پنجاب کا مقدمہ

جنگ کے لیے کمپنی کو پیسوں کی بھی ضرورت تھی


راؤ منظر حیات January 02, 2023
[email protected]

1857کی جنگ آزادی زوروں پر تھی۔ سرفروشوں کی شجاعت کی بدولت پایہ تخت دہلی انگریزوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج ہر مقام پر ابتری کا شکار تھیں۔ گورے کی عسکری طاقت کم ہو رہی تھی۔ انھیں نئے فوجیوں کی ضرورت تھی تاکہ برصغیر پر دوبارہ قبضہ کیا جائے۔

بہت کم لوگ اس سچ کو تسلیم کرتے ہیں کہ میرٹھ کی چھاؤنی کی طرح لاہور، سیالکوٹ اور جہلم میں بھی ہر سطح پر آزادی کے پروانے اپنی جان نثار کرنے میں فخر محسوس کر رہے تھے۔ حددرجہ مجبوری میں کمپنی کے انگریز کارندے نئے سپاہی بھرتی کرنے کے لیے دیوانوں کی طرح دوڑ دھوپ کر رہے تھے۔

لارڈ برکلے نام کا ایک سینئر افسر کمالیہ کے نزدیک نیلی بار کے مقامی سربراہ کو ملنے آیا۔ اس بہادر سردار کا نام رائے احمد خان کھرل تھا۔ برکلے کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ کتنے بے خوف انسان کے سامنے کھڑا ہے۔ روایت کے مطابق رائے احمد کو کہا کہ وہ انگریزوں کی فوج دوبارہ استوار کرنے میں مددگار ہو اور افرادی قوت مہیا کرے۔

ملاقات پانچ جولائی 1857 کو ہوئی تھی۔ جواب حیران کن تھا۔ ''کھرل، اپنے گھوڑے اور زمین کسی بھی قیمت پر دوسرے کے حوالے نہیں کرتے۔'' برکلے کے لیے جواب ناقابل قبول تھا، لیکن اسے رائے احمد کی قدر و قیمت اور مقامی علاقے میں اثر ورسوخ کا بالکل اندازہ نہیں تھا۔

جنگ کے لیے کمپنی کو پیسوں کی بھی ضرورت تھی۔ طیش میں آ کر برکلے نے مقامی علاقوں میں لگان کی شرح چار گنا بڑھا دی۔ کسانوں نے اتنی زیادہ رقم دینے سے انکار کر دیا۔ جواب میں برکلے کی قیادت میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہلکاروں نے جویا قبیلے کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو گوگیرہ جیل میں قید کر دیا۔

یہ ظلم رائے کے لیے ناقابل قبول تھا۔ فتیانے، وٹو اور دیگر مقامی قبائل کو ساتھ ملا کر کھرل نے گوگیرہ جیل پر حملہ کر دیا۔ یہ دھاوا گوروں کے لیے حیران کن تھا۔ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی مقامی سردار ایک سپرپاور یعنی برطانیہ کی قوت سے جا ٹکرائے گا۔ کھرل کے لشکر نے سو کے لگ بھگ فرنگی سپاہی تہہ تیغ کر ڈالے۔چند قیدی بھی مارے گئے۔ باقی تمام اسیران کو آزاد کروا لیا گیا۔

وسطیٰ پنجاب میں انگریزوں کی قوت کو مقامی سطح پر پہلی بار کسی نے فیصلہ کن طور پر للکارا تھا۔ یہ 26 جولائی 1857 کا دن تھا۔ گزشتہ روز فرنگی فوج کو کمک پہنچی تو انھوں نے راوی کے ساتھ ساتھ تمام مقامی گاؤں اور دیہاتوں کو آگ لگا دی۔ رائے احمد خان کھرل کی بیوی، والدہ اور چھوٹے بچوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ شرط رکھی کہ اگر کھرلوں کا سربراہ خود نہیں آئے گا تو اہل خانہ کو توپ سے اڑا دیا جائے گا۔ حددرجہ مجبوری میں احمد خان، لارڈ برکلے کے پاس پہنچا۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ مگر اب معاملہ مزید سنگین ہو گیا۔

احمد خان کی گرفتاری نے راوی دریا کے اردگرد کے علاقوں میں آگ لگا دی۔ لوگوں نے جتھے تیار کر کے علمِ آزادی بلند کر دیا۔ اندیشہ تھا کہ انگریز، مقامی لڑائی میں برباد ہو جائیں گے۔ حددرجہ مجبوری میں رائے احمد کو جیل سے آزاد کر دیا گیا۔ مگر اب وہ ایک مقامی قبائلی چیف نہیں بلکہ آگ کا طوفان تھا اور ہوا بھی بالکل ایسے ہی۔ احمد خان کھرل نے مقامی لوگوں کو اکٹھا کیا اور انگریزوں پر کاری ضرب لگانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

ارادہ تھا کہ لاہور کو دیگر شہروں سے منقطع کر دیا جائے۔ فرنگی پولیس اور عسکری طاقت کو ختم کر دیا جائے۔ لارڈ برکلے کو اس منصوبہ بندی کی پوری تفصیل دو غداروں نے مہیا کی۔ ان کا نام سرفراز کھرل اور نیہان سنگھ بیدی تھا۔ یہ دونوں احمد خان کے قریبی ساتھی تھے۔

احمد خان کو اس غداری کا قطعاً کوئی علم نہیں تھا۔ منصوبہ کے مطابق احمد خان اپنے ساتھیوں سمیت راوی کو ایک خاص مقام سے عبور کر کے دوسرے کنارے کی طرف جا رہا تھا کہ فرنگی فوج نے مخبری کے مطابق بھاری توپ خانے سے گولہ باری شروع کر دی۔

مگر پنجاب کے یہ سپوت اتنی بہادری سے لڑے کہ انگریزی توپ خانہ فنا ہو گیا اور انگریز فوج کو دو میل تک اندر دھکیل دیا گیا۔ یہ معرکہ گشکوری کے مقام پر ہوا تھا۔ ایک نامور لکھاری، دادا بھوگی جو اس جنگ میں شامل تھا، پوری تفصیل رقم کر ڈالی۔ لڑائی سے پہلے رائے احمد خان کے الفاظ تھے:

جمنا تے مر جانا

ایہہ نال ٹھوکر دے بھج جاونا

کنگن اے کچی ونگ دا

آکھے لڑساں نال انگریز دے

جیویں بلدی شمع تے جوش پتنگ دا

انگریزوں کے پیر اکھڑ چکے تھے۔ اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔ احمد خان نے لڑائی روک دی اور نماز پڑھنی شروع کر دی۔ غدار، لارڈ برکلے کو مسلسل تمام اطلاعات دے رہے تھے۔ نماز میں مصروف دیکھ کر ایک دم یلغار کی گئی۔ نماز کی حالت میں احمد خان کھرل کو پہلی گولی اس کے قریبی رفیق نیہان سنگھ بیدی نے ماری۔ جیسے ہی کھرل گرا، فرنگی دستے نے جسم کو گولیوں سے بھون دیا۔

رائے احمد خان کھرل شہید ہو گئے۔ گوروں نے نزدیکی دیہاتوں میں قتل عام برپا کر دیا۔ جھامرا، پنڈی شیخ موسیٰ اور دیگر دیہات نذرآتش کر دیے گئے۔ پنجاب کے بہادر ہار تو گئے مگر بہادری، جرأت اور سرفروشی کی وہ تاریخ رقم کر گئے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ویسے بتاتا چلوں کہ لارڈ برکلے کو احمد خان کی شہادت کے ٹھیک دو دن بعد فتیانوں نے کیفرکردار تک پہنچا دیا تھا۔

آج مجھے یہ سب کچھ لکھنے کی خاص ضرورت محسوس ہوئی۔ عرصے سے یہ طعنہ سنتا آیا ہوں کہ پنجاب ہمیشہ بیرونی طاقتوں کے سامنے سر نگوں ہوا ہے۔ حملہ آور جہاں سے بھی آئے، پنجاب نے انھیں محفوظ گزرگاہ دی۔ ہر طرح کی سہولت فراہم کی۔ مگر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ پورس نے اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی فوج جو سکندراعظم کے ساتھ تھی، کا کس جانثاری سے مقابلہ کیا۔

کیا مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انگریزوں کو ہر مقام پر شکست نہیں دی۔ جب نادر شاہ افشاراور احمد شاہ ابدالی اپنے لشکر کے ساتھ آئے تو پنجاب میں مغل حکومت کے عہدیدار اور درباری دو حصوں میں تقسیم ہوئے' ایک گروپ حملہ آوروں کا آلہ کار بنا' دہلی میں بھی ایسا ہی ہوا' بابر آج کے ازبکستان کے شہر فرغانا سے نکلا اور مقامی غداروں کے تعاون سے کابل پر قابض ہوا' پھر یہاں سے آگے بھی اسے غدار ملے اور وہ دہلی تک پہنچا۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ انگریز پوری قوت رکھنے کے باوجود مہاراجہ کے سامنے کسی صورت میں ٹک نہیں پائے۔ پنجاب کی تاریخ کو غور سے پڑھیے۔

آپ کو بہادروں کے خون سے لکھے ہوئے کارنامے نظر آئیں گے۔ ہاں کسی بھی خطے یا علاقے کے لوگوں کی طرح پنجاب میں بھی غدار موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ غدار کس قوم یا علاقے میں نہیں ہوتے۔ دنیا کو چھوڑیئے، برصغیر میں آپ کو اس سفلی سطح کے ان گنت کردار، ہر قوم، قبیلہ اور علاقے میں وافر تعداد میں مل جائیں گے۔ مگرکسی سطح پر بھی کوئی شعبہ دیکھ لیجیے۔ سیاست، ریاستی ادارے، بیورو کریسی، تاجر۔ ایک بات بطور طعنہ سننے کو ضرور ملے گی۔ یہ تو پنجابی ہیں۔

بلوچستان میں رہنے کا طویل اتفاق ہوا۔ وہاں آبادی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پٹھان اور بلوچ۔ پٹھان بیلٹ میں جو بھی غیرپٹھان ہے اسے پنجابی گردانا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہر سختی روا رکھنا قدرے آسان ہے۔ یہی صورت حال بلوچ ایریا کی ہے۔ علاقائی تعصب کو خود دیکھ چکا ہوں، مگر پنجاب کی میرٹ پر بات بلکہ تعریف کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔

موجودہ پنجاب بارہ کروڑ آبادی کا خطہ ہے۔ کچھ نہ کیجیے۔ صرف یہ دیکھ لیجیے کہ اتنے بلوچ اور پٹھان، بلوچستان اور کے پی میں نہیں جتنے پنجاب میں آباد ہیں۔ اتنے مہاجر کراچی میں نہیں جتنے اس صوبہ میں آباد ہیں۔ اس میں کسی قسم کی کوئی بری بات نہیں۔پنجاب میں تعصب حددرجہ کم ہے۔

آپ کسی گاؤں، شہر یا قصبہ میں چلے جایئے۔ ہر قومیت کا شخص بڑے آرام اور سکون سے زندگی گزارتا نظر آئے گا۔ مگر کیا دوسرے صوبوں میں ایسا ہی رویہ ہے' کچھ عرصہ پہلے گوادر جانے کا اتفاق ہوا۔ معلوم ہوا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد یا تو ہجرت کر چکے ہیں یا قتل کر دیے گئے ہیں۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ ریاستی اداروں میں کسی قسم کا کوئی نسلی تعصب موجود نہیں ہے اور یہ بات قابل فخر ہے۔ مگر سمجھنے والی بات یہ ہے کہ گالی صرف پنجاب کو ہی کیوں پڑتی ہے۔ جو تمام صوبوں کے لیے ایک امن اور بلاتفریق ترقی کرنے کی جگہ ہے۔

کوئی یہ نہیں کہتا کہ جناب ذرا اپنے صوبوں کے اندر معاملات کو بھی تعصب کی عینک کے بغیر دیکھ لیجیے۔ ذاتی طور پر میں ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو چکا ہوں۔ میرے والدین، ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ پنجاب ہی میں پیدا ہوا۔ یہیں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا۔ ساٹھ برس سے زیادہ عمر ہو چکی ہے۔

آج تک مجھے پنجاب میں کسی بھی دیگر قومیت کے خلاف معمولی سا تعصب نظر نہیں آیا۔ مگر دوسرے صوبوں میں شاید معاملات اتنے خوشگوار نہ ہوں۔ بہت سے علاقائی اور قوم پرست سیاست دانوں کو جانتا ہوں جنھوں نے اپنے دور اقتدار میں ہر شعبے سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو صوبہ بدر کیا۔ مگر اس تلخ حقیقت کو تحریر کا مرکزی نکتہ نہیں بنانا چاہتا۔ سنجیدہ ترین سوال تو یہ ہے کہ تمام اکابرین اپنے صوبہ کی بھلائی چاہتے ہیں۔ جو درست بات ہے۔ مگر پنجاب کا مقدمہ کون لڑے گا؟ کس میں جرأت ہے کہ اس صوبے کے معتدل اور متوازن رویہ کو دوسروں کے لیے مثال قرار دے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں