دلی کو نشانہ بنانے والی توپ
لوہار نے توپ کے فیتے کو آگ دکھائی، ایک قیامت خیزدھماکا ہوا اورچاروں طرف دھوئیں کا بادل پھیل گیا
اپنے ہاں ''بیانات''کی جو سدا بہار فصل گزشتہ پونے صدی سے لہلہا رہی ہے اور اتنی بڑی مقدار میں ہے کہ اپنے ہاں جیتے جاگتے جانور تو کیا، پیڑ، پودے، دیواریں اور عمارتیں بھی ''بیانات'' اگلنے لگی ہیں بلکہ اب تو سڑک کنارے ہوا میں بھی باتصویر بیانات لہرا رہے ہیں اور آنے جانے والوں کو آنکھیں مار رہے ہوتے ہیں یعنی
کثرت جذبات سے چشم شوق کس مشکل میں ہے
اتنی شمعیں کب تھیں جتنی روشنی محفل میں ہے
بلکہ اب تو سنا ہے کہ حکومت بیانات کی فالتو پیداوار ''باہر'' بھیج رہی ہے اور اس کے بدلے بھاری ''قرضے'' درآمد کرنے لگی ہے ۔کبھی کبھی اس ''کیش کراپ'' میں کسی نئے شگوفے کااضافہ بھی ہوجاتا ہے جیسے کشمیریوں سے ''یک جہتی'' بھارت کو خبرداری اور دوسرے ممالک کے ساتھ بے پناہ دوستی کے شگوفے۔ چنانچہ اس سلسلے میں جو نیا اورمہکتاہوا شگوفہ کھلا ہے، وہ وزارت خارجہ نے کھلایاہے ،وہ یہ ہے کہ بھارت کو ایک مرتبہ خبردار کیاگیا ہے کہ وہ بابری مسجد کو اپنے خرچے پر تعمیرکرے اورمسجد شہید کرنے والوں کو سخت سزا دے۔
یہ بیان بابری مسجد کی شہادت کی تیسویں برسی کے موقعے پر جاری کیاگیاہے ۔اس پرآپ ٹریجیڈی میں کامیڈی بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ معمول کے مطابق اس خوشی (سرکاریوں کے لیے) کوئی تقریب بھی کسی فائیوا سٹار ہوٹل میں منعقد کی گئی ہوگی جس میں سرکاری طور پر منظورشدہ دانشوروں نے اپنی دانش کے جادو بھی جگائے ہوں گے اورخواتین نے لباس، زیورات اور میک اپ کے مقابلے بھی کیے ہوں گے ، ظاہر ہے کہ مرغن چرغن لنچ یا ڈنر بھی سرکاری خرچے پر کھائے گئے ہوں گے ۔
یہ تو معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ بھارت پر اس زبردست بیان پر کتنے درجے کابخار چڑھا ہوگا، کیوں کہ ''دلی'' سے ایسی خبریں کہیں سالہا سال کے بعد آتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی ایک مرتبہ ایسا ہوچکاہے ، سینہ بہ سینہ اور زبانی تاریخ میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ افغانستان میں ایک لوہار نے ایک بادشاہ کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ ایک ایسی توپ تیار کرسکتاہے جو کابل سے داغ کر سیدھے دلی کو نشانہ بنائے گی۔
بادشاہ نے مان لیا اور لوہار کو مطلوبہ سازوسامان دے کر توپ بنانے کاحکم دیا، یقیناً اس کے لیے ایک نیا پروجیکٹ بھی بنایا گیا ہوگا جیسا کہ ہمارے ہاں''چائے'' یاکالاباغ یا کوئی اورکمال کرنے کے لیے عملے عملوں کے لیے بنگلے اوربنگلوں کے لیے جنگلے اورجنگلوں کے درمیان جنگلے تیار کیے جاتے ہیں یاجیسے کہ کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک ڈیموں والی سرکار نے ڈیم فولوں کو ڈیم تعمیر کرنے کامژدہ سنایاتھا اوراس میں اپنی آدھی تنخواہ بھی ڈال کر چندے کی مہم بھی چلائی تھی لیکن شو مئی قسمت سے جب اس نے ریٹائر ہونے کے بعد اپنے دعوے اور وعدے کے مطابق ڈیم تعمیر کرکے ان کی چوکیداری شروع کی تو کسی بیرونی ہاتھ نے ان کو ڈیموں اور چندے کے صندوق سمیت اغوا کرلیا اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں گمشدگان کا پتہ کبھی نہیں لگتا کیوں کہ وہ بغلوں بیٹھے ہوتے ہیںیا بیرون ملک گم نام ہوکر آرام فرما رہے ہوتے ہیں۔
خیر قصہ اس لوہار کی توپ کا وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے ٹوٹا تھا اور بعد میں وہ ''توپ'' بھی ٹوٹ گئی۔لوہار نے معلوم نہیں کہ کتنے عرصے کے بعد اعلان کیا کہ توپ تیار ہوگئی ہے اور فلاں تاریخ کو فلاں میدان یاگراونڈ میں آزمائشی فائر کیا جائے گا۔میدان میں سرکاری عمائدین اور بادشاہ کی نشست کے انتظامات وسیع پیمانے پر کیے گئے۔
توپ کو آدمیوں اورگھوڑوں کی مدد سے میدان میں لاکر نصب کیاگیا،زرق برق ملبوسات میں متعلقہ عملہ بھی بھاگم دوڑ کر رہاتھا، توپ کو بھی پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ترانے وغیرہ بجائے گئے اور پھر لوہار نے توپ کے فیتے کو آگ دکھائی، ایک قیامت خیزدھماکا ہوا اورچاروں طرف دھوئیں کا بادل پھیل گیا۔
کافی دیر بعددھواں چھٹ گیا، تو توپ کے ہزاروں ٹکڑے ہوچکے تھے، کوئی یہاں اور کوئی وہاں گر کر دھواں دے رہاتھا، وہ تو اچھا ہوا کہ لوہار اور سرکاری عملہ محفوظ مقامات میں مورچہ بند تھے، اس لیے محفوظ رہے ۔ دھواں چھٹا تو لوہار مورچے سے برآمد ہوا، تالیاں بجاتے ہوئے بادشاہ کے سامنے گیا اور مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت!جب یہاں یہ حال ہے تو نہ جائے دلی میں کیا قیامت برپا ہوگئی ہوگی۔
یہ تو اسے پتہ تھا کہ دلی سے کئی مہینوں کے بعد کوئی خبر آئے گی، تب تک وہ غائب ہوچکا ہوگا کیوں کہ اس نے جمع کردہ مال و متاع اور بال بچے پہلے ہی دلی بھجوائے ہوئے تھے ۔