معیشت اور سیکیورٹی کا قومی چیلنج
معیشت سے نمٹنا ہے تو یہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے کہ ہم علاقائی ممالک کے ساتھ ہوں
پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور سیکیورٹی سے جڑے پنڈت اس بنیادی نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں فوری طور پر معیشت کی بحالی اورسیکیورٹی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
ان کے بقول یہ دو مسائل ایسے سنگین اور حساس نوعیت کے ہیںکہ اگر ہم نے فوری طور پر ان مسائل سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اقدامات نہ کیے تو حالات مزید بگاڑ کا شکار ہونگے ۔بہت سے پنڈت تو یہ بھی بیانیہ دے رہے ہیں کہ سیاسی معاملات پر کچھ وقت کے لیے ٹھہراؤ پیدا کیا جائے اور ساری کی ساری توجہ کا مرکزمعیشت کی بحالی پر ہی ہونا چاہیے۔
ہماری نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا دستاویز بھی ہمیں داخلی اور علاقائی سطح پر اپنے تعلقا ت کو نئے سرے سے ترتیب دینے اور اس میں معیشت کو بنیاد بنانے کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔ اس اہم دستاویز کے بقول ہمیں معیشت کو بنیاد بنا کر اپنے داخلی ، علاقائی اور عالمی فیصلوں کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ اسی دستاویز میں یہ اہم نقطہ بھی شامل ہے کہ ہمیں بھارت سمیت اپنے علاقائی ممالک سے بہتر تعلقات بنانے ہیں اور خود جنگوں یا تنازعات کے بجائے معاشی ترقی کے عمل میں جوڑنا ہے ، یہ ہی ہماری ترجیح ہے۔
اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے معیشت اور سیکیورٹی کے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے '' قومی اتفاق رائے'' پر زور دیا ہے ۔ان کا یہ انتباہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ملک واقعی سنگین معاشی اور سیکیورٹی کے شدید بحران کا شکار ہے ۔ بظاہر ایسے لگتا ہے جیسے ہم بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں اور سب ہی فریق سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ اس بحران سے کیسے نکلا جائے ۔ اسی طرح ایک المیہ سیاسی سطح پر بدترین '' بداعتمادی کے ماحول '' کا ہے۔
یہ بداعتمادی کا ہی ماحول ہے کہ ہم نے اپنے سیاسی اختلافات کو سیاسی دشمنی یا سیاسی جنگ ہی میں تبدیل کردیا ہے ۔ کوئی بھی سیاسی فریق دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں اور سب ہی ایک دوسرے پر اپنی سیاسی بالادستی چاہتے ہیں تاکہ سیاسی مخالفین کو کمزور کیا جاسکے۔ اس ماحول میں جب کوئی بھی فریق معیشت یا سیکیورٹی کے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے قومی مفاہمت کی بات کرتا ہے تو یہ عمل کیسے کسی سیاسی تنہائی میں ممکن ہوگا۔
جو لوگ بھی سیاست کو پس پشت ڈال کر یا سیاسی بحران یا سیاسی معاملات کو نظرانداز کرکے معیشت یا سیکیورٹی سے نمٹنا چاہتے ہیں ، ممکن نظر نہیں آتا ۔ملک میں سیاسی مفاہمت یا سیاسی مسائل کے خاتمہ میں جو بھی فرنٹ پر یا پس پردہ کوششیں ہوئی ہیں اس کے نتائج مثبت انداز میں سامنے نہیں آسکے ۔ کیونکہ مسئلہ محض سیاسی نہیں بلکہ سیاست اور اداروں کے درمیان بھی کافی مسائل ہیں۔ مسئلہ محض سیاسی بحران کا ہی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر ہمیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم نے سیاسی معاملات میں حالات کو اس نہج پر کیوں جانے دیا کہ مختلف سیاسی فریق ایک دوسرے کے ساتھ بھی بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ۔ ایسے میں ریاست ، حکومت اور ملک کی گاڑی کیسے چل سکے گی اور کیوں چلے گی جب ہم مل کر قومی مسائل کی سنگینی کا نہ تو ادراک کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی کوئی عملی اقدام کے لیے بھی تیار نظر آتے ہیں ۔
جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیاسی مسائل کو محض نظرانداز کرکے یا ان پر پردہ پوشی کرکے قومی بحران کو حل کرلیں گے ، امکان کم نظر آتا ہے ۔ جن دونوں بڑے چیلنجز کا ذکر کیا گیا ہے ان کا براہ راست تعلق قومی سطح پرموجود سیاسی مسائل سے ہے اوران میں بھی اصل مسئلہ سیاسی ڈیڈلاک یا عدم اتفاق کی سیاست کا ہے۔
ایسی صورت میں قومی معیشت یا سیکیورٹی کے معاملات کو کون اپنی سیاسی سطح کی ترجیح بنائے گا، اہم سوال بنتا ہے ۔کیونکہ سیاسی بحران نے قومی سطح پر نہ صرف ایک بڑی سیاسی تقسیم پیدا کردی ہے بلکہ اس ماحول میں ہم سیاسی انتشار میں پھیلاو بھی دیکھ رہے ہیں ۔ایسے لگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت میں کوئی فکر مندی کی سوچ اور فکر غالب نہیں اور وہ یا دیگر سطح کی قوتیں طاقت کی لڑائی کے کھیل میں اس حد تک الجھ گئے ہیں کہ قومی معاملات پس پشت چلے گئے ہیں۔
ہماری قومی صلاحیت معیشت یا سیاست یا سیکیورٹی کے قومی بیانیہ کے مقابلے میں الزام تراشی ، کردار کشی ، آڈیو وڈیوز کے کھیل میں یا ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری پر لگی ہوئی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست ، جمہوریت ، معیشت اور سیکیورٹی جیسے معاملات پر ہماری کوتاہی نے ہمیں بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے ۔ہماری قومی سیاست الجھ کر رہ گئی ہے اورہم مسائل کے اسباب کا درست ادراک کرنے اوراپنی ذمے داریاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف کی سیاست یا میڈیا میں جاری سیاسی مباحثہ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہمارا بحران کچھ اورہے اورہماری توجہ کسی اورطرف یا غیر ضروری یا فروہی معاملات میں الجھی ہوئی ہے ۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مسائل کے حل میں سیاسی فریق خود سے کچھ بھی نہیں کرسکیں گے ۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جو غلطیاں ہم سے ہورہی ہیںان کا تعلق ہم سے بھی ہے۔
ہم خود مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کو اور زیادہ پیدا کررہے ہیں یا پہلے سے موجود مسائل میں بلاوجہ اضافہ کا سبب بن رہے ہیں ۔سیکیورٹی کے معاملات کی سنگینی داخلی ، علاقائی اورعالمی نوعیت کی ہے ۔ ہمیں ان معاملات میں ٹھوس بنیادوں پر سوچ و بچار کرنا ہے کہ کیسے ہم ان مسائل سے نمٹ سکتے ہیں۔ جو نتازعات یا ٹکراؤ کا ماحول ہمارے ہمسائے ممالک کے ساتھ بنا ہوا ہے اس کو کیسے کم کرنا ہے۔
بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات ، چین اور روس کے ساتھ نئے سیاسی اورمعاشی امکانات سمیت علاقائی سیاست کے فریم ورک میں ہماری کیا مستقل حکمت علمی ہے اورکیا ہونی چاہیے ۔معیشت سے نمٹنا ہے تو یہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے کہ ہم علاقائی ممالک کے ساتھ ہوں اورجو بھی ان میں مسائل یا تنازعات ہیں ان کو ختم کیا جائے۔