جامعہ کراچی میں مالی بحران تدریس متاثر تجربہ گاہیں بند

کیمیکلز اور آلات کی عدم دستیابی،غیر مستقل 600سے زائد اساتذہ کو ان کی ماہوار تنخواہ یا فی کلاس ادائیگی بند


آخری بجٹ 4سال پہلے منظور ہوا ،حکومت طلبا کی تعداد کے حساب سے جامعہ کراچی کو فنڈ فراہم نہیں کرتی ۔ فوٹو : فائل

ہر سال 43 ہزار سے زائد طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کرنے والی اور پورے پاکستان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات دینے والی جامعہ کراچی مالی بحران کا شکار ہوگئی۔

جامعہ کا انتظامی ڈھانچہ ، مالیاتی امور اور انفرااسٹرکچر سب زوال پذیر ہے، طلبہ کی حفاظت کے پیشِ نظر کچھ کلاسز اور تجربہ گاہیں بند کردی گئی ہیں، کئی تجربہ گاہوں میں کیمیکلز اور آلات کی شدید قلت ہوگئی۔

جامعہ کراچی کے ملازمین واساتذہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ جامعہ کی بدحالی کے ذمے دار ہائیر ایجوکیشن کمیشن، جامعہ کی انتظامیہ ہے اور حکومت سندھ کی مداخلت ہے، طلبہ کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے لیکن پھر بھی تنخواہوں، پنشن میں تاخیر معمول بنتی جارہی ہے، یونیورسٹی کے پینل پر کئی اسپتال ہٹا دیے گئے ہیں۔

میڈیکل بلز، ایوننگ پروگرام کے 3 ہزار سے زائد اساتذہ و ملازمین کے مشاہرے ڈیڑھ سال سیادا نہیں کیے گئے، غیر مستقل 600سے زائد اساتذہ کو انکی ماہوار تنخواہ یا فی کلاس ادائیگی ایک سال سے بند ہے۔

جامعہ کراچی میں بجٹ منظور نہ ہونے کے باعث مالی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اگلے 3 سالوں میں تین سوملازم ریٹائر ہو رہے ہیں مگر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔

مختلف ملازمین و فیکلٹی ممبران نے ایکسپریس کو بتایا کہ 2021 میں سنڈیکیٹ اجلاس ہوا مگر ڈائریکٹر فنانس کی جانب سے کچھ عمل درآمد نہیں ہوا۔

آخری بجٹ چار سال پہلے منظور ہوا تھا،جامعہ کراچی میں معاشی بدحالی کے خاتمے کیلیے ڈاکٹر ریاض احمد سمیت غفران عالم، فیضان الحسن ، منصور افتخار سمیت دیگر نے پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے جامعہ کراچی بحالی تحریک کا عملی طور پر آغاز کیا۔

تمام اساتذہ ، افسران اور ملازمین کی یونین ایسوسی ایشنز اور گروپس نے باہمی حکمت عملی سے تحریک کا اعلان کیا، تحریک نے شہر اور سندھ کی سرکاری جامعات کو بھی ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے۔

تحریک میں افسران ، انجمن ملازمین کے عہدیدار سینڈیکیٹ ، اراکین اور انجمن اساتذہ نے جامعہ کراچی کی بدحالی کا ذمے دار جامعہ کی انتظامیہ ، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سندھ حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ 6 اعشاریہ چار بلین جامعہ کراچی کا سالانہ بجٹ مختص ہے، 43 ہزار بچوں کیلیے صرف 1 اعشاریہ 5 ارب بجٹ دیا جاتا ہے۔

پچھلے 3 سالوں سے پاکستان کی تمام جامعات کا ہائر ایجوکیشن کمیشن گرانٹ 64 ارب روپے ہے، اس دوران ڈالر کی قیمت میں کئی گناہ اضافہ ہوگیا ہے مگر گرانٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ، ڈاکٹر ریاض کا کہنا تھا کہ bodies statutoryکے اجلاس بھی نہیں بلائے جارہے۔

2018 یونیورسٹی ایکٹ میں ترامیم کے بعد سے حکومت سندھ نے یونیورسٹی میں تعیناتیوں پر پابندی اور قدغنیں لگا کر پروموشن کمیٹی سلیکشن بورڈ، سنڈیکیٹ کو غیر فعال کر دیا، سنڈیکیٹ سے منظور شدہ 102 افسران اور 600 سے زائد ملازمین کی پے فکسیشن اور آٹھ ماہ سے تعطل کا شکار ہے۔

180 ملازمین کی گریوینس رپورٹ سنڈیکیٹ میں پیش ہونے کے بعد ڈیڑھ سال سے فیصلے کی منتظر ہے، 600 سے زائد وزیٹنگ اساتذہ کو لیکچر پر سیلری ادا نہیں کی گئی، 300 سے زائد سرونگ اساتذہ 2019 سے سلیکشن بورڈ کے منتظر ہیں جن میں بیشتر اگلے کیڈر کے لیے دس سال سے کوالیفائی کر چکے ہیں۔

انجمن اساتذہ نے کہا کہ یونیورسٹی اب اخراجات کا پچاس فیصد اپنے ذرائع سے حاصل کرنے کے باوجود تنخواہوں کی عدم ادائیگی، ایوننگ مشاہرے کی بندش، میڈیکل سہولت پر قدغنیں لگا کر طلبہ ، ریٹائرڈ و حاضر اساتذہ، ملازمین، افسران کو اپنے حقوق سے محروم کر رہی ہے، ملازمین کو بنیادی قانونی حق علاج بھی میسر نہیں ،کئی بڑے اسپتال پینل پر نہیں رہے۔

ملازمین علاج کیلیے ہزاروں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہیں، اساتذہ و افسران کا کہنا تھا کہ تنخواہوں ، پینشن، طلبہ اسکالر شپس واجبات کی ادائیگی میں تاخیر ، پروموشن و سلیکشن بورڈز، ایوننگ بلز، ریسرچ گرانٹ، میڈیکل کوریج میں کئی سال کی تاخیر کا سبب کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ کی نا اہلی اور عدم توجہی ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ اس سال بجٹ کا نصف حصہ فیسوں سے وصول کرتے ہوئے 3.7 ارب روپے اکھٹے کیے جا رہے ہیں، یونیورسٹی ایچ ای سی کو اپنا بجٹ 6 ارب روپیہ بتاتی ہے، وفاقی و سندھ سے گرانٹ 3.3 ارب فیسوں و دیگر سے آمدنی 2.2 ارب اور مارننگ سیلری کا خرچ 5.2 ارب دکھاتی ہے، یہ بجٹ فنانس پلاننگ، سنڈیکیٹ، سینیٹ میں پیش بھی نہیں کرتی جو آئینی و قانونی ذمے داری ہے دوسری جانب سندھ حکومت سندھ کی 33 یونیورسٹیوں کو گرانٹ دیتی ہے، ان میں ایک ارب روپے فی یونیورسٹی کی مستحق وہ یونیورسٹیاں بھی ہیں۔

جہاں چند ہزار طلبہ بھی انرولڈ نہیں، 43 ہزار طلبہ کی کراچی یونیورسٹی کے لیے صرف 1.5 ارب روپے سالانہ مختص کیے جاتے ہیں،تمام اساتذہ ، افسران اور ملازمین کی یونین ایسوسی ایشنز اور گروپس نے باہمی حکمت عملی سے تحریک کا اعلان کیا،سندھ و وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جامعہ کراچی کی خودمختاری بحال کی جائے، فنڈز بحال کیے جائیں تا کہ تدریسی عمل متاثر نہ ہو ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں