نیا سال نیا کیسے ہو
مجھے تاریخ پڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیاکے بہت سے معاشروں کوعملی طور پربھی دیکھنے کا موقع ملا ہے
یہ کوئی 45برس پہلے کی بات ہے میں ان دنوں ڈپیوٹیشن پر نئی نئی قائم ہونے والی پنجاب آرٹس کونسل میں ڈرامے اور ادب کے شعبوں کو دیکھ رہا تھا، ہمارا دفتر مال روڈ کی مشہور فری میسن بلڈنگ میں تھا جہاں آج کل وزیر اعلیٰ پنجاب کا دفتر ہے۔
30دسمبر کو سینئر ادیبہ حجاب امتیاز علی کی طرف سے ایک کارڈ ملا کہ کیوںنہ31دسمبر یعنی سال کے آخری دن کاغروبِ آفتاب مل کر دیکھا جائے، پہلی نظر میںیہ بات بہت عجیب سی لگی کہ استقبال تو آنے والے یعنی نئے سال کا ہونا چاہیے، یہ آخر ی غروب آفتاب کی خاطر خدمت چہ معنی دارد ۔ بات میزبان یعنی محترمہ حجاب کے مزاج کی انفرادیت پر آکر رک گئی کہ وہ ہمیشہ سے چونکانے والی باتیں کرتی چلی آرہی تھیں۔
ہم وہاں پہنچے تو غروب آفتاب کے بعد مگر ایک بہت خوشگوار حیرت کو وہاں اپنا منتظر پایا کہ بہت سی نامور شخصیات کے ساتھ فیض صاحب بھی اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ ظاہر ہے جہاں اتنے بہت سارے اہلِ قلم جمع ہوں وہاں مشاعرے کی کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی ہے لیکن اس مختصر مشاعرے کی یادگار بات یہ تھی کہ فیض صاحب نے اپنے تازہ کلام سے بھی فیض یاب ہونے کا موقع دیا۔
آگے چل کر خود مجھے کیلنڈر سال کے گزرنے پر مختلف حوالوں سے بہت کچھ لکھنے کا موقع ملا اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دسمبر کے آخری دنوں کے بھی بہت سے رُوپ سامنے آئے بلکہ ایک نظم تو جس کا عنوان ہی 'آخری چند دن دسمبر کے '' ہے اتنی مقبول ہوئی کہ گزشتہ پندرہ بیس برس سے یہ ہر دسمبر میں درجنوں پوسٹوں میں شامل ہوتی ہے بلکہ ابھی دودن قبل ممبئی سے برادرم گلزار کا واٹس ایپ ملا جس میں انھوں نے بھارت کے مشہور اُردو اخبار ''انقلاب'' میں اس کی اشاعت کی کٹنگ بھیجی ہے۔
میں گزشتہ دوہفتوں سے ٹخنے میں فریکچر کی وجہ سے پلاسٹر میںلپٹے پائوں کے ساتھ 24گھنٹے گھر پرہی پڑا ہوں، سو نہ چاہنے کے باوجود بھی ٹی وی چینلز کی دشت نوردی کرنا ہی پڑتی ہے جو کچھ وطنِ عزیز میں ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے مگر مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاسی سماجی معاشی اخلاقی ہر طرح کے حالات دِگرگوں تو ہیں مگر کسی کو ان کی بہتری کی فکر نہیں کہ سیاسی پارٹیوں اور میڈیاکے نزدیک اصل مسئلہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا اور ماحول کو اس شدید سردی میں کسی طرح سے گرم رکھنا ہے، چاہے اس کی وجہ سے نفرتیں، غلط فہمیاں، خود غرضیاں اور دُوریاں مسلسل بڑھتی ہی کیوں نہ چلی جائیں۔
