مہنگائی کے اسباب کا سدباب
بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کا برملا مہنگائی کا اعتراف کرنا، اس بات کا غماز ہے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہیں
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے، جن حالات میں ہم نے حکومت سنبھالی تھی وہ انتہائی مخدوش تھے۔
آئی ایم ایف سے ہمارا معاہدہ ٹوٹ چکا تھا، دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ گزشتہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہم سستی ترین گیس نہ خرید سکے۔
گندم کی پیداوار ہماری طلب سے کم تھی، اس وقت اربوں ڈالر کی گندم باہر سے منگوا رہے ہیں، تیل پر پاکستان کے 27 ارب ڈالر خرچ ہوئے جو سال کا سب سے بڑا خرچہ تھا۔ پاکستان کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کے لیے ہمیں خود ہمت اور قربانی، ایثار کے جذبے کا اظہار کرنا ہوگا۔
بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کا برملا مہنگائی کا اعتراف کرنا، اس بات کا غماز ہے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ عوام کی مشکلات سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں اور اس میں اصلاح کے خواہش مند بھی ہیں تاہم مالی مشکلات اتنی زیادہ ہیں کہ معیشت کو پوری رفتار سے چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
ملک میں اس وقت سیاسی چپقلش اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ معیشت بھی سیاسی رسہ کشی کا شکار بنا دی گئی ہے۔ صوبائی حکومتیں پوری کوشش کررہی ہیں کہ معاشی بدحالی اور مہنگائی کی تمام تر ذمے داری وفاقی حکومت پر ڈالی جائے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی حکومت ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی بھاری عددی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔
یہ حکومتیں اور پی ٹی آئی کی قیادت وفاقی حکومت کو نیچا دکھانے اور سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کے لیے معیشت کے حوالے سے کیے جانے فیصلوں کی مخالف کررہی ہیں جس کی وجہ بھی غیریقینی بڑھ رہی ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت زیادہ تر اختیارات صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں، لہذا مہنگائی کے ایشو پر جہاں وفاق ذمے دار وہاں صوبے بھی اپنی ذمے داری سے انکار نہیں کرسکتے خصوصاً ڈیلی استعمال کی اشیاء کے نرخوںکو مستحکم رکھنا، تھوک مارکیٹس وغیرہ کو ریگولرائز کرنا اور وہاں نگرانی کرنا اور فول پروف میکنزم بنانا صوبائی حکومت کی ذمے داری بھی ہے اور اس کے پاس اختیار بھی موجود ہیں۔
سبزی اور پھل منڈیوں،سلاٹر ہاوسز، مویشی منڈیاں، کولڈ اسٹوریجز وغیرہ سب کا انتظام وانصرام صوبائی حکومتوں کا دائرہ اختیار ہے۔صوبوں میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی موجود ہیں لیکن اس کے باجود ہر فطرف بدنظمی اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے ۔
اس کی تمام تر ذمے داری سرکاری عمال کی بدنیتی، کوتاہی ، رشوت خوری اور اختیارات کا ناجائز استعمال پر عائد ہوتی ہے۔سبزی منڈیوں اور پھل منڈیوں میں چلے جائیں، وہاں صفائی کا انتظام موجود نہیں ہے۔ کوئی ڈسپلن موجود نہیں ہے۔ آڑھتیوںکی حکمرانی ہے جبکہ کسان کی حیثیت ایک گاہک سے زیادہ نہیں ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی ایک اور بڑی وجہ 'کارٹلائزیشن' ہے، جیسے سمینٹ، چینی اور دودھ بنانے اور ڈبو میں پیک کرنے والی کمپنیاں، ان کا اپنا اپنا کارٹل ہے اور یہی کارٹل اپنی پراڈکٹس کی ایجنسی اور ریٹیل پرائس طے کرتی ہیں، یہاں حکومت محض تماشائی ہے یا ان مینوفیکچرز اور کارخانہ داروں سے ٹیکس لیتی ہے، صارف کے مفادات کا کوئی تحفظ نہیں کیا جاتا۔
کارٹلز انتہائی طاقتور ہوتے ہیں لہذا یہ قوانین بھی اپنی مرضی کے بنوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، اس طرح ان کی ناجائز منافع خوری کو بھی قانونی تحفظ حاصل ہوتا ہے جبکہ اینڈ یوزر بے بس اور مجبور ہوتا ہے۔ ریاست اس کے حقوق کے لیے کچھ نہیں کرتی۔
ملک کی 90 فیصد سے زائد شوگر ملیں طاقت ور سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ سرکاری خزانے سے سبسڈی لیتے ہیں ، جب چینی درآمد کرنا چاہییں کرلیتے ہیں اور جب برآمد کرنا چاہیے، برآمد کرلیتے ہیں چاہیے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔
اسی وجہ سے کبھی چینی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے اور کبھی وافر ہوجاتی ہے۔ موجودہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال کیا جاتا ہے، اگر یہ کہا جائے کہ ہم بجلی بھی درآمد کر کے استعمال کرتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ پچھلی حکومتوں نے بجلی بنانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر پر توجہ نہیں دی بلکہ ڈیم تعمیر کرنے کی مخالفت کرتے رہے اور اب مہنگائی ہونے پر شور مچا رہے ہیں۔
ڈالر کی قیمت بڑھنے کی بنیادی وجوہات میں ایک بڑی وجہ افغانستان ہے۔ سابق حکومت نے افغانستان کی طالبان حکومت کی بے جا حمایت کی، سرحد پر کنٹرول نرم کیا، جس کی وجہ سے اناج اور ڈالر افغانستان اسمگل ہونے لگا، جب ہوش آئی بہت دیر ہوچکی تھی۔ پاکستان کا سب سے بڑا امپورٹ بل پیٹرولیم مصنوعات کا ہے۔
2014 سے 2018 تک دنیا میں تیل کی قیمتیں انتہائی نچلی سطح پر تھیں۔ اس آپشن کو ملکی قرضے اتارنے اور سستی بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا جبکہ انھوں نے مزید قرضے لے کر ملکی معیشت پر بوجھ بڑھایا، جس کی قیمت آج چکانا پڑ رہی ہے۔
وزارت فوڈ سیکیورٹی نے بتایا ہے کہ ملک کو 45 لاکھ ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہے، جب کہ بااثر آڑھتیوں نے 40 لاکھ ٹن گندم ذخیرہ کرلی ہے اور رپورٹ کے مطابق ذخیرہ اندوزوں نے دو ماہ میں 30 ارب روپے اضافی منافع کمایا ہے ، جبکہ خیبرپختونخوا حکومت گندم کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہوگئی ہے اور 6 لاکھ ٹن گندم افغانستان اسمگل ہوئی ہے۔ملک بھر میں گندم بحران شدت اختیار کر گیا ہے، عوام آٹے کے لیے پریشان ہیں، مل مالکان اورآڑھتیوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ منافع خور اور ذخیرہ اندوز اربوں روپے منافع کما رہے ہیں۔
دراصل قیمتوں کو کنٹرول کرنا ضلعی انتظامیہ کی بنیادی ذمے داری ہے مگر وہ صرف پریس ریلیز اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کی لسٹ جاری کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے عوام کو ریلیف دے دیا ہے، پچھلے برس صدر مملکت نے پاکستان فوڈ سیکیورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت بلا جواز مہنگائی ذخیرہ اندوزی یا ان میں ملاوٹ کی صورت میں ملوث افراد کو چھ ماہ قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جا سکیں گی۔
ملک بھر میں سبزیاں اور پھل انتہائی مہنگے دام فروخت ہورہے ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارے نظام میں پایا جانے والا ایک کردار آڑھتی ہے ، جو منڈیوں میں ناجائز منافع خوری دھڑلے سے کرتے نظر آتے ہیں ، جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ کاشتکاروں سے گاؤں کی سطح پر براہ راست خریداری کی جائے اور اس مقصد کے لیے میکنزم تیار کیا جائے، آڑھتیوں کے لیے بھی سرکاری ریٹ مقرر کیا جائے تاکہ کسان کو لوٹ مار سے بچایا جاسکے۔
آڑھتی کے خرید اور فروخت کا ریٹ مقرر کردیا جائے،اس طرح دکاندار بھی مقررہ ریٹ پر اجناس بیچ سکے گا اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس پر قانونی کارروائی بھی جائز سمجھی جائے گی ۔ اس طرح معیشت کی ڈاکومنٹیشن بھی ہوجائے گی اور مارکیٹ میں استحکام آئے گا، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کے ریونیو میں اضافہ ہوگا۔
اس کے ساتھ سرکار منڈیوں کو صاف ستھرا رکھنے اور وہاں خریداروں اور فروخت کنندگان کی سہولت کے لیے اقدامات اٹھانے کی پابند ہے۔ عوام اور کر بھی کیا سکتے ہیں جب ان کے اپنے منتخب کردہ نمایندے اپنے شہریوں کے روزمرہ مسائل خاص کر اشیاء خورونوش کی خود ساختہ گرانی کی وجہ سے مہنگائی کے نام پر لوٹ مار سے لاتعلقی کا شکار ہوں۔
طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ضلعی حکومتیں اپنی ہی متعین کردہ اشیاء خورونوش کی قیمتوں کے سلسلے میں روزانہ نرخ نامہ جاری کرتی ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کرانے میں عملاً بری طرح ناکام رہتی ہیں۔
کوئی بھی سبزی، پھل و پرچون فروش یا گوشت بیچنے والا نرخ نامہ لٹکا کر اس کے برخلاف اشیاء کی دگنی قیمت وصول کرتا ہے تو کسی گاہک کی جرات نہیں کہ وہ فروخت کرنے والے کو سرکاری نرخ نامہ کے مطابق دام ادا کرنے کی ضد کرسکے، اگر کوئی اعتراض کرتا بھی ہے تو اسے رعونت اور بدتمیزی کے ساتھ جواب ملتا ہے کہ جاکر وہیں سے خریداری کر لیں جہاں سے نرخ نامہ جاری کیا گیا۔ مسئلہ صرف آج کی حکومت کا نہیں ، لوٹ مار اور ناجائز منافع خوری کا یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے ۔
حکومت اگر چاہتی ہے کہ اس کی طرف سے پٹرول و بجلی کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ غریب عوام تک پہنچے تو اس کے لیے نگرانی اور لوٹ مار کرنے والوں کو گرفت میں لانے کے لیے خصوصی انتظامات کرنا ہوں گے ، جس کے لیے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں، پہلے سے موجود ضابطوں کو سختی سے بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو ناجائز منافع خوری کی آڑ میں کم از کم خود ساختہ مہنگائی سے ضرور نجات دلائی جاسکتی ہے۔