شیخ ایاز سندھی شاعری کا پابلو نرودا آخری حصہ
سندھ کا جاگیرداری نظام شاہ لطیف، صوفی شاہ عنایت سے شیخ ایاز تک سب ہی کے دلوں کا ناسور رہا ہے
شیخ ایاز کی بیماری کے حوالے سے میرے اس کالم کو چھپنے کے چند ہی دنوں بعد اس وقت کی حکومت نے ان کے علاج کے لیے رقم منظور کرلی۔
یہ ایاز کی بڑائی تھی کہ جس دن منظوری کا خط آیا، اسی دن انھوں نے مجھے فون کر کے یہ بات بتائی، وہ بہت خوش تھے۔ کہنے لگے کہ اگر تم نہ لکھتیں تو یہ کام نہ ہوتا۔ میں ان کی بات سن کر شرمندہ ہوگئی۔ میں نے کہا کہ ''یہ آپ کی محبت ہے جو اس طرح کہہ رہے ہیں ورنہ آپ کے لیے تو سندھی اخباروں نے کس قدر نہیں لکھا ہے۔''
کہنے لگے کہ ''ہاں ضرور لکھا ہے لیکن قائم علی شاہ کو فرصت کہاں جو سندھی اخبار کو پڑھے۔ ''پھر وہ لندن گئے، واپس آئے۔ روزنامہ ''برسات'' سے وابستہ ہوئے تو ان کے اداریوں کی داد دینے کے لیے میں نے کئی بار انھیں فون کیا۔ کئی مرتبہ ملاقات کے وعدے ہوئے لیکن وہ وعدے پورے نہ ہوسکے۔
آخری ملاقات مکتبہ دانیال کی سالگرہ پر ہونے والی اس دعوت میں ہوئی جس کا اہتمام حوری نورانی نے کیا تھا اور اب ہم کبھی روبرو نہ مل سکیں گے لیکن دوستوں سے ہم مشربوں اور ہم خیالوں سے ان کے چلے جانے کے بعد بھی ملاقاتیں رہتی ہیں، کبھی کوئی شعر گلے مل جاتا ہے، کبھی کوئی نثری تحریر دامن تھام لیتی ہے۔
ایاز کی ''ساہیوال جیل کی ڈائری'' کے چند ورق جب میں نے پڑھے تو یہی سوچتی رہی کہ برصغیر کے وہ شب و روز کہاں چلے گئے جب سب کے دکھ ایک تھے۔ جب عقیدے، زبان یا نسل کی بنیادوں پر نفرتوں کا سلسلہ دراز نہیںہوا تھا، جب حشو کیول رامانی، مونس سیالکوٹی، ایاز شکارپوری اور حسن حمیدی عظیم آبادی یار غار ہوسکتے تھے، ایک دوسرے کے لیے دھاڑیں مار مار کر رو سکتے تھے۔
دلی میں حشو کی اور ایاز کی جب آخری ملاقات ہوئی تو حشو نے کہا تھا ''ایاز، ایک بات ہرگز نہ بھولنا۔ اگر تم نے پاکستان میں کسی ریفیوجی (مہاجر) پر ہاتھ اٹھایا توسمجھنا کہ مجھ پر ہاتھ اٹھایا، کیونکہ میں بھی ہندوستان میں ریفیوجی (شرنارتھی) ہوں۔'' یہ کہنے والاحشو کیول رامانی چلاگیا۔ یہ سن کر آنسو بہانے والا ایاز چلاگیا۔ ایسی دوستیاں ہی ان مروتوں اور محبتوں کو جنم دیتی تھیں جو ایاز کی تحریروں میں سگندھ کی طرح بسی ہوئی ہیں جو اس کے اشعار میں لہوکی طرح دوڑتی ہیں۔
ایاز نے لکھا تھا سندھو دھرتی میں تجھے ماتھا ٹیکوں، سیس نوائوں، اسے سندھ سے عشق تھا اور جس سے عشق ہو اس کے لیے دنیا کی تمام نعمتوں کی آرزو کی جاتی ہے۔ ایاز نے سندھ کے لیے خوبصورت خواہشیں کیں، رنگین خواب دیکھے اور یہ خواب اب اس کی آنکھوں میں سوتے ہیں۔ سندھ آج بھی سیاسی استحکام کوترستا ہے۔
آج بھی اس کا ہاری محروم ہے اور اس کا مزدور مغموم۔ اس کے دیہات ظلم کی چکی میں پستے ہیں اور اس کے شہر دہشت گردوںکے خوف سے لرزتے ہیں۔ وسائل گنے چنے اور مسائل لاتعداد۔
اس صورتحال نے سندھ میں آباد ہر گروہ کو دوسرے گروہ سے دست و گریباں کردیا ہے اور بجائے اس کے کہ مظلوم اپنی لڑائی ظالموں سے لڑیں، غاصبوں سے اپنا حق چھینیں، ہر طرف کے اور ہر گروہ کے بے کس و بے بس اور بے یار و مددگار جھنجھلا کر آپس میں ہی لڑرہے ہیں اور یہ بھلاچکے ہیں کہ انسانوں کے درمیان اصل تفریق سندھی اور مہاجر، پنجابی اور پشتون کی نہیں ظالم اور مظلوم اور جابر و مجبور کی ہوتی ہے۔
سندھ کی سیاست ایک نیا رخ لے چکی ہے اور جمہوریت ایک نئے رنگ اور روپ میں ہمارے سامنے آرہی ہے۔ ایسی ہی صورتحال کے بارے میں ایاز نے لکھا تھا کہ ''آج ایک نیا دن ہمارے سامنے ہے۔ اب ہمیں آمریت کے خلاف مزاحمت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ بدعنوانی، دہشت گردی، فرقہ واریت اور منشیات فروشی ایسی سماجی برائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوری انتظام کو فروغ پانے کا موقع مل سکے۔''
اس موقع پر مجھے شیخ ایاز کی ایک یادگار تحریر یاد آتی ہے جس میں انھوں نے لکھا تھا ''تین سو سال قبل اردو زبان قلعہ معلی میں پیدا ہوئی تاکہ یہ پورے برصغیر میں رابطے کا کام انجام دے سکے۔ انگریزنے اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے فورٹ ولیم کالج قائم کیا، جہاں اس نے کافی ترقی کی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ یہ چھ سو سال قبل پیدا ہوئی، میں ان کے اس تجزیے کو رد کرنا نہیں چاہتا۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنی ترقی کے لیے دس ہزار سال لیے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سندھی زبان تقریباً 15 ہزار سال پرانی ہوئی اور عراق کی بولی جسے دنیا کی قدیم ترین بولی تصورکیا جاتا ہے، اس سے بھی قدیم ہے۔
اوپر کہی گئی بات سے میری مراد سندھی کی اردو پر برتری ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ میں سندھی بولی کی قدامت ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں بولیاں بین الاقوامی ہیں اور دونوں کو زندہ رہنے کا پورا حق ہے۔
سندھ میں اردو کے خلاف تعصب کی بنیاد ون یونٹ والے دور میں پڑی، جب اردو کو ترجیح دے کر سندھی کو بالکل نظرانداز کیا گیا بلکہ مسترد کیا گیا۔ سندھ میں فقط میں واحد شاعر ہوں جس کے دومجموعے ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے'' اور ''بوئے گل نالہ دل'' چھپ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے شاہ بھٹائی کے رسالے کا مکمل منظوم اردو ترجمہ کیا ہے جس کے تین ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔
فقط مرحوم رشید احمد لاشاری اور چند دوسرے شاعروں نے آڑی ترچھی غزل اردو میں لکھی ہے یا اب آغا سلیم شاہ کے رسالے پر اردو میں کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھی ہماری مادری زبان ہے اور دنیا کی ہر دوسری زبان سے زیادہ عزیز ہے۔ یہ کسی حد تک ذریعہ تعلیم بھی ہے اور روز بروز ترقی بھی کر رہی ہے یہاں تک کہ روزانہ اس زبان میں ایک کتاب چھپ رہی ہے۔ جس کی مثال پاکستان کی کسی بھی زبان میں نہیں ملتی۔ مجھے سندھی ادبی سنگت کے سیکریٹری جنرل ادل سومرو نے بتایا کہ اس وقت سندھ میں تقریباً تیرہ ہزار شاعر ہیں۔
سندھ کا جاگیرداری نظام شاہ لطیف، صوفی شاہ عنایت سے شیخ ایاز تک سب ہی کے دلوں کا ناسور رہا ہے۔ ایاز کو بھوربن کے خوبصورت جنگلوں اور منظروں میں بھی اس ناسور کی یاد آتی ہے اور وہ ٹالسٹائی کی ''اینا کرینینا'' پڑھتے ہوئے جاگیرداری نظام کو ایک نئے زاویے سے یاد کرتے ہیں: ''یہ کتاب میں نے پہلے بھی پڑھی تھی مگر اس وقت اتنی ذہنی پختگی نہ تھی کہ ٹالسٹائی کی کردار نگاری کا پورا لطف حاصل کرسکتا۔ اسی طرح میں نے مغرب کا دیگر کلاسیکی ادب بھی بار بار پڑھا ہے اور ہر مرتبہ نیا لطف حاصل کیا ہے۔ میں نے مغرب کے جدید و قدیم دور کے کم و بیش سب ہی عظیم ناول پڑھے ہیں لیکن میرے خیال میں ٹالسٹائی کے مقابل کا ادیب دنیا ابھی تک پیدا نہیں کرسکی ہے۔ انسان کی کمزوریوں اور خامیوں کا اتنا ادراک اور اس کے باوجود انسانوں سے اتنی محبت، ماحول کی ایسی دلکش عکاسی اور تاریخی ارتقاء کا صحیح اندازہ، انسان کے ابدی مسائل، زندگی اور موت، جوانی اور بڑھاپا، گناہ اور ثواب وغیرہ کا ایسا گہرا مطالعہ اور شگفتہ نظریہ دنیا کے کسی اور ادیب کے ہاں نہیں ملتا، خصوصاً سندھی ادیب کے لیے تو ٹالسٹائی کا مطالعہ بے حد ضروری ہے کیونکہ ہم بھی اسی زمینداری اور جاگیرداری نظام سے نکل رہے ہیں جو ٹالسٹائی کے دور میں موجود تھا۔''