معاشی بحران سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش کریں
ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر آچکی ہے
پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے کراچی کا دورہ کیا اور پاکستان نیول اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے، پاکستان کو درپیش اقتصادی اور دہشت گردی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا اہم ترین ریاستی ادارہ پاک فوج ہے، اس کے سپہ سالار نے صائب بات کہی ہے، کیونکہ پاکستان اس وقت ہر حوالے سے مشکلات کا شکار ہے، اس کا واحد حل جوجنرل عاصم منیر نے تجویز کیا ہے۔
اس کے معنی و تشریح آسان الفاظ میں کچھ یوں بنتی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کریں، چنانچہ ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کیا جائے اور اتفاقِ رائے کے ساتھ وہ اقدامات اٹھائے جائیں جن سے ہمارا قومی، معاشی اور سیاسی بحران ختم ہوسکے۔
ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ متفقہ آئین ہونے کے باوجود ابھی تک ملک کی واضح سمت کا تعین نہیں کرسکے، یہ معاملہ صرف حکمرانوں کا نہیں ملک کے مستقبل کا ہے ،اس لیے اس معاملے پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور اسے قومی دستاویز کا درجہ دیا جائے ، جس طرح تشکیل پاکستان اور دستور پاکستان 1973کے موقع پر اتفاق رائے پیدا کیاگیااور متحد و متفق ہوکر اپنے ہدف کی جانب بڑھا گیا، آج بھی اسی اسپرٹ کی ضرورت ہے۔
اسی صورت میں اس پالیسی کے اہداف حاصل ہونگے اور ملک جن معاشی، داخلی و خارجی مسائل کاسامنا کررہاہے ان سے نمٹا جاسکے گا۔
ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر آچکی ہے ،خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ، ہمارے سیکیورٹی اداروں کے جوان مادر وطن پر اپنی جانیں نچھاور کررہے ہیںکیونکہ ہماری سرحدوں پر صورتحال کشیدہ ہے ۔
یہ سب کچھ ایک عام آدمی کو بھی نظر آرہا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر باہم دست وگریباں ہیں۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک سیاسی و معاشی بحران سے دوچار ہے اور سیاسی قیادت محاذ آرائی کی بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئی ہے۔
اس سے نکلنے کا راستہ سجھائی دے رہا ہے نہ کوئی راہ تلاش کی جارہی ہے ،قوموں کی زندگی میں مشکل دور آتے ہیں ، لیکن اس دور سے قومی قیادت ہی اپنے اختلافات بھلا کر نکالتی ہے ،ہماری سیاسی قیادت میں کسی نقطے پر اتفاق رائے کی گنجائش ہی نظر نہیں آرہی ہے۔
قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ جس میں کشیدگی کم ہونے کانام لے رہی ہے نہ ہی معاملات سلجھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر آرہی ہے ،اس کے نتیجے میں آئے روز بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور ملکی معاشی ساکھ اور اعتماد کمزور تر سطح پر پہنچتا جارہا ہے۔
اس وقت ملکی معیشت بدترین حالات سے دوچار ہے ،مہنگائی ناقابل تصور حدتک بڑھ چکی ہے ،عوام کے لیے دووقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے ،یہ سب سیاسی عدم استحکام کے باعث ہورہا ہے۔
گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل سکوک بانڈ کی ایک ارب ڈالر کی ادائیگی سے حکومت نے دیوالیہ پن کے فوری خطرات کو تو ٹال دیا لیکن معاشی ماہرین آنے والے چند برس میں جن ادائیگیوں کے لیے انتظامات کی جانب توجہ دلارہے ہیں وہ بلاشبہ غیرمعمولی ہیں۔
آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے تین برس کے دوران پاکستان کو 73 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنا ہیں، جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر اس کا عشرعشیر بھی نہیں۔ معاشی حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں اس دہائی کے دوران آنے والی حکومتوں کا اہم کردار ہے۔
اس دوران ملک کے بیرونی قرضوں میں دو گنا اضافہ ہوا اور 2015ء میں بیرونی قرضو ں کا جو حجم 65 ارب ڈالر تھا، گزشتہ مالی سال تک 130 ارب ڈالر تک پہنچ گیا مگر بھاری غیرملکی قرضوں کے باوجود قومی آمدنی بڑھانے کے لیے معاشی استحکام اور پائیدار منصوبوں کو ترجیح نہیں دی گئی، نہ ہی برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا۔
قومی شماریات کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سات برس میں برآمدات کے حجم میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا مگر اس دوران درآمدات 85 فیصد بڑھ گئیں۔
کھلے دل سے غیرملکی قرضے لیے گئے مگر ان کی ادائیگی کہاں سے ہو گی؟ اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور بتدریج یہ قرض کا پہاڑ آج اس قدر اونچا ہوچکا ہے کہ ہماری معیشت اس کے مقابلے میں کمزور معلوم ہوتی ہے۔
یہ صورتحال ہرچند کہ نہایت تشویش ناک ہے مگر اس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں؛ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے میں مزید غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔
بڑھتے ہوئے قرضوں کے مقابلے میں قومی آمدنی میں کیوں اضافہ نہ ہوا، یہ ایک کھلا راز ہے۔ قومی آمدنی میں اضافہ کرنے کی جانب ہماری حکومتوں کی غیردلچسپی ڈھکی چھپی نہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ فی زمانہ پاکستان ان ممالک میں نمایاں ہے جہاں معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے۔
حکومتیں اشیائے ضروریہ اور پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود شعبوں پر بوجھ ڈالتی ہیں مگر اصلاح کے وہ اقدامات جو اَب تک نہیں کیے جاسکے اور جہاں فی الحقیقت اصلاح کی ضرورت ہے اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ ہر آنے والی حکومت نے اپنی آمدنی میں اضافے کے ان امکانات پر کام کرنے کے بجائے قرضوں کے حصول کو ترجیح دی مگر اب یہی تن آسانی قومی معیشت کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔
مزید سیاسی خاک اڑانے میں وقت ضایع کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اس قومی اہمیت کے معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ادائیگیوں کا جو پہاڑ سامنے ہے اسے سر کرنے کی منصوبہ بندی بغیر وقت ضایع کیے ہونی چاہیے مگر اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک میں سیاسی امن اور استحکام کا ماحول ہو۔
معاشی بد حالی پاکستان کا نمبر ون مسئلہ بن چکا ہے جس کے لیے میثاق معیشت کی ضرورت ہے۔اس میثاق میں عہد کیا جائے کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیے تمام ضروری اقدامات ترجیحی بنیادوں پر کیے جائیں گے۔
صنعت اور زراعت پر پوری توجہ دی جائے گی،گروتھ میں شراکت کے اصول پر اضافہ کیا جائے گا، ہیومن ریسورس پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ نوجوان ہنر سیکھ کر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور ملکی گروتھ میں اضافہ کر سکیں۔غریب عوام پر ٹیکس ختم کرکے امیروں پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے گا۔ زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس عائد کیا جائیگا۔معاشی نظام کو سماجی انصاف کے اصولوں پر تشکیل دیا جائے،کرپشن ذخیرہ اندوزی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے سنگین سزائیں مقرر کی جائیں۔گزشتہ 75 سالوں کے دوران تعلیم کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نظر انداز کیا گیا۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور آئین کے آرٹیکل 25 اے کے مطابق ریاست پاکستان کے ہر بچے کو تعلیم کے مواقعے فراہم کرے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتیں ناکام ہوئی ہیں۔
پاکستان کی کسی حکومت نے تعلیم پر پوری توجہ نہیں دی اور تعلیم کا بجٹ بہت کم رکھا گیا۔ قومی ایجنڈے میں تعلیم کو شامل کیا جانا چاہیے۔پاکستان کی آبادی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 2040 میں پاکستان کی آبادی 302 ملین ہو جائے گی۔
ہم معاشی استحکام کے لیے کوئی بھی منصوبہ بنا لیں وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکے گا جب تک آبادی کو کنٹرول نہ کیا جائے۔
اس سلسلے میں چین اور بنگلہ دیش کے ماڈل ہمارے سامنے ہیں ان دونوں ملکوں نے اپنی آبادی کو کنٹرول کیا ہے۔امن و امان کے قیام اور جان و مال کے تحفظ کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنی پولیس اور دوسرے سیکیورٹی کے اداروں کو ہر لحاظ سے مثالی اور معیاری بنائیں جن پر عوام اعتماد کرتے نظر آئیں۔
مثالی اداروں کے بغیر گڈگورننس کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون چلتا ہے۔
جب تک ہم آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنائیں گے اور ایک عام آدمی سے لے کر بڑے آدمی تک آئین و قانون کی یکساں حکمرانی نہیں ہوگی ہم ریاست کو کامیابی کے ساتھ نہیں چلا سکیں گے اور ہر وقت مختلف نوعیت کے بحرانوں میں ہی پھنسے رہیں گے۔
پاکستان کے عوام بھی قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے کے لیے سیاست دانوں پر دباؤ ڈالیں۔میڈیا قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے کے سلسلے میں آگاہی مہم چلائے۔میڈیا پر سیاسی لیڈروں کے بیانات اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات کو ہی اچھالا جاتا ہے جب کہ پاکستان کے قومی اور عوامی مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں۔
سیاست دانوں صحافیوں اور دانشوروں کا فرض ہے کہ ذاتی اور گروہی مسائل کے بجائے قومی اور عوامی مسائل کو ترجیح دیں۔
ملک میں سیاست صرف مسائل پیدا کرنے کا ہی نام نہیں، بلکہ مسائل کو حل کرنے کی ذمے داری بھی اہل سیاست پر ہی عائد ہوتی ہے، حکومتی حلقوں کو بھی چاہیے کہ وہ ماحول میں تلخی بڑھانے کے بجائے اسے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو اس سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کی سنجیدہ کوشش کریں ۔