سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر

سیاسی قیادت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ پروجیکٹ عمران خان نے انھیں کس قدر نقصان پہنچایا ہے


[email protected]

پی ٹی آئی کا ساڑھے تین سالہ دور پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا، جس کی تباہ کاریوں کا سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ بعض اوقات زلزلے کی شدت زیادہ نہیں ہوا کرتی لیکن اس زلزلے کے آفٹر شاکس زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔

ہمارے ساتھ بھی 2018 کے بعد یہی کچھ ہوا۔ ساڑھے تین سالہ دور تبدیلی کسی زلزلے سے کم نہیں تھا، اس کی زد سے معیشت اس وقت بھی محفوظ نہیں تھی لیکن اصل نقصان آہستہ آہستہ اب سامنے آنا شروع ہوا ہے۔

عمران خان حکومت جمہوری اور آئینی طریقے سے فارغ ہوئی تو اس کے بعد پی ڈی ایم نے عنان اقتدار سنبھالی اور متفقہ طور پر میاں شہباز شریف کو ملک کا نیا وزیر اعظم بنایا اور پی ڈی ایم میں شامل باقی تمام جماعتیں کابینہ میں ان کی سپورٹ کے لیے موجود ہیں۔

گزشتہ آٹھ نو ماہ میں حالات زیادہ بہتر نہیں ہوئے، سیاسی عدم استحکام بڑھ گیا، معاشی اشارے ملک کے ڈیفالٹ کے خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں، دہشت گردی کی نئی لہر نے ہر کسی کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ یقیناً اس وقت یہ تین ایشوز ہی ملک کے بڑے ایشوز ہیں بلکہ چیلنجز ہیں۔ ان تینوں ایشوز کا خالق عمران خان اور ان کی جماعت ہے۔

یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ مندرجہ بالا تینوں ایشوز پیدا کرنے میں پی ڈی ایم میں شامل کسی جماعت کا کوئی کردار نہیں، ان کی تمام تر ذمے داری عمران خان اور ان کی ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کا جو پروگرام ہمارے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے، یہ پی ڈی ایم نے نہیں لیا تھا بلکہ اس پروگرام کو حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی تمام کڑی شرائط پی ٹی آئی سرکار نے تسلیم کی تھیں۔ پاکستان معاشی مشکلات کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔

اگلے ماہ کے اوائل میں دو غیر ملکی کمرشل بینکوں کو ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کے قرضے واپس کرنے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی بھی ایک دھچکا ہے تاہم یہ بات بھی بڑی حوصلہ افزا ہے کہ حکومت زرمبادلہ کے انتہائی کم مجموعی ذخائر کے ساتھ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے سخت جدوجہد کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ملکی معیشت پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کا دو ٹوک ویژن ہے، معاشی اعتبار سے مشکل صورت حال ضرور ہے مگر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ گوکہ یہ خبر ہر محب وطن پاکستانی کے لیے تو اطمینان کا باعث ہے لیکن پی ٹی آئی اور اس کے یوٹیوبرز کے لیے پریشان کن ہے جو پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا پروپیگنڈا کرتے نہیں تھکتے۔ ان میں سے کچھ یو ٹیوبرز تو پاکستان آرمی اور عوام کو لڑانے کے لیے نئی نئی من گھڑت کہانیاں سنا کر لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں۔ روز ایک نیا موضوع اور ایک نئی کہانی سنائی جاتی ہے۔

اسی طرح موجودہ سیاسی منظر نامے میں جو عدم برداشت، گالم گلوچ اور ایک دوسرے کی کردار کشی کا سلسلہ شروع ہوا اس نے پوری کی پوری سیاست کو آلودہ کرکے رکھ دیا ہے، دوریاں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اہم ترین ملکی معاملات پر سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھنے کی روادار نہیں۔ اوپر سے رہی سہی کسر دہشت گردی کی تازہ لہر نے پوری کردی۔ایک ہفتے کے دوران پیر کو قومی سلامتی کمیٹی کا دوسرا اجلاس بلایا گیا، جس سے اس حساس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت شریک ہوئی، وزیر اعظم میاں شہباز شریف، متعلقہ محکموں کے وزرائ، مسلح افواج کے سروسز چیفس اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت، افواج اور سیکیورٹی ادارے وطن عزیز کے دفاع سے غافل نہیں۔ خاص طور پر افواج پاکستان کو تو داد دینا بنتا ہے جو سیاستدانوں کے طعنے بھی سنتے ہیں،ایجنڈا اینکرز اور یوٹیوبرزکا پروپیگنڈا بھی برداشت کرتے ہیں، اس کے باوجود اپنے فرائض سے غافل بھی نہیں ہوتے۔

اس موسم میں جب ہم ٹھٹھرتی راتوں میں اپنے گرم بستروں میں بے فکر ہو کر آرام کر رہے ہوتے ہیں عین اس وقت افواج پاکستان کے جانباز جوان سیاچن کی برف پوش پہاڑیوں سے لے کر طور خم کے بارڈر پر وطن عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے سینہ تان کر پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔ جہاں اور جب ضرورت پیش آتی ہے یہ جوان وطن عزیز کے دفاع و سلامتی کے لیے اپنا لہو پیش کرتے ہیں۔

آپ نے بنوں آپریشن میں دیکھ لیا جہاں دہشت گرد قیدیوں نے سی ٹی ڈی کے سینٹر پر قبضہ کرلیا، اندر موجود اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا لیکن افواج پاکستان کے شیروں نے کامیاب آپریشن کے بعد ناصرف دہشت گردوں کو ہلاک کیا، بلکہ تمام یرغمالیوں کو بازیاب بھی کروالیا، اس آپریشن کو افواج پاکستان کے کامیاب ترین آپریشنز میں شمار کیا جارہا ہے۔ اس آپریشن میں پاک فوج کے دو ایس ایس جی کمانڈوز نے جام شہادت نوش کیا۔

متعدد زخمی ہوئے۔ اسی طرح اسلام آباد ناکے کے دوران جب ایک گاڑی کی تلاشی لی جانے لگی تو اس میں موجود خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا، اسلام آباد پولیس کا اہلکار اس حملے میں شہید ہوا کئی اہلکار زخمی ہوئے۔ دہشت گرد مسلسل ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے ہیں، افواج پاکستان اور سیکیورٹی ادارے ہر بار ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔

دہشت گردی کی تازہ لہر کا معاملہ ہو یا تباہ حال معیشت کی بحالی کا مسئلہ، یہ دونوں معاملات سیاسی عدم استحکام سے جڑے ہیں۔ جس وقت پوری سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر ملک کو ان نازک ترین حالات سے نکالنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ایسے حالات میں بھی پی ٹی آئی مفادات کی سیاست کررہی ہے۔ حصول اقتدار کے لیے جلسے جلوس اور مظاہروں کے پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں۔

قوم کو مزید انتشار میں مبتلا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، افواج پاکستان کے اہم ترین جرنیلوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے قوم کے ذہنوں میں ان کے خلاف زہر گھولا جارہا ہے۔ عمران خان کے سر پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ کسی طرح مجھے دوبارہ وزیر اعظم بنا دیا جائے، ملک تباہ ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔

عمران خان فوری الیکشن چاہتے ہیں، حالانکہ ان کا یہ مطالبہ غیر آئینی و غیر قانونی ہے، اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گی یہ آئینی تقاضا ہے، بلکہ مولانا فضل الرحمان تو موجودہ بحرانی کیفیت کو دیکھتے ہوئے موجودہ اسمبلیوں کی مدت کو ایک سال تک مزید بڑھانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ موجودہ بدترین صورتحال کے پیش نظر ان کا مطالبہ ناصرف جائز ہے بلکہ اگر ایسا ہوگیا تو ملک بحرانی کیفیت سے بھی نکل آئے گا۔

جب کہ عمران خان کا قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ ناصرف ملک میں مزید انتشار پیدا کرے گا بلکہ ملکی سلامتی و استحکام بھی داؤ پر لگ جائے گا۔ عمران خان نے ملک کو جس دلدل میں دھکیل دیا ہے اسے نکالنے کے لیے پاکستان کی تمام محب وطن سیاسی قوتیں مل کر پورا زور لگا رہی ہیں، اس وقت ملک کو دہشت گردی اور معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے عسکری و سیاسی قیادت ایک پیج پر دکھائی دے رہی ہے۔

سیاسی قیادت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ پروجیکٹ عمران خان نے انھیں کس قدر نقصان پہنچایا ہے، اب جب کہ یہ پروجیکٹ بند ہوچکا ہے، اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔ یہ چیز عمران خان کو ہضم نہیں ہورہی اسی لیے اپنے فوری الیکشن کے مطالبے کے لیے روز ایک نیا اعلان کردیتے ہیں جو صرف اعلان ہی رہتا ہے، اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان دیکھ لیں، قومی اسمبلی سے استعفوں کا معاملہ دیکھ لیں، ان کے بیس سے زائد ایم این ایز نے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو فون کرکے کہا کہ وہ استعفے نہیں دینا چاہتے۔

بس عمران خان کے فیصلے اور ان کی پارٹی کی پوزیشن بس ایسی ہی ہے۔ اس سے آپ خود اندازہ لگائیں کہ جس لیڈرکی منفی سیاست سے اس کی اپنی پارٹی اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہو وہ ملک کی حکمرانی کا دعویدار نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، اب عام انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔ پہلے پاکستان سیاسی استحکام کی جانب بڑھے گا اور معاشی خوشحالی اوردیرپا امن بھی قائم ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