دعا ہے یہ سال آپ کی زندگی میں خوشیوں کی نوید لائے۔ (فوٹو: فائل)
نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے
''یکم جنوری ہے، نیا سال ہے'' کیلنڈر پر سال کا ایک اور ہندسہ بدل چکا ہے لیکن ہم امیر قزلباش کی طرح اس مصرعے کے بعد یہ نہیں کہیں گے کہ ''دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے'' کیونکہ ہم خوش امیدی اور مثبت جذبوں کے ساتھ اس نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے۔
نکتہ چینی کرنے والے تو کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتے، کچھ اور نہیں تو یہی اعتراض دھر دیں گے کہ یہ تو عیسوی سال کی ابتدا ہے، مسلمانوں کا سال تو محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو کہ غم کا مہینہ ہے، سال نو کی خوشی منانا تو جائز نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن کلفت بھری اس زندگی میں خوشی منانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے ہی کیوں دیا جائے۔ مانا کہ سال کا صرف ہندسہ ہی تو بدلا ہے ''نہ شب و روز ہی بدلے ہیں، نہ حال اچھا ہے'' لیکن دل کے خوش رکھنے کو تو یہ خیال اچھا ہے ناں؟ اور کون جانے آنے والا سال اپنے ساتھ کیا نوید لاتا ہے۔
مانا کہ حالات ہمیشہ کی طرح اب بھی اچھے نہیں ہیں۔ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ مہنگائی جہاں آسمان کو چھو رہی ہے وہیں جرائم کی شرح بھی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ شہرِ قائد تو لگتا ہے مقتل بنا ہوا ہے۔ ڈاکو معمولی چیزوں کی لوٹ مار کے دوران نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ سالِ گزشتہ جتنا کرائم ریٹ بڑھا ہے اتنا تو گزشتہ دہائی میں بھی نہ تھا جب ملک خودکش دھماکوں کی زد میں تھا۔ ایسا اچانک کیا ہوگیا کہ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے۔ سیاست کے میدان تو ہمارے ملک میں ہمیشہ ہی قحط الرجال کا شکار رہے ہیں۔ ملکی سیاست میں کوئی مخلص لیڈر کبھی میسر آہی نہیں سکا، سب اپنی خودغرضانہ سیاست کے شاہکار ہیں، ملک کی فکر کسی کو نہیں تو عوام کا درد کیا ہوگا۔ کوئی سیاست دان محض اپنی انا کی خاطر عوام کو کٹھ پتلی بنائے ہوئے ہے تو کوئی اپنا بینک بیلنس بڑھانے کے لیے اس ملک کو مزید نوچ کھسوٹ رہا ہے۔
ملک کی سیاست کا یہ حال ہے کہ کسی عوامی لیڈر کو ابھرنے ہی نہیں دیا جارہا۔ وہ بلدیاتی نظام جو عوام کے درد کا کچھ درماں کرسکتا ہے اس سے مستقل گریز کیا جارہا ہے۔ عدالتوں کے احکامات کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ لیکن اگر بلدیاتی نظام قائم ہوگیا تو ایوانوں میں بیٹھے سیاستدانوں کی دکانیں نہ بند ہوجائیں گی۔ سچ ہے کوئی بھی سیاستدان ملک و قوم سے مخلص نہیں۔
یہ تمام حقائق اپنی جگہ لیکن امید تو باقی ہے۔ غالب کی طرح ہم بھی کہہ سکتے ہیں ''دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض''۔ حالانکہ ''پچھلا برس تو خون رُلا کر گزر گیا''۔
لیاقت علی عاصم کی طرح ہم یہ دعا تو کرسکتے ہیں ناں:
گزشتہ سال کوئی مصلحت رہی ہوگی
گزشتہ سال کے سکھ اب کے سال دے مولا
ایکسپریس بلاگز کے تمام قارئین کو بھی نیا سال مبارک ہو۔ دعا ہے یہ سال آپ کی زندگی میں خوشیوں کی نوید لائے۔ (آمین)
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