خلیل جبران 140 ویں سال گرہ

جبران چاہتاہے کہ دنیا میں سکون ہو، شادمانی اورمسرت کا دوردورہ ہواور اس تمناکا اظہاروہ اپنے افسانے ’’طوفان‘‘ میں کرتاہے


Zahida Hina January 04, 2023
[email protected]

دوام کا درجہ اسی چیز کو حاصل ہوسکتا ہے جس میں خالق کے خون جگر کی آمیزش ہو جو عوام کے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو اور جس کا ایک ایک لفظ ''سچ '' پر مبنی ہو کیونکہ '' سچائی خوبصورتی ہے'' اور خوبصورتی ہی کسی چیز کو ہدایت بخشتی ہے۔

آج کے جدید لبنان کے ایک گاؤں بشاری میں حوا کی ایک بیٹی کاملہ نے جب ایک بچے کو جنم دیا تو کون جانتا تھا کہ یہی بچہ جس کا نام جبران رکھا گیا ہے آگے چل کر انسانیت اور ادب کے ماتھے کا دمکتا ہوا جھومر، روحانیت کی جبیں کا مقدس نور اور علم و دانش کا ایک گنگناتا ہوا چشمہ بن کر ابھرے گا۔

6 جنوری 1883کو پیدا ہونے والا لبنانی نژاد امریکی شاعر اور ادیب خلیل جبران ولیم شیکسپیئر اور لاؤ تاز کے بعد انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا شاعر ہے۔

جبران نے اپنی انفرادیت کا اظہار بچپن ہی سے کرنا شروع کر دیا تھا ، وہ اپنے خوابوں میں مسیح کو مغلوب ہوتے اور مریم مقدس کو '' ہائے میرا بیٹا ، ہائے میرا لال '' کہہ کر فریاد کرتے ہوئے دیکھتا۔ وہ اپنی ماں سے پوچھتا کہ جب رومی اور مارونی دونوں عیسائی ہیں تو پھر انھیں الگ الگ نام سے کیوں پکارتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے کیوں دیکھتے ہیں۔

جبران نے اس دوڑ میں ہوش سنبھالا تھا جب ہر طرف جاگیرداری اور کلیسائیت کا دور دورہ تھا۔ جہاں افلاس اور ذہنی عیاشی کے ہیبت ناک عفریت عوام کی گردنوں میں پنجے گاڑے بھیانک قہقہے لگا رہے تھے ، مذہب کی آڑ میں ہوسناکی اور عیش پرستی جاری تھی، مذہب پر رسوم کی دبیز تہیں پڑی ہوئی تھیں، اگر کوئی ان پردوں کو ہٹا کر اصل تصویر دیکھنا یا دکھانا چاہتا تھا تو اس کی آنکھیں نوچ لی جاتی تھیں۔

جبران کی انگریزی میں لکھی گئی سب سے مشہور کتاب '' پیغامبر '' 'The Prophet' 1923 میں پہلی مرتبہ شایع ہوئی اور 60ء کی دہائی میں وہ دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔

جبران کہنے کو تو لبنان میں پیدا ہوا اور لبنان کا شہری کہلایا لیکن اس نے صرف لبنانیوں کی تباہی و بربادی پر ہی آنسو نہیں بہائے ہیں بلکہ اس کی آنکھوں نے انسانیت کی پستی پر بھی اشک بہائے ہیں، وہ گزرے ہوئے کل کا ادیب تھا ، آج کا ادیب ہے اور آنے والے کل کا بھی۔ ہر ملک کے عوام کے دلوں کی دھڑکن اس کے دل کی دھڑکن ہے۔

ہر ملک کے عوام کی ذلت و بربادی اس کی اپنی ذلت و بربادی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ صرف ایک لبنانی ادیب ہی نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی ادیب بھی ہے اور اسی نکتے کی توضیح جارج برناڈ شا اپنی کتاب میں کرتے ہوئے کہتا ہے۔

اس کے شہ پاروں میں مذہب اور رومان مل جل کر ایک پر اسرار فضا ایک طلسماتی کیفیت پیدا کردیتے ہیں جس کے سحر میں قاری کھو کر رہ جاتا ہے۔ اس کے یہاں خوش گلو مطرب کے کے ترانے بھی ملتے ہیں اور مرثیہ خوانوں کی آہ و بکا بھی اس کا فن درد و غم اور طرب و مسرت دونوں کا مظہر ہے۔

''ریت اور جھاگ '' میں ایک جگہ لکھتا ہے۔ '' اگر تیرا دل آتش فشاں'' ہے تو پھر کیوں توقع رکھتا ہے کہ وہ پھولوں کو تیرے ہاتھ میں تر و تازہ رہنے دے گا ؟ ''

اس نے جو کچھ کہا ہے ایک تلخ حقیقت ہے اور بعض اوقات اس تلخ نوائی کی بناء پر ہی بعض افراد سے پاگل، خبطی اور انتہا پسند قرار دیتے ہیں۔ ایک جگہ وہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ خود کو سمجھ سکا نہ جان سکا۔

''میں کبھی لاجواب نہیں ہوا مگر اس شخص کے سامنے جس نے مجھ سے پوچھا، تو کون ہے؟ ''

اپنے افسانے ''پرچھائیں'' میں اس نے انسانی بے کسی اور بے بسی کا ثبوت دیا ہے۔

''ہم انسان لامحدود فضا کے مرتعش ذرے اطاعت و فرمانبرداری کے سوا کچھ نہیں کرسکتے، ہم اگرمحبت کرتے ہیں تو وہ محبت سارے لیے نہیں ہوتی بلکہ ہماری طرف سے ہوتی ہے، ہم اگر خوش ہوتے ہیں تو وہ خوشی ہماری ذات میں نہیں ہوتی بلکہ نفس حیات میں ہوتی ہے، اسی طرح اگر ہم درد میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ درد ہمارے زخموں سے نہیں پھوٹتا بلکہ احشائے فطرت سے پھوٹتا ہے۔''

