توشہ خانہ عمران حکومت کی پیروی
حکومت کے لیے ضروری ہے کہ توشہ خانہ پر سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ختم کیا جائے
حکومت پاکستان کے قواعد و ضوابط کے مطابق تمام سرکاری عہدوں پر فائز قائدین اور سرکاری افسروں کو پابند کیا گیا ہے کہ غیر ملکی سفارت کار یا غیر ملکی حکومت کی جانب سے ملنے والے تحائف اور عطیات کو توشہ خانہ میں جمع کرائیں گے۔
کیبنٹ ڈویژن کے 18 دسمبر 2018کے آفیشل میمورنڈم کی شق 1 کے تحت جو عہدیدار اور آفیسر غیر ممالک کے سفارت کاروں اور حکومتوں سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع نہیں کرائے گا تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کیبنٹ ڈویژن فیڈرل بورڈ آف ریونیو (F.B.R) کے ماہرین کی مدد سے ان تحائف کی قیمت کا تعین کرائے گی۔ گریڈ 1 سے گریڈ 4 کے ملازمین پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا۔ ان قواعد کے تحت توشہ خانہ کا ہر سال انسپیکشن ہوگا۔ توشہ خانہ فارسی زبان کا لفظ ہے ، جس میں سنسکرت کی آمیزش ہے۔ مغل بادشاہوں نے شاہی محل میں توشہ خانہ قائم کیا۔
توشہ خانہ میں بادشاہ کو امرائ، درباریوں، سرداروں، راجواڑوں اور غیر ممالک کے بادشاہوں سے ملنے والے تحائف رکھے جاتے تھے، یوں یہ تصور عام ہوا کہ توشہ خانہ میں رکھے گئے تحائف ریاست کی ملکیت ہیں۔
انگریزوں کے دور میں توشہ خانہ ان مقاصد کے لیے استعمال ہوا جن مقاصد کا تعین مغل بادشاہوں نے کیا تھا۔ ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد بھارت اور پاکستان میں توشہ خانہ قائم رہا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے توشہ خانہ کی نگرانی کیبنٹ ڈویژن کے سپرد کی۔ کیبنٹ ڈویژن نے کچھ قواعد و ضوابط تیار کیے ۔
ان قواعد کے تحت تاریخی نوعیت کے تحائف (Antiques) کو عجائب گھروں میں بھیجا جانے لگا ، مگر بعد میں برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے ان قواعد و ضوابط میں نرمی کی اور تحائف میں ملنے والی گاڑیوں کی فروخت کی اجازت دیدی گئی۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ کو ترکی کے صدر نے ایک قیمتی ہار تحفہ کے طور پر دیا تھا مگر یوسف رضا گیلانی نے ہار توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے اپنی اہلیہ کے گلے میں ڈال دیا اور جب گیلانی وزیر اعظم کے عہدہ سے فارغ ہوئے تو ان کی اہلیہ یہ ہار لے کر ملتان چلی گئیں۔
میاں نواز شریف کے دور حکومت میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو توشہ خانہ میں ہار جمع نہ کرانے کے مسئلہ کا علم ہوا تو انھوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یوسف رضا گیلانی کو قانون کے مطابق یہ ہار واپس توشہ خانہ میں جمع کرانا چاہیے تھا۔ یوسف رضا گیلانی نے یہ عذر پیش کیا کہ ان کو اور ان کی اہلیہ کو توشہ خانہ کے قانون کا علم نہیں تھا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ ترکی کے صدر کی اہلیہ نے ذاتی طور پر یہ ہار ان کی اہلیہ کو دیا ہے مگر جب چوہدری نثار علی خان نے توشہ خانہ کے قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کا عندیہ دیا تو گیلانی صاحب نے اپنے ایک نمایندہ کے ذریعہ یہ ہار توشہ خانہ میں جمع کرا دیا۔
عمران خان کے وزارت عظمیٰ کے دوسرے سال یہ افواہ گشت کرنے لگی کہ سعودی عرب کے ولی عہد سے ملنے والی ایک قیمتی گھڑی کو لاکھوں ڈالر کے عوض دبئی میں فروخت کردیا گیا ہے۔ ایک صحافی نے اطلاعات کے حصول کے قانون کے تحت کیبنٹ ڈویژن سے استدعا کی کہ اس گھڑی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں مگر وزیر اعظم ہاؤس اور کیبنٹ ڈویژن نے اس استدعا کو مسترد کیا۔ یوں یہ معاملہ وفاقی انفارمیشن کمیشن کے پاس گیا۔
کمیشن نے وزیر اعظم ہاؤس کو ہدایت دی کہ گھڑی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔ وفاقی حکومت نے یہ مدعا پیش کیا کہ توشہ خانہ پر خفیہ معلومات کو افشا نہ کرنے کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ انفارمیشن کمیشن نے اپنے فیصلہ میں واضح کیا کہ توشہ خانہ کے بارے میں عوام کو جاننے کا حق حاصل ہے۔
عمران خان کی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر ہائی کورٹ نے انفارمیشن کمیشن کے فیصلہ کو برقرار رکھا ، یوں عمران خان کو سعودی فرماں روا کے تحفہ کی گھڑی کو فروخت کرنے کا اقرار کرنا پڑا۔
حکومت نے توشہ خانہ کا یہ مقدمہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھیجا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا۔ الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر 2022 کو توشہ خانہ ریفرنس میں حقائق چھپانے پر پانچ سال کے لیے عمران خان کو نا اہل قرار دیا۔
پھر ایک شہری نے کیبنٹ ڈویژن سے استدعا کی کہ 1947 سے اب تک جو تحائف توشہ خانہ میں جمع ہوئے اور ان میں کچھ کو فروخت کیا گیا تو اس کی فہرست فراہم کی جائے۔ اب میاں شہباز شریف کی حکومت نے عمران خان حکومت کی پیروی شروع کردی۔ کیبنٹ ڈویژن نے ان معلومات کو اس بناء پر عام کرنے سے انکار کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی مگر انفارمیشن کمیشن نے ہر شہری کے جاننے کے حق کا تحفظ کیا۔
پی ڈی ایم حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس فیصلہ کو چیلنج کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہباز شریف حکومت کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ایک عذر تلاش کیا کہ کیبنٹ ڈویژن کے پاس 1991 سے پہلے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
ایک صحافی نے جو بعد میں یہ دنیا چھوڑ گئے ، نے اپنے بلاگ میں بتایا تھا کہ صرف وزیر اعظم، وزراء اور سول سروس کے افسران اور جج صاحبان وغیرہ پر کیبنٹ ڈویژن کے قواعد و ضوابط کا اطلاق ہوتا ہے مگر شعبہ عسکری کے افسران پر نہیں ، پھر شہباز شریف حکومت نے وفاقی انفارمیشن کمیشن کے سربراہ اور اراکین کے تقرر کی فائل کو لاپتہ کردیا گیا۔ عمران خان حکومت کے میڈیا ایڈوائزر الزام لگاتے ہیں کہ عمران خان پہلے سیاسی رہنما نہیں بلکہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری وغیرہ بھی توشہ خانہ کی اشیاء سے مستفید ہوتے رہے۔
اگرچہ میاں شہباز شریف نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کوئی تحفہ نہیں لیں گے اور تمام تحائف توشہ خانہ میں رکھے جائیں گے مگر ابھی تک واضح قوانین کی عدم موجودگی شفافیت کے اصول کو پامال کررہی ہے۔
اس ضمن میں گجرات کے قصائی بھارتی وزیر اعظم مودی کا کردار بھی سامنے آتا ہے۔ مودی نے ایک وڈیو میں بتایا تھا کہ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انھیں روایات کے تحت مختلف افراد جن میں غیر ملکی سفارت کار بھی شامل تھے تحائف دیے تھے۔ پہلے تو انھوں نے یہ تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے مگر جب ان کی تعداد بڑھ گئی تو پھر ان اشیاء کی نیلامی کا فیصلہ کیا تاکہ وصول ہونے والی رقم سرکاری خزانہ میں جمع ہوجائے اور انھوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شفاف زندگی گزارنے والے عمائدین کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ حکومت کے لیے ضروری ہے کہ توشہ خانہ پر سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق ختم کیا جائے۔ کیبنٹ ڈویژن ہر تحفہ کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کرے۔
وفاقی حکومت انفارمیشن کمیشن کو دوبارہ فعال کرے تاکہ عوام کے جاننے کے حق کو تحفظ مل سکے اور ان تحائف کی فروخت کے بارے میں شفاف قوانین تیار کیے جائیں۔ وزیر اعظم، وزراء ، منتخب اراکین، ججوں اور سرکاری افسروں کے علاوہ عسکری افسران کو بھی ان قوانین کا پابند کیا جائے۔