے پی کے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
میں تھانے سے اے ایس آئی بول رہا ہوں، آپ کا بھانجا ہمارے پاس ہے، ایک بڑا گینگ پکڑا ہے، ان کے ساتھ شامل تھا۔ آپ شریف آدمی ہیں آپ کو موقع دے رہے ہیں، ابھی یہ کیس نیچے میرے پاس ہے، آدھے گھنٹے میں 80ہزار روپے بندوبست کردیں تو اس کیس کو یہیں دبا دیں گے ورنہ ایک دفعہ کیس اوپر والوں کے پاس چلا گیا تو اپنے بھانجے کو روتے رہو گے۔ مقصود احمد کے لیے یہ خبر بجلی کے کوندے کی طرح تھی، ایک لمحے میں اعصاب جواب دے گئے۔ بڑی مشکل سے بولے ؛ جی ... وہ...آپ۔
فون پر دوسری طرف شخص تقریباً دھاڑتے ہوئے بولا؛ کیا نام ہے تمہارے بھانجے کا؟ جی امتیاز۔ فوراً دوسرا سوال آیا ؛ کیا کرتا ہے؟ جی سٹوڈنٹ ہے۔ ہاں، دیکھ لو۔ تمہارے پاس وقت کم ہے۔ بھانجا واپس چاہیے یا پھر۔۔۔۔ سوچ لو، میں دس منٹ میں فون کروں گا۔ موبائل فون بند ہوگیا لیکن مقصود احمد کے اوسان خطا ہو گئے۔ ذہن اور جسم سُن؛ یا خدایا ، یہ کیا ہوگیا۔ دماغ مائوف ہو گیا۔ ہمت کرکے اوسان مجتمع کیے اور دوسرے بھائی منصور احمد کو فو ن ملایا۔ بات میں ربط نہ زبان ساتھ، بڑی مشکل سے بھائی کو بتایا، سن کر وہ بھی چونک گیا۔ بولا؛ بھائی جان ، ایک سیکنڈ ہولڈ کریں۔ اس دوران اس نے فوری طور پر اپنے بھانجے کا موبائل ملایا۔
دوسری بیل پر اس نے فون اٹھایا تو اس نے گھبرا کر پوچھا؛ امتیاز کہاں ہو تم؟ ماموں جان ، میں گھر پر ہوں۔ کیوں ؟ خیریت تو ہے ناں؟ بھانجے کو ماموں کے لہجے سے کسی انجانی پریشانی کا شائبہ ہوا۔ ماموں نے ایک لمحہ توقف کیا اور جواب دیا؛ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، سب خیریت ہے۔ فون رکھتے ہی اس نے بھائی کو بتایا کہ بھانجا تو خیریت سے ہے اور گھر پر ہی موجود ہے۔ یہ سن کر بھائی کی آواز حیرت سے دب گئی؛ کیا مطلب؟ یہ فراڈ تھا۔ فیک کال تھی، اوہ میرے خدایا، مجھے تو ہارٹ اٹیک ہونے والا تھا!
کچھ دیر میں یہ قصہ پورے دفتر میں پھیلا تو دو مزید ساتھی ملازمین انھیں تسلی دینے آئے کہ گھبرائیں نہیں، یہ آج کل فراڈ کا نیا طریقہ چل رہا ہے۔ جو گھبرا گیا وہ ان کم بختوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ جو ان کے جھوٹ کو پکڑ لے ، فیک کال کرنے والا فراڈیا چپکے سے کال کاٹ کر غائب ہو جاتا ہے۔
ایک ساتھی نے بتایا کہ بالکل اسی طرح اسے فون آیا؛ ایک لمحے کو میں چکرا گیا لیکن اوسان بحال رکھے ، ایک دو منٹ کی کال میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ فیک کال ہے۔ تاہم دوسرے صاحب نے بتایا کہ ہمارے ایک اور کولیگ اس فراڈ کا شکار ہو گئے۔ اسے فون کرنے والے نے بتایا کہ تمہارا بیٹا ایک گینگ کے ساتھ پکڑا گیا ہے، پچھتر ہزار روپیہ ابھی بذریعہ فون ادا کردو تو چھوڑ دیں گے ورنہ۔۔۔ ان صاحب نے جھٹ سے بیٹے کو فون ملایا تو فون بند تھا۔ دل کو یقین ہو گیا کہ بیٹا مشکل میں پھنس گیا ہے، ہاتھ پائوں پھول گئے۔
کال دوبارہ آئی تو رقم میں کچھ کمی کی منت سماجت کی، پچاس ہزار پر بات طے ہوئی اور ادائیگی آدھے گھنٹے میں۔ اس نے آئو دیکھا نہ تائو اسی وقت دو قسطوں میں چالیس ہزار روپیہ بذریعہ فون ٹرانسفر کروا دیا۔ ساتھی کولیگ کے اصرار پرجس فیکٹری میں بیٹا کام کرتا تھا وہاں کچھ اور لوگوں سے بیٹے کا اتہ پتہ معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ شفٹ پر کام کے بعد بیٹا فون بند کرکے سو رہا تھا۔
یہ کولیگ بعد ازاںایف آئی اے سائبر ونگ پہنچے اور شکایت رجسٹر کروائی۔ اس واقعے کا ذکر اپنی فیملی میں کیا تو معلوم ہوا ہمارے ایک عزیز بھی اسی طرح کرب کی کیفیت سے گزر چکے ہیں۔ دوست احباب سے ذکر کیا تو علم ہوا کہ ہر دوسرے تیسرے شخص کے پاس ایسی کوئی نہ کوئی کہانی ہے۔
کچھ غور کیا تو عقدہ کھلنا شروع ہو گیا۔ حکومتیں جب اپنے تخت اور مخالفین کے لیے تختے کی لڑائی میں جُت جائیں تو چھوٹے بڑے مجرموں کے پَر نکل آتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ جب بھی معاشی حالات ابتر ہوتے ہیں، بے روزگاری بڑھتی ہے تو پاپی پیٹ اور پاپی ذہن ایکٹو ہو جاتے ہیں۔ خود ہی سوچیں پنجاب جیسے صوبے میں پولیس کا آئی جی ساڑھے چار سالوں میں آٹھ بار اور چیف سیکریٹری چھ بار تبدیل ہو چکا ہو وہاں امن و امان کی کسے فکر ہوگی۔ پولیس افسران اپنی اپنی عزتیں اور نوکریاں بچانے کے جتن کر رہے ہیں۔
ن لیگ کی حکومت تھی تو لانگ مارچ روکنا ان کی ڈیوٹی تھی ۔ صوبائی حکومت تبدیل ہوئی تو چُن چُن کر ایسے افسران کی انکوائریاں ، معطلی اور تبادلے ہونے لگے جن کے بارے میں پی ٹی آئی کو شکایت تھی۔ بعدازاں وزیر آباد میں عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر درج کروانے اور جے آئی ٹی بنانے کی مہم جوئی نے اعلیٰ پولیس افسران کو الجھائے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں جاری سیاسی تماشے نے انتظامی امور کے لیے اعلیٰ افسران کے پاس وقت چھوڑا نہ ہمت۔
حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے بلوچستان اور کے پی کے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پنجاب میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی پنجاب میں کچے کے علاقے اور اپر سندھ کے کچھ علاقوں میں منظم انداز سے کافی عرصے سے سادہ لوح لوگوں کو مختلف بہانوں کی آڑ میں پھانسنے اور تاوان کی وارداتوں کا شہرہ ہے ۔کراچی میں اسٹریٹ کرائمز، قتل سمیت دیگر جرائم کی اس قدر بہتات ہے کہ شاید ہی کسی روز ہیڈ لائنز میں کسی لرزہ خیز واردات کا ذکر نہ ہو۔
کچھ عرصہ قبل تک پورے ملک میں بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کے تحت انعام اور بنک اکاؤنٹس کے کوائف چیک کرنے کے بہانے سادہ لوح لوگوں سے کروڑوں روپے کے فراڈ ہوئے۔ کسی فکر کے بغیر جرائم پیشہ لوگ دھڑلے سے اپنا دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے تخت اور مخالفین کے لیے تختے کی اس جنگ میں حکمران اشرافیہ سے کیا گلہ کرنا ؛ ہاں یہ نشاندہی ضروری ہے کہ بقول ساغر صدیقی
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے