4 اپریل کا انصاف۔۔۔

ہم آئین توڑنے کی سزا موت رکھنے والے کو متنازع پھانسی سے نہ بچا سکے۔


Rizwan Tahir Mubeen April 04, 2014
ہم آئین توڑنے کی سزا موت رکھنے والے کو متنازع پھانسی سے نہ بچا سکے۔

LANDI KOTAL: اپریل۔! کہنے کو یہ دن ہر سال آتا اور گزر جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ہو تو سرکاری سطح پر بھی چرچا ہوتا ہے اور نہ ہوتو غیر سرکاری سطح پر بھی ۔ یہ دن قومی تاریخ کا ایسا داغ ہے، جو شاید ہی کبھی دھویا جا سکے۔ عدلیہ کے کردار پر ایسا تازیانہ کہ ''انصاف، انصاف'' کی کائیں کائیں کی اصل اوقات سامنے آجاتی ہے۔ مگر کیا کیجیے، یادکسے رہتا ہے اور کون یاد کرتا ہے کہ کس نے کب،کب آئین شکنوں کی آغوش میں پناہ لی تھی۔ انصاف تو وہاں سے شروع ہوتا ہے، جہاں سے ان کی نام نہاد ''ناں'' بلکہ ''انا'' شروع ہوتی ہے کہ ''اب بچ بیٹا۔!''

لکھنا تو پہلے منتخب وزیراعظم کی عدالتی پھانسی پر تھا مگر نہ جانے کیوں یہ ''وسوسے'' ابتدائیے میں ہی امڈتے چلے آئے۔ ہو نہ ہو یہ وسوسے بھی نری فوجی حکومت کی طرح ہوتے ہی ۔ انہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں لگتا۔ لکھنے پر کوئی پائی، پیسہ ٹیکس نہیں، لہٰذا مشورے بھی مفت دیتے ہی چلے جائیں، وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ تھوک کے حساب سے۔ ارے، یہ ہوا کیا ہے کہ وسوسوں کا گلا گھونٹتے سمے یہ قلم پھر بھٹک گیا۔لگتا ایسا ہے کہ اب کے قلم بھی برہم ہے۔ چلیں موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔ یعنی ذوالفقار علی بھٹو۔

مخالفین ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان توڑنے کا ملزم گردانتے ہیں، شیخ مجیب کی اکثریت تسلیم نہ کرنے پر سوال کرتے ہیں، پہلا منتخب وزیراعظم ہونے کے باوجود اختلاف رائے کم ہونے کا دوش دیتے ہیں، سرحد اور بلوچستان کی منتخب حکومتیں چلتا کرنے پر تنقید کرتے ہیں، بلوچستان میں آپریشن اور سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیوں کو بڑی غلطی قرار دیتے ہیں اور ۔ اس کے بعد ان کی اختیار کردہ مختلف حکمت عملیوں پر تنقید کرتے ہیں، جس میں سرفہرست ادارے قومیائے جانے کی حکمت عملی ہے۔

دوسری طرف حامیوں کا نعرہ ہے ''کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے!'' بکھرے منتشر پاکستان کو سمیٹنے کا سہرا ان کے سر باندھ کر انہیں ''نئے پاکستان'' کا بانی قرار دیا جاتاہے۔ ملک میں جمہوریت اور دستور سازی سے لے کر ان کی تمام سیاسی اور انتظامی حکمت عملیوں کا دفاع کیا جاتا ہے۔

لہذا دونوں اطراف کے خیالات سے قطع نظر،آج کے دن کا نوحہ عجیب ہے۔ 1958ء سے 1988ء تک کے لگاتار تین عشروں میں پہلے ملک کے دو ٹکڑے ہی نہیں ہوئے بلکہ اس کے بعد آنے والوں نے اپنے پیش روئوں پر سبقت لے جانے کی بھی کوشش کی ۔ اس کے باوجود ۔ فقط ساڑھے پانچ سال ہی منتخب حکومت کے حصے میں آسکے۔ خیر جانے دیجیے اس قصے کو بھی۔

کچھ سبق سیکھنے کی بات کرتے ہیں۔ لکھی باتوں سے اخبارات کے صفحے بھی کالے اور ٹی وی کے اسپیکر چنگھاڑے جا رہے ہیں، لیکن پلّے کچھ پڑنا چاہیے! متھا خوری وصول ہونی چاہیے، ورنہ آج کے دور میں دوسروں کا وقت پینا گناہ کبیرہ سے کم تو نہیں لگتا!

دستور بنانے والے کی موت کو آج 35 برس بیت گئے۔۔ اس نے نظام اتنا پختہ بنایا کہ بعد کی دو فوجی حکومتیں پچھلی دو بار کی طرح اسے تلپٹ نہ کر سکیں۔ دستور شکنی کی سزا موت رکھی جی ہاں وہی آرٹیکل چھہ، چاروں طرف جس کی ہاہا کار ہے۔ اس کا پہلا ملزم مسلسل 11 برس تک سیاہ وسفید کا مالک بنا رہا، پھر 11 برس کے دوران آنے والی 4 حکومتیں باہمی کھینچا تانی کی نذر ہوئیں۔ 1999ء میں ایک اور فوجی حکومت مقدر ہوئی یعنی دوسری بار آئین توڑا گیا۔۔ ایسے جام پہ جام لڈھائے گئے کہ سب ہی نے پیئے۔

ہم آئین توڑنے کی سزا موت رکھنے والے کو متنازع پھانسی سے نہ بچا سکے، جب کہ آج اس کے ایک ملزم کو ''پہلی باری'' کی غیر اعلانیہ ''معافی'' دے کر دوسری باری کی پکڑ کر رہے ہیں اور پکڑ بھی ایسے رہے ہیں کہ پکڑ میں ایک ہی آئے، جیسے اس نے یہ کبھی دعویٰ کیا ہو کہ ''آئین کیا کاغذ کا ٹکڑا، جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں!''

''ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی!'' آج کے دن کے سبق کی طرف لوٹتے ہیں۔۔ فرشتہ کوئی بھی نہیں، غلطیاں سب ہی کرتے ہیں اور یقیناً ذوالفقار علی بھٹو سے بھی ہوئیں، لیکن ان کے اپنوں اور بے گانوں نے ان سے کیاسیکھا؟ اب اس بات کا جواب قارئین پر۔! لیکن ہم سب ہی کو یہ اعتراف تو کر ہی لینا چاہیے کہ بھٹو آج بھی واقعی زندہ ہے! جی ہاں جب تک یہ ریاست اور یہ دستور موجود۔ سب ہی اس کے ''زندہ'' ہونے کا اعتراف کریں گے، زبان سے چاہے نہ کہیں۔ 1973ء کے دستور کا نام لینے والے اس کے معمار کو کیوں کر فراموش کرسکتے ہی۔ہمیں ماننا تو پڑے گا۔یہی 4 اپریل کا انصاف ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں