کمزوری کی طاقت اور طاقت کی کمزوری پہلا حصہ
یوں اس شاخ کو یہ دوچیزیں مل گئیں اور یہ سب کچھ کمزوری کی طاقت سے ملاہے
بہت مشہور ایک جملہ ہے جو فلموں، ڈراموں اور دوسرے کئی مقامات پر بولا جاتا ہے، سنا جاتا ہے، لکھا اور پڑھا جاتاہے، اپنی کمزوری کو طاقت بناؤ یا اس نے اپنی کمزوری کو طاقت بنایا وغیرہ وغیرہ ۔لیکن حقیقت میں یہ کوئی محض فرضی مکالمہ یا قول زریں نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت ہی بڑی اور ہمہ گیر آفاقی اور تاریخی حقیقت ہے کہ کمزوری کی کوکھ سے طاقت اور طاقت کی کوکھ سے ہمیشہ کمزوری جنم لیتی ہے ۔
انسان اگر آج انسان ہے اور باقی تمام مخلوقات پر حکومت کرتاہے تو دو خصوصیات کی وجہ سے، ایک دماغ یا ذہن اوردوسرا زبان یانطق۔ اوریہ دونوں بلکہ اس کے ساتھ کچھ اورطاقتیں اسے کمزوری ہی کی وجہ سے ملی ہیں۔
کروڑوں برس پہلے اگر اس کے اجداد کمزور نہ ہوتے تو یہ بھی آج کی چرندے یاخزندے یادرندے کی طرح جنگلوں میں رہنے والی ایک کمزورمخلوق ہوتا یا پھر کسی دوسرے شکاری کا شکار ہوتا، جیسے بھیڑ،بکری اورہرن وغیرہ ۔
طبیعات، ارضیات، آثاریات اور بشریات کے علوم بتاتے ہیں کہ کروڑوں برس پہلے جب پانی نماکیچڑ یاکیچڑ نما پانی میں حیات کا پہلا جرثومہ ایک یک خلوی مخلوق کی صورت میں پھوٹا تو وہ ارتقاکی منزلیں طے کرتا ہوا، ایک ایسے دور میں پہنچا جسے جوراسک دورکہا جاتا ہے۔اس دورمیں کرہ ارض پر گرانڈیل اورخونخوار وتباکار جانوروں کاراج تھا۔
ڈائنو سارکی کئی خونخوار انواع اور دوسری اقسام کے طاقتور جانورکمزورجانوروں کو اپنی خوراک بناتے تھے اورکمزورجانوروں کو اپنی بقا کے لیے شرح پیدائش زیادہ رکھنی پڑتی اور جان بچانے کے لیے طرح طرح کے طریقے ڈھونڈنے پڑے تھے۔
کوئی زمین میں گھس کرجان بچاتا تھا،کوئی پانی میں،کسی نے تیزدوڑکرجان بچانے کاطریقہ اپنایا، ان ہی کمزور مخلوقات میں انسان کے قدیم ترین اجداد وہ تھے جنھوں نے درختوں پر چڑھ کر جان بچانے کاطریقہ سوچا۔ یہ سوچ اوردماغ استعمال کرنے کی ابتدا تھی۔
ان جانوروں کو اصطلاحاً شجر نشین کہاجاتاہے، ان میں کچھ کی باقیات اب بھی دنیا کے دور درازخطوں میں پائے جاتے ہیں جیسے مڈغاسکر وغیرہ کے لیمور،آئی آئی اورکچھ بڑی اقسام کے چوہے وغیرہ ۔یہ جانور رات کو جب بڑے اور خونخوار جانورسو جاتے تھے تو درختوں سے اتر کر اپنی خوراک تلاش کرلیتے تھے۔
اس لیے انھیں ''سب گرد'' بھی کہاجاتاہے،یوں سوچ کاسلسلہ جب چل پڑا تو پھر رکنے میں نہیں آیا اور ارتقائی منازل طے کرتے کرتے آج کے انسان کی صورت میں ڈھل گئے۔ کمزوری نے اسے نہ صر ف عقل اوردماغ جیسی طاقت دی بلکہ درختوں پر اترتے چڑھتے جانوروں کی اس کمزور شاخ کے جسم بھی سیدھے ہموار اور لچکدار ہوتے گئے۔
اگلے پیر ہاتھوں میں بدل گئے ،انگلیاں اوران میں پکڑ پیداہوئی، جسم کے بال جھڑ گئے لیکن ان سب سے بڑھ کر ایک اورطاقت زبان اورنطق کی بھی اس کو مل گئی۔
ہنگامی طور پر تو خطرے کے وقت تو یہ کسی بھی قریبی پیڑ یاجھنڈ میں چڑھ جاتے تھے لیکن پھر ایک دوسرے کو آوازیں دیتے تھے، خطرے کی آوازیں، خطرہ ٹل جانے کی آوازیں ۔اوریہ سلسلہ آج بھی اکثر جانوروں میں جاری ہے۔
مرغ ،پرندے، کتے اوربہت سے جانور ایک دوسرے کو آوازیں دیتے ہیں لیکن ان بیچاروں کے پاس وہ دوسری قوت ذہن نہیں ہے، اس لیے آوازیں صرف آوازیں رہ گئی ہیں لیکن انسان کے اجداد کے پاس تھی، اس لیے آوازوں کو معانی دے کر حروف اور الفاظ بنانے لگے ۔
یوں اس شاخ کو یہ دوچیزیں مل گئیں اور یہ سب کچھ کمزوری کی طاقت سے ملاہے، اگر اس کے قدیم اجداد کمزورنہ ہوتے اور بڑے بڑے گرانڈیل اورطاقتورہوتے تو آج انسان بھی کسی خزندے، چرندے، درندے یا پرندے کی شکل میں کسی جنگل کا باسی ہوتا ۔اس ارتقائی عمل کی شہادتیں نہ صرف مختلف علوم کتابوں میں موجود ہیں بلکہ اساطیر اوردوسرے علوم میں بھی اس کی گونج سنائی دیتی ہے ۔
یونانی دیومالائی داستان بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ ایک یونانیاسطورہ کے مطابق دیوتاؤں نے ایک ٹیٹان اپی متھیس کو مخلوقات بنانے کاکام سونپاتھا لیکن وہ کم عقل اورکوتاہ اندیش تھا، اس لیے اس نے کام کی ساری چیزیں جسے سینگ، بڑے بڑے دانت،نوکیلے پنجے، زہریلے ڈنگ وغیرہ جانوروں کو دے دیے ، جب انسان کی باری آئی تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچاتھا چنانچہ اس نے اپنے چھوٹے لیکن دوراندیش بھائی پرومیتھس کو مدد کے لیے پکارا۔
پرومیتھس نے عقل کی دیوی اتھینا سے مدد مانگی، پھر ان دونوں نے مل کر ایک جگہ سے مٹی لے کر گوندھی اور انسان کا پتلا بنادیا ،عقل کی دیوی اتھنیا نے اس میں عقل پھونکی اور پرومیتھس نے سورج سے ایک مشعل جلا کر اسے دی، یوں انسان کے پاس عقل اورآگ جیسی قوتیں آگئیں۔ یہ تو محض ایک دیومالائی داستان ہے ، اور ہزاروں برس قدیم ہے ۔
کمزوری میں طاقت اور طاقت میں کمزوری کا فلسفہ یا اصول اپنے اندر سچائی اور حکمت دونوں رکھتا ہے۔
ہم اپنے سامنے ایسے واقعات مسلسل دیکھتے ہیں کہ کسی کمزور نے اپنی کمزوری کااحساس کرکے حوصلے اور ہمت سے طاقت حاصل کی ،بڑے بڑے مالدار اورجاگیردار گھرانوں کے بچے اپنی طاقت کی وجہ سے نکمے اور نکھٹو ہوکر وہ سب کچھ ہارجاتے ہیں اور ان کے برعکس کمزورخاندانوں کے بچے پڑھ کر، سیکھ کر اور دن رات مشقت و محنت کرکے وہ سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں جو ان کے پاس نہیں ہوتا ۔
(جاری ہے)