ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بحران
ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نئے یونٹس نہیں لگ پا رہے ہیں توسیعی منصوبے رک گئے ہیں
پاکستان کے کسی بھی شہر، قصبے، بس اڈے، اسٹیشن کے باہر، مارکیٹوں میں چوراہوں، چوکوں، حتیٰ کہ کسی بھی بازار میں چلے جائیں ان دنوں ہر طرف لنڈے کا بازار گرم ہے۔
کہیں ریڑھیوں پر، کہیں چبوتروں، کہیں ٹھیلے لگا کر، لنڈے کا کاروبار کیا جا رہا ہے، لیکن اب 25 روپے فی کلو ملنے والے لنڈاکے کپڑوں پر بھی حکومت نے بہت زیادہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ چند سال قبل کی بات ہے جب لنڈے کا کپڑا 4 یا 5 روپے کلو دستیاب تھا، ایسی صورت میں ٹیکسٹائل کی صنعت پر جب توانائی کا بحران آیا تو لکڑی مہنگی ہونے کے باعث کئی فیکٹری اونرز نے کراچی سے ڈھیر سارے لنڈے کے سستے کپڑے منگوا کر جلائے۔ پھر یہ مہنگے ہونا شروع ہوگئے پھر مل اونرز کی نظر گندم کی فصل اٹھانے کے بعد اس کی توڑی پر پڑی تو اسے جلانا شروع کردیا۔
میں نے بیان کرنے والے محمد آصف سے پوچھا توڑی جلانے سے بوائلر کو اتنی ہیٹ مل جاتی ہے۔ انھوں نے جواب دیا بالکل بہت ہیٹ مل جاتی ہے۔ پھر وہ بھی مہنگی ہونا شروع ہوگئی، کیونکہ بھینسوں کے باڑے والے بھی سراپا احتجاج بن گئے کہ اب ہم بھینسوں کو اتنا مہنگا چارہ کیسے ڈالیں، پھر چاول کی فصل کے بعد ''پرالی ''کا استعمال جلانے کے لیے ہونے لگا۔
کئی سال قبل کی باتیں ہیں جب کارخانے دار مل اونرز کے عزم و حوصلے جوان تھے۔ ٹیکسٹائل کا وہ شعبہ ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں مزدور، ورکرز، محنت کش کام کر رہے ہیں اور کئی عشرے بیت گئے یہ سخت ترین نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے کرتے اور یہی شعبہ ملکی ترقی معاشی کفالت اور خوشحالی کا ضامن بھی ہے۔ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی دہائیاں قبل سے ہی اگر اس شعبے کی بحالی کے لیے بہت کچھ کر گزرتے تو ٹیکسٹائل کی صنعت سے بھی 50 ارب ڈالر کمانا کچھ مشکل ہی نہ تھا۔ کیا ہوا تھا؟
نئی صدی کے آغاز سے کچھ پہلے اور بعد میں۔ بنگلہ دیش اور کئی علاقوں میں ہمارے صنعت کار یہاں کی حکومتی بے توجہی مسائل کے حل کے فقدان توانائی بحران اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر وہاں چلے گئے۔ وہاں ان کو مراعات، رعایتیں اور کافی سہولیات میسر آئیں، پھر ان کی برآمدات میں دگنا تگنا اضافہ بھی ہوا۔
آئی ایم ایف سے قرض لینے کا معاملہ اتنا گمبھیر نہیں ہے جتنا ٹیکسٹائل بحران شدید ہو چکا ہے۔ اسے نہ سنبھالا، اسے سستی توانائی نہ فراہم کی اور ہر طرح سے ان کے مسائل پر توجہ نہ دی تو ماہرین نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ڈیفالٹ کرجانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ صرف اس بات پر غور کریں کہ ہم آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر سے کچھ زائد کے لیے پریشان ہیں جبکہ اپٹما کے مطابق آیندہ ماہ سے برآمدات ہر ماہ ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں اپٹما کی جانب سے وزیر اعظم کو ہنگامی مکتوب بھی ارسال کردیا گیا ہے۔
بہت سی باتوں سے حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے جن میں سے چند کا تذکرہ کیے دیتا ہوں۔ توانائی کی قلت، خام مال پلانٹ مشینری پرزہ جات کی درآمدات میں بے حد مشکلات نے ٹیکسٹائل صنعت کو اس مشکل دور میں لا کھڑا کردیا ہے کہ اب ٹیکسٹائل کی صنعت 50 فیصد پیداواری گنجائش پر کام کر رہی ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کر رہے ہیں کہ بحران کی اس کیفیت کو حکومت نے ختم کرنے کی کوشش نہ کی تو یقینی طور پر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ایک ارب ڈالر ماہانہ سے کم ہوگا۔ یہ اکتوبر 2021 کی بات ہے جب ٹیکسٹائل برآمدات کی مالیت تقریباً پونے دو ارب ڈالرز تک تھیں۔
ٹھیک ایک سال بعد اکتوبر 2022 میں یہ ویلیو ایک ارب 36 کروڑ ڈالرز تک رہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ لگ بھگ 40 کروڑ ڈالرز کی کمی ہوئی۔ اس لحاظ سے جیساکہ بتایا جا رہا ہے کہ گنجائش سے 50 فیصد پر کام ہو رہا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ ماہانہ گزشتہ برس اکتوبر 2021 کے پونے دو ارب ڈالر کے مقابلے میں ایک ارب ڈالر سے کم ہوجانا آیندہ چند ماہ میں حیرانگی کا باعث نہ ہوگا، کیونکہ سیلاب کے باعث کپاس کی فصل متاثر ہوئی ہے۔
وزیر اعظم کو مکتوب میں لکھ دیا گیا ہے کہ انڈسٹری کی ضرورت ایک کروڑ 40 لاکھ گانٹھوں کی ہے جبکہ 50 لاکھ ہی دستیاب ہیں۔ زرمبادلہ بحران کے باعث کپاس اور دیگر ان پٹس کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے لہٰذا ایکسپورٹرز نئے برآمدی آرڈرز لینے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ انڈسٹری والوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں بڑی کمی کے باعث سرمائے کی شدید کمی کے علاوہ ری فنڈ کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کے باعث شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نئے یونٹس نہیں لگ پا رہے ہیں توسیعی منصوبے رک گئے ہیں، لہٰذا یہ صورت حال معیشت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دی جا رہی ہے۔ لکھے گئے خط میں یہ خوشخبری بھی سنائی گئی ہے کہ گزشتہ دو سال میں نئی فیکٹریاں لگانے کے لیے 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جن میں سے متعدد فیکٹریاں تکمیل کے قریب ہیں اور مزید زیر تکمیل ہیں، یہ بات خوش آیند ہے۔ حکومت امن و امان برقرار رکھے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل حل کرے تاکہ آیندہ ماہ سے ایک ارب ڈالر سے کم نہیں بلکہ 2 ارب ڈالر سے زائد ٹیکسٹائل برآمدات ہوں۔