قوم سے ایسی کیا غلطیاں سرزد ہوئی ہیں
پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ ہم یا تو مزید قرضے بڑھنے دیں یا قیمتیں بڑھائیں
پاکستانی قوم سے نہ جانے ایسی کیا غلطیاں سر زد ہوئی ہیں کہ ہر بارکوئی نہ کوئی اس کی سادگی یا کم شعوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ایک کھائی سے نکالنے کا وعدہ کرکے اسے مزید اندھیری کھائی میں دھکا دے دیتا ہے۔
انتخابات سے پہلے، دوران انتخابات ، انتخابات کے بعد اور اب تحریک عدم اعتماد کے بعد بھی عوام کو مہنگائی کے ناقابل برداشت زخم لگائے جارہے ہیں ۔ وہی گھسے پٹے نعرے جھوٹی تسلیاں اور نہ جانے کن کن سیاسی شعبدوں سے عوام کے ٹوٹے دلوں کو بہلایا جارہا ہے۔ عوام اپنے تئیں بہت سوچ بچار کے بعد مختلف حکومتوں کو اقتدار میں لاتے رہے ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید اب کی بار ان کی حالت زار میں بہتری آئیگی لیکن ہر بار عوام کے جذبات سے کھیلا جاتا رہا ہے۔
اب تک ملک کی تمام مقبول جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں ،ماضی قریب میں عوام نے آنکھوں میں تبدیلی کے خواب لیے،کانوں میں دل کش سیاسی نعروں کو سماتے ہوئے میرے ملک کے غریب عوام نے بڑی چاہ سے کپتان کو اور اس کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن بہت جلد یہ تمام خواب وسپنے اور امیدیں اس وقت دم توڑ گئے جب انھیں یہ احساس ہوگیا کہ بند آنکھوں میں سپنے تھے، سپنوں میں دن اپنے تھے، جب آنکھ کھلی تو ہم نے دیکھا، سپنے آخر سپنے تھے۔
جو ظلم وستم عمران نیازی کی حکومت میں غریب عوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے اس سے بھی بڑھ کر مہنگائی کی جو قیامت خیز سونامی اب آئی ