قونیہ…مولانا روم ؒ کے حضور
اقبالؒ اور رومیؒ دونوں کی شاعری میں حکمت کا رنگ نمایاں ہے، فلسفیانہ عقائد جھلکتے ہیں
ترکی میں قیام کے دوران مجھے قونیہ شہر میں مولانا جلال الدین رومی ؒ کے مزار پر حاضری کا موقعہ بھی ملا۔ اہل ترکی کہتے ہیں کہ جو مولانا رومؒ کے حضور حاضری کی غرض سے جائے تو اسے زندگی میں بار بار یہاں حاضری کا موقعہ ملتا ہے۔ (واللہ ا علم )یہ سن کر خوشی ہوئی کہ چلیں اس طرح بار ہا سلطنت عثمانیہ کے مرکز ترکی آنے کے اسباب بنتے رہیں گے۔
مولانا رومؒ کے مزار پر حاضری اور وہاں چند لمحوں کا مراقبہ زائر کے لیے بڑی یادگار حیثیت کا حامل ہے۔ روحانی سکون کی فضا میں دل چاہتا ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جا سکے لیکن زائرین کی کثرت کی وجہ سے زیادہ دیر ٹھہرنا ممکن نہیں البتہ متصل مسجد میں آپ جتنی دیر چاہیں قیا م کر سکتے ہیں۔
ٹرین انقرہ سے قونیہ دو گھنٹے میں پہنچ جاتی ہے۔ سلطنت روما کے زمانے میں اس شہر کو" اکونیم "کہا جاتا تھا۔ یہ شہر سلجوقیوں، عیسائیوں، منگولوں اور کرامانیوں کے قبضے میں بھی رہا۔1420میں اسے عثمانیوں نے فتح کیا۔ یہاں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ اور سلطان سلیم ثانی نے بھی مساجد تعمیر کرائیں۔ابن عربی (ممتاز صوفی و فقہی )نے بھی قونیہ میں کچھ وقت گزارا لیکن اس شہر کو ابدی شہرت حضرت جلال الدین رومیؒ کا مسکن رہنے کی وجہ سے ملی۔
مولانا رومی ؒ1207میں بلغ میں پیداہوئے۔ان کا سلسلہ نسب دسویں پشت میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓسے جا ملتاہے۔ انھوں نے آبائی سرزمین کوچھوڑااورطویل ترین سفر کیے ۔ سرزمین مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ میں حاضری دی۔رومی ؒنے ابن عربی سے بھی روحانی فیض حاصل کیا۔
مولاناجلال الدین رومیؒ کی تحریر کردہ "مثنوی" روحانی موضوعات کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے ابدی شہریت حاصل ہے ۔مولاناکی دوسری کتاب"دیوان کبیر" اعلیٰ درجے کی وجدانی کیفیت کا اظہار ہے۔ مولانا رومی ؒنے مثنوی میں احساسات اور خیالات کو لطیف اور سادہ انداز میں بیان کیا ہے تودیوان کبیر کا ہر شعر گہرائی اور روحانی طلاطم لیے ہوئے ہے۔ دیوان کبیر مولانا رومیؒ کے روحانی اور وجدانی خیالات و تصورات"فنا فی اللہ" اور روحانی استغراق کے اسرار سمجھنے کی کنجی ہے۔
مولانا رومؒ کے ہاں رقص، وجد اور سماع کی مخصوص تشریح ہے ۔ آپ نے بانسری کی مسحور کن "لے" پر رقص کی ترویج کی۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے مولانا رومیؒ کے پیروکار خود کو "جلالیہ"کہتے ہیں۔ مولانا کا لقب جلال الدین تھا،اسی نسبت سے یہ سلسلہ جلالیہ مشہور ہوا۔ ابن بطوطہ کے مطابق شام، مصر، قسطنطنیہ(ترکی) افریقہ اور ایشیاء میں مولانا رومؒ کے پیروکار بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ لوگ خود کو "مولویہ"بھی کہلاتے ہیں۔
یہ لوگ "نمدے"کی ٹوپی پہنتے ہیں۔ جس میں کوئی جوڑ یا درز نہیں ہوتی،مشائخ اس ٹوپی کا عمامہ بھی باندھتے ہیں ۔اس سلسلے کے پیروکار ایک چونٹ دار پاجامہ پہنتے ہیں۔حلقہ باندھ کر ذکر کرتے ہیں۔ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر چکر لگانے ہوتے ہیں۔ سماع کے وقت "دف"اور "بانسری" بھی بجاتے ہیں۔ حضرت شمس تبریز ؒ، مولانا رومؒ کے پیرومرشد تھے۔
مولانا رومؒ کی محفل علم سجی ہے۔عقل و دانش کی باتیں ہورہی ہیں ، چاروں طرف کتابوں کے ڈھیر لگے ہیں اور فقہ و دین کی بحث چھڑی ہے۔ ایسے میں ایک دیوانہ ، قلندرانہ شان سے چلاآتاہے۔ یہ دیوانہ علمی مباحثے میں مداخلت کرتاہے اور کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے معلم سے پوچھتا ہے،''یہ کیاہے؟ معلم کو اس درویش کی مداخلت ناگوار گزرتی ہے وہ کہتے ہیں ''یہ وہ ہے جس سے تو واقف نہیں۔''
معلم یہ کہہ کے اپنے شاگردوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ درویش کی انگلی کی اک جنبش سے علم کاخزانہ نذرِ آتش ہوجاتاہے۔ معلم حیرا ن و پریشان بے ساختہ پکار اْٹھتا ہے۔''یہ کیاہے؟۔''
درویش ادائے بے نیازی سے جواب دیتاہے ،'' یہ وہ ہے جس سے تو واقف نہیں۔'' اتنا کہہ کے وہ اپنی راہ لیتاہے اور معلم کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ کیسا علم، کہاں کی دانش؟ وہ دانائی اور عقل سے کنارہ کش ہوتاہے اور اسی درویش کی تلاش میں صحرا نوردی اختیارکرتاہے۔ دانش کدے سے حیرت کدے کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وہ معلم کوئی اور نہیں مولانا جلال الدین رومیؒ تھے اور وہ بزرگ اور درویش پیر و مرشد شمس تبریزؒ تھے۔
مولانارومیؒ کا طرزِ زندگی فقیر کے ایک اشارے سے یکسر بدل گیا۔ بیشتر وقت مجاہدے و ریاضت میں گزرنے لگا۔ایک روز ایسے ہی عالم میں خود سے غافل تھے ، بیگانگی کے عالم میں اْٹھ کھڑے ہوئے اور رقص کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کی اس سکری حالت کی اتباع ان کے مرید بھی کرنے لگے۔ان کی یاد میں کیے جانے والے اس رقص کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ہندوستان سے شاہ بو علی قلندر پانی پتی ؒ بھی مولانا کی صحبت میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں فرقہ "قلندریہ" مولانا رومیؒ سے منسوب کیاجاتاہے۔
ایک ترک دانشور کے مطابق مولانا رومیؒ کے کلام میں تغزل بھی ہے ، موسیقیت بھی، غنائیت بھی ہے ۔ سادگی اور سوزو گداز بھی ہے ، عشق کی وارفتگی بھی، داخلیت بھی ہے اور خارجیت بھی، وحدت کا اظہاربھی ہے اور عشقِ نبویﷺ کا پرچار بھی ۔حیات و کائنات کے مسائل کا بیان بھی، واقعت نگاری ہو یا قصہ گوئی ، وعظ و نصیحت ہو یا درسِ اخوت و مساوات ، ہر فن موجود ہے ۔اْنھوں نے تصوف کی لگی بندھی راہوں پر چلنے کے بجائے نئے خیالات کو رواج دیا۔زبان کی شستگی اور بیان کی سادگی نے انھیں اپنے دور کے شعرا میں بھی ممتاز رکھااور بعد میں آنے والے شعرا کو بھی متاثر کیا۔
؎صحبتِ صالح تْرا صالح کْند
صحبتِ طالح تْرا طالح کند
علامہ محمد اقبال ؒ،مولانا رومیؒ کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے۔اقبالؒ کے کلام میں مولانا رومیؒ کا رنگ نمایاں ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنی نظم پیرو مرشد میں مولانا رومیؒ کے اشعار میں اپنی الجھنوں کا حل تلاش کیا۔
؎زندہ ہے مشرق تری گفتار سے
اْمتیں مرتی ہیں کس آزار سے؟
(اقبالؒ)
؎ہر ہلاک ِ اْمت پیشیں کہ بود
زانکہ بر جندل گماں بردند عود
(رومیؒ)
اقبالؒ اور رومیؒ دونوں کی شاعری میں حکمت کا رنگ نمایاں ہے، فلسفیانہ عقائد جھلکتے ہیں۔دونوں خودی کی نفی کے بجائے خودی کی تقویت کے قائل ہیں۔دونوں کی شاعری میں سوز وگداز کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ قرآنی واقعات کا حوالہ ہے ، اللہ اور نبی کریمﷺ سے محبت کا اظہار ہے۔ دونوں کا کلام ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔
مولانا رومیؒ سے علامہ محمد اقبالؒ کی روحانی لگن اور بے پایاں محبت کو حکومت ترکی نے اس طرح پذیرائی بخشی کہ 1965 میں مولانا جلال الدین رومیؒ کے مزار کے احاطے میں علامہ اقبالؒ کی ایک علامتی قبر بنائی گئی جس پر تحریر ہے۔"پاکستان کے قومی شاعر اور عظیم مفکر علامہ محمداقبال کو ان کے روحانی پیشوا اور مرشد حضرت مولانا جلال الدین رومی کے حضور جگہ دی گئی۔1965ـ"۔