مجھے تاریخ پڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیاکے بہت سے معاشروں کوعملی طور پربھی دیکھنے کا موقع ملا ہے، اس رُوئے زمین پر کہیں بھی کوئی ایسا علاقہ یا معاشرہ نہیں جس کو مختلف النوع مسائل کا سامنا نہ ہو، ہماری خوئے غلامی ٹھوس پلاننگ کی عدم موجودگی اور جیوپولیٹیکل پوزیشن کی وجہ سے ہمارے مسائل یقینا زیادہ بھی ہیں اور نسبتاً اُلجھے ہوئے بھی مگر افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دانشور اور ٹیکنو کریٹ بھی کوئی حل نکالنے کے بجائے ہمیں ہمہ وقت بُری بُری خبروں سے ڈرانے کے سوا کچھ نہیں کرتے بالخصوص معاشی تجزیہ کاروں کی موشگافیاں غیر جانبدار آدمی کو چکرا کر رکھ دیتی ہیں کہ اگر 2018میں حکومت ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی تو بعد میں آنے والی حکومت نے ''مرگئے مرگئے'' کا شور کیوں مچایا اور اگر بقول عمران خان معاشی سطح پر اس نے ملک کو محفوظ علاقے میں چھوڑا تھا تو چند ہی مہینوں میں ڈیفالٹ تک کیسے نوبت آگئی؟
چونکہ یہ معاملہ میری ناقص سمجھ سے بالکل ہی باہر ہے اس لیے میں واپس جاتے اور آتے ہوئے برسوںکے نقطۂ اتصال پر آتا ہوں، اگر آپ کو ان دونوںکی شعری مثالوں میں ان سوالات کا کوئی جواب نظر آجائے تو اس کا کریڈٹ آپ کی بصیرت کو جائے گا تو پہلے سال کے خاتمے پر پیدا ہونے و الی کیفیات پر ایک نظر۔۔۔
کیا عجب رات ہے یہ
اپنے آیندہ و رختہ کے خم و پیچ میں گُم
سال کی آخری شب
سال کی آخری شب
جس کے ماتھے پہ لکھا رکھا ہے
جاچکے سال کے پَل پَل کا حساب
بختِ خوابیدہ کی ہم راہی ہیں
جاگتی آنکھ کے خواب
کورے کاغذ کی طرح جس کی سحر
اب نئے سال کے ایوان میں حاضر ہوگی
لے کے ایک اورکتاب
کالم کی گنجائش میں کمی کی وجہ سے میں اسی ابتدائی بند پر اکتفا کرتا ہوں کہ مجھے اصل میں نئے سال پر بات کرنی ہے کہ اس میں نہ صرف ہر برس کے آخری دن جمع ہوگئے ہیں بلکہ اس میںکچھ ایسااستفسار بھی ہیں جنھیں اگر حالات حاضرہ پر منطبق کرکے دیکھا جائے تو اس کالم کا عنوان یعنی ''نیا سال نیا کیسے ہو؟'' کا ایک رُوپ بھی ایک حل کے امکانات سے متصل دکھائی دے سکتا ہے سو آیئے اس سے مکالمہ کرکے دیکھتے ہیں۔
نئے سال کی پہلی نظم
چلو کچھ آج حسابِ زبانِ حال کرلیں
الم شمار کریں ۔ درد آشکار کریں
گِلے جو دل کی تہوں میں ہیں آبلوں کی طرح
انھیں بھی آج شناسائے نوکِ خار کریں
جو بے وفا ہو اُسے بے وفا کہیں کُھل کر
حدیثِ چشم و لبِ سوختہ کہیں کُھل کر
کہاں تلک یہ تکّلم زمانہ سازی کے
پسِ کلام ہے جوکچھ ذرا کہیں کِھل کر
خنک خنک سی ہنسی ہنس کے مل رہے ہوکیوں
لہو ہے سرد تو آنکھیںبھی منجمدکر لو
جو دل میں دفن ہے چہروں پہ اشتہار کریں
الم شمارکریں ۔ دردِ آشکار کریں
تمہارا میرا تعلق بس ایک لفظ کاہے
لُغت کے انت میں سمٹا ہوا فقط اک لفظ
اس ایک لفظ میں سچائی ہے زمانوں کی
چلوکہ آج یہی لفظ اختیار کریں
تمام عمر پڑی ہے منافقت کے لیے
اس ایک لفظ کا دامن نہ داغدارکریں
الم شمارکریں۔ دردِ آشکار کریں
چلوکچھ آج حسابِ زیانِ جاں کریں