نئے سال کی نوید
دنیائے امتحان میں اتفاقاً ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی صرف کامیابیوں کے درمیان رہے
امریکی مصنف ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیز کامیابیوں سے فائدہ اٹھانا نہیں ہے۔ ہر بے وقوف آدمی ایسا کرسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں اہم یہ ہے کہ تم اپنے نقصانات سے فائدہ اٹھاؤ۔ اس دوسرے کام کے لیے ذہانت، حوصلہ اور مستقل مزاجی درکار ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ایک سمجھ دار اور بیوقوف کے درمیان فرق کرتی ہے۔
اس دنیائے امتحان میں اتفاقاً ہی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی صرف کامیابیوں کے درمیان رہے اور اس کے لیے اس کے سوا اور کوئی کام نہیں کہ وہ انھیں کامیابیوں سے بلا روک ٹوک فائدہ ہی فائدہ اٹھاتا رہے۔ بیشتر حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو گوناگوں مشکلات، مسائل اور نقصانات کے درمیان گھرا ہوا محسوس کرتا ہے۔ انھی مشکلوں سے گزرتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کا راستہ بنانا اور اپنی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہی اس کی ذہانت، سنجیدگی، صبر اور جدوجہد کا امتحان ہوتا ہے۔
اس جہان فانی میں صرف وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو مشکل ترین صورت حال میں دور اندیشی، تدبر، حکمت، بصیرت اور دانش مندی کا ثبوت دیں کہ وہ درپیش مسائل و مشکلات اور ناموافق کا شکوہ شکایت کرنے کے بجائے جرأت و بہادری سے ان کا مقابلہ کرنے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ حالات سے لڑنے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے تدبیر کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور صبر آزما مراحل طے کرکے کامیابی کی منزل پا لیتے ہیں۔
دراصل نقصانات، کمزوریوں اور خامیوں سے پریشان و مایوس ہونے کے بجائے ان سے فائدہ اٹھانے کی خصوصیات ہی کسی انسان کا اصل وصف ہوتی ہے جو اسے مقصد کے حصول میں کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔ کوئی فرد ہو یا قوم، دونوں کو اس دنیا میں ایسے ہی امتحانات کے درمیان کھڑا ہونا پڑتا ہے اور بار بار نئے مسائل اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بقول منیر نیازی:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
گویا قدم بہ قدم انسان کو نت نئے مسائل، دشواریوں، امتحانات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دنیا میں کامیاب وہ نہیں جس کو کبھی کوئی مشکل پیش نہ آئی ہو۔وہ کبھی کسی امتحان سے نہ گزرا ہو اور اسے کبھی مصیبتوں کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو بلکہ یہاں کامیاب وہ فرد یا وہ قوم ہے جو راستوں کی دشواریوں، مسائل و مشکلات اور صعوبتوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے تب ہی وہ فرد اور قوم کامیابی سے ہم کنار اور منزل مقصود تک پہنچ سکتی ہے۔
مذکورہ تناظر میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ آج وطن عزیز کو بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ من حیث القوم سنگین مسائل سے دوچار اور کٹھن امتحانوں سے گزر رہے ہیں، آزمائشوں کا ایک ہمالیہ ہمارے سامنے ہے کہ منزلوں کے نشان مسائل و مشکلات کے غبار میں نظروں سے اوجھل ہو رہے ہیں۔ سردست تین بڑے چیلنجز ہمارے سامنے ہیں۔ اول معاشی زبوں حالی دوم دہشت گردی کی تازہ لہر اور سوم سیاسی ابتری کا بلند ہوتا گراف۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ کسی بھی ملک کے استحکام کے لیے وہاں کی معیشت کا پائیدار بنیادوں پر استوار ہونا ازبس ضروری ہوتا ہے۔
تواتر کے ساتھ معاشی سرگرمیوں کا معدوم ہونا، زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی اور ڈالر کی بلند پرواز اس پر مستزاد ملکی کرنسی کی قدر کا پاتال میں جانا ملک کے دیوالیہ ہونے کی علامات ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گرتے جا رہے ہیں اس وقت قومی بینک دولت پاکستان اور نجی بینکوں کے پاس تقریباً 12 ارب ڈالر کے ملکی ذخائر باقی ہیں۔ آئی ایم ایف سے 1.18 ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ قرض کے اجرا کے عوض کڑی شرائط عائد کرنا چاہتا ہے، جن کی تکمیل انتہائی مشکل ہے۔
حکومتی معاشی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا تادم تحریر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ مبصرین و تجزیہ نگار ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات ظاہر کر رہے ہیں جو یقیناً بہت تشویش ناک بات ہے۔ مخلوط حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار بڑے یقین اور وثوق سے دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم جلد معاشی ابتری پر قابو پا لیں گے لیکن آزاد معاشی ذرایع جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں ان میں موجود وزن کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت اور اپوزیشن ہر دو فریق کو اپنی اپنی قومی ذمے داریوں اور فرائض کا ادراک کرنا چاہیے اور قومی معیشت کو گرداب سے نکالنے اور مربوط بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ادھر دہشت گردی کے عفریت نے پھر سر اٹھانا شروع کردیا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا پاکستان دشمن قوتوں کے لیے حسب سابق اپنی مذموم سازشوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ علاوہ ازیں ملک کے بڑے شہروں، لاہور، کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد میں بھی وقفے وقفے سے دہشت گرد عناصر بم حملوں اور خودکش دھماکوں سے امن و امان کو تہہ و بالا کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں ٹیکسی میں ہونے والے خودکش دھماکے سے لے کر بلوچستان کے شہر کاہان میں دہشت گرد کارروائی تک فوج کے کیپٹن سے عام سپاہی تک کئی لوگ شہید ہوچکے ہیں، پاک فوج نے ضرب عضب سے ردالفساد تک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کرکے ان کی بیخ کنی اور امن قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا جو یقینا قابل تعریف ہے۔
ابھی دو روزہ کور کمانڈر کانفرنس آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ عوام کی امنگوں کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق اور بھرپور قوت سے کارروائی کرکے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ قوم کو قوی تر امید ہے کہ پاک فوج آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں وطن دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے میں حسب سابق اپنا قومی کردار ادا کرتے ہوئے ملک میں امن قائم کرنے میں ضرور کامیاب ہوگی۔
ایک جانب ملک میں دہشت گردی کا عفریت پھر سر اٹھا رہا ہے اور معاشی زبوں حالی کے باعث وطن عزیز کے دیوالیہ ہونے کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں تو دوسری جانب سیاسی ابتری نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اور واحد اپوزیشن پی ٹی آئی کے درمیان اقتدار کے حصول کی کشمکش کا کھیل جاری ہے۔
لگتا ہے کہ کسی سیاسی رہنما اور جماعت کو ملک کے دیوالیہ ہونے کی خبروں سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی دہشتگردی کی بیخ کنی سے انھیں کوئی دلچسپی ہے ان کی منزل اور ساری جدوجہد صرف اقتدار تک پہنچنا ہے۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بضد ہے کہ کچھ بھی ہو جائے عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونگے جب کہ عمران خان مصر ہیں کہ وقت سے پہلے اور جلدازجلد انتخابات کرا دیے جائیں۔
ان کا موقف ہے کہ اتحادی حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے اور اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ الیکشن کے ذریعے نیا مینڈیٹ حاصل کیا جائے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے عمران خان نے کے پی کے اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان بھی کردیا ہے،تاہم لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب حکومت کو کچھ مہلت مل گئی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ نئے سال کا سورج ملک میں سیاسی استحکام، معاشی ترقی، عوام کی خوشحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کی نوید لے کر طلوع ہوگا۔