درآمدات مسائل کی وجہ سے ملک میں طبی سامان کی قلت سرجریز میں تعطل کا خدشہ
پاکستان کے اسپتالوں میں استعمال ہونے والی 90 فیصد میڈیکل ڈیوائسز امپورٹ کی جاتی ہیں، ہیلتھ کئیر ڈیوائسز ایسوسی ایشن
ملک بھر میں طبی سامان کی عدم فراہمی کے باعث جان بچانے والی سرجری کے تعطل کا شدید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
ہیلتھ کئیر ڈیوائسز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں میڈیکل اور سرجری کے آلات اور مشینری کی امپورٹ میں درپیش مسائل کی وجہ سے طبی سہولتوں کی فراہمی کے سنگین بحران کا خدشہ سر پر منڈلا رہا ہے۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان نے طبی آلات کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا تھا جس کے بعد امپورٹ پالیسی کو ڈریپ کے سرٹیفیکیٹ سے مشروط کر دیا گیا تھا، ڈریپ گزشتہ کئی سالوں میں جمع کرائی جانی والی رجسٹریشن کی بیشتر درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکا اور اب تک مشکل سے تین ہزار کے قریب درخواستیں ہی نمٹائی جاسکی ہیں جبکہ پاکستان میں استعمال ہونے والی میڈیکل کی اشیا کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔
میڈیکل ڈیوائسز میں لیب ٹیسٹ، سرجری اور اسپتالوں میں استعمال ہونے والے دیگر تمام آلات شامل ہیں، میڈیکل ڈیوائسز میں سرنج، کینولا، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر ناپنے والے آلات سے لیکر الٹرا ساؤنڈ، ایکسرے، سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کی مشینری تک شامل ہے جبکہ بغیر میڈیکل ڈیوائسز کے کوئی بھی اسپتال صحت کی سہولت فراہم نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے اسپتالوں میں استعمال ہونے والی 90 فیصد میڈیکل ڈیوائسز امپورٹ کی جاتی ہیں، لہذا امپورٹ رکنے کی وجہ سے اسپتالوں میں صحت کی فراہمی کا عمل رکنے کا شدید اندیشہ ہے۔
ہیلتھ کیئر ڈیوائسز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے کہا کہ ڈریپ، وفاقی محکمہ صحت سمیت دیگر اعلی حکام اسے معاملے سے آگاہ ہیں، اگر فوری طور پر اس مسئلہ کو حل نا کیا گیا تو معاملہ سنگین بحران کی طرف جا سکتا ہے۔
ہیلتھ کیئر ڈیوائسز ایسو سی ایشن پاکستان کے سینئر وائس چیئر مین عدنان صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں 90-95 فیصد طبی سازو سامان اور میڈیکل ڈیوائسز بیرون ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہیں، جدید طرز کا طبی آلات امریکا، کینیڈا،جرمنی،یورپ اور جاپان سے خریدے جاتے ہیں جبکہ چین اور ترکی سے معمولی طبی سازو سامان خریدے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2015 سے قبل دنیا بھر میں میڈیکل ڈیوائسز سے متعلق منظم قانونی طریقے کار موجود ہی نہیں تھا،2015 میں ضرورت محسوس ہونے پر دنیا بھر میں میڈیکل ڈیوائسز رول بنایا گیا جبکہ 2017 میں پاکستان میں میڈیکل ڈیوائسز رول میں ترمیم کی گئی۔
دستاویزات کے مطابق سرکاری اور نجی اسپتال اور مراکز صحت میں استعمال ہونے والےطبی سازو سامان کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے،کلاس ڈی کی ڈیوائسز وہ آلات ہیں جو پیچیدہ آپریشنز میں استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ کلاس اے کے ڈیوائسز وہ طبی ساز و سامان ہیں جو معمولی طبی معائنے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
کلاس ڈی کی رجسٹریشن 30 مارچ 2022،کلاس سی کی رجسٹریشن 30 جون 2022 ،کلاس بی کی رجسٹریشن 30 ستمبر 2022 اور کلاس اے کی رجسٹریشن 31 دسمبر 2022 کو ختم ہوچکی ہے۔
اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف تین ہزار طبی آلات اور ڈیوائسز ہی رجسٹرڈ ہیں جبکہ ڈریپ کے پاس دو لاکھ سے زائد ڈیوائسز کی رجسٹریشن کی گنجائش موجود ہے، سالوں سے متعدد مشینوں کی رجسٹریشن کے لیئے درخواست جمع کروا چکے ہیں لیکن گنجائش ہونے کے باوجود ڈریپ کی جانب سے رجسٹریشن کرنے کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
اس عمل کے لیئے متعلقہ تنظیموں اور اداروں سے بہت سے دستاویزات مانگے جاتے ہیں جو کہ اس عمل کو مزید پیچیدہ کردیتا ہے ،اسلام آباد ہائی کوٹ میں ہمارا کیس بھی چل رہا ہے،دوسری جانب بینکس کے پاس ڈالرز نہیں ہیں جس۔کے سبب طبی سازو سامان کو بیرون ملک سے امپورٹ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈرگ ریگیولیریٹی اٹھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر (سی ای او) عاصم راؤف نے کہا کہ ان کو ہم نے کہا کہ جو اسٹاک آگیا ہے اس کی رجسٹریشن کے لیئے آپلائے کریں،کیوں کہ ہم تو انتظار ہی کررہے ہیں،اور دستاویزات تو دنیا بھر میں جمع کروائے جاتے ہیں،جو کہ اس عمل کا اہم حصہ ہے۔