اس کے افسانوں میں جابجا مناظر قدرت کی حسین عکاسی نظر آتی ہے اور یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں وہ ایک کامل ادیب یا کامل نقاد کے بجائے کامل مصور ہوتا ہے۔

''جب رات آسمان کے لباس میں تاروں کے جواہر ٹانک چکی تو وادیٔ نیل سے ایک پری اپنے غیر مرئی پردوں کو پھڑ پھڑاتے ہوئے بلند ہوئی اور بحرروم پر چھائے ہوئے ان بادلوں کے تخت پر بیٹھ گئی جو چاند کی شعاعوں سے نقرئی معلوم ہو رہے تھے۔

ایک مغربی نقاد لکھتا ہے۔ ''میرا خیال ہے کہ ٹیگور کی '' گیتان جلی'' کے بعد نے مشرق سے ایسے حسین و لطیف نغمات الاپتے ہوئے کسی کو نہ دیکھا۔ جب میں نے خلیل جبران کے حسین و جمیل خیالات ، ہوش و گم کردہ تصورات اور دلکش فلسفے کا مطالعہ کیا تو مجھ پر سقراط کے اس فلسفے کی اہمیت و عظمت بے حجاب ہوگئی کہ حسین تخلیل حسین شکلوں کی نسبت زیادہ ہوشربا اور مسحور کن ہے۔''

اپنے افسانے ''شیطان'' میں اس نے ایک نیا خیال پیش کیا اور جس انداز سے شیطان کے کردار کو ابھارا ہے اس میں اچھوتا پن اور انوکھا پن ہے۔ اس افسانے کو پڑھ کر قاری شیطان سے نفرت کے بجائے ہمدردی کرنے لگتا ہے اور شیطان کی موجودگی کی اہمیت کا قائل ہوجاتا ہے اور قائل کرنے کے لیے ہی شیطان کہتا ہے۔

'' تو کہ لاہوتی مسائل کا رمز شناس ہے، کیا نہیں جانتا کہ شیطان کا وجود ہی اس کے دشمنوں، پادریوں کی تخلیق کا سبب ہے اور یہ پرانی عداوت گویا ایک مخفی ہاتھ ہے جو سونے چاندی کو ایمان پرستوں کی جیب سے واعظوں اور مرشدوں کی جیب میں منتقل کرتا ہے ، توکہ سمجھ بوجھ والا عالم ہے، کیا نہیں جانتا کہ سبب کے زوال سے مسبب خود بخود زائل ہوجاتا ہے پھر تو میرے مرنے سے کیوں خوش ہے جب نہ میری موت تجھے اپنے مرتبے سے گرا دے گی، تیرا رزق بند کردے گی اور تیرے بیوی بچوں کے منہ سے روٹی کا ٹکڑا چھین لے گی۔

عورت کے متعلق جبران نے کہا ہے۔ '' وہ زندگی کی مثال ہے جو ہر انسان کو اپناتی ہے۔ موت کی مثال ہے جو ہر انسان پر غالب ہوتی ہے اور ابدیت کی مثال ہے جو ہر انسان کو خود میں جذب کرلیتی ہے۔''

جبران چاہتا ہے کہ دنیا میں سکون ہو ، شادمانی اور مسرت کا دور دورہ ہو اور اس تمنا کا اظہار وہ اپنے افسانے ''طوفان'' میں کرتا ہے۔

''کیا کبھی وہ دن بھی آئے گا جب انسان زندگی کے دائیں بازو پر بسیرا کرے گا ؟ اور دن کی طرب ناک روشنی میں مسرت کا اظہار کرے گا اور رات کی پر امن خاموشی میں مطمئن ہوگا۔ کیا یہ خواب کبھی حقیقت بن سکتا ہے۔ کیا یہ خواب اس وقت پورا ہوگا جب کہ یہ کرۂ ارض انسانی لاشوں سے بھرپور اور اس کے خون سے سیراب ہوجائے گا؟''

اس کا طویل افسانہ '' خلیل کافر '' ایک ایسے جوان کی کہانی ہے جس نے جاگیرداری کلیسا کے پادریوں اور سماج کی رائیوں کے خلاف آواز اٹھائی تو اسے پوری قوت سے کچل دینے کی کوشش کی گئی۔ وہ حریت پسند جوان اپنی آتش بیانی اور شعلہ نوائی سے ایک کھلی عدالت میں جہاں گاؤں کے تمام افراد اس کے خلاف صادر کیے جانے والے احکام سننے جمع ہوئے تھے۔

ان تمام افراد کے سینوں میں آزادی کی جوت جگاتا ہے اور ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دیتا ہے اور چند ہی لمحوں کے اندر گاؤں کے تمام افراد غلامی کا جو اپنے اپنے کندھوں سے اتار کر پھینک دیتے ہیں۔ یہ کہانی صرف ایک لبنانی جوان کی کہانی نہیں بلکہ دنیا کے ہر حریت پسند جوان کی کہانی ہے۔

ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ '' زبان ایسا درندہ ہے جسے اگرکھلا چھوڑ دیا جائے تو عجب نہیں کہ وہ تمہیں ہی پھاڑ دے۔''

خلیل جبران تمہیں 140 ویں سال گرہ مبارک ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں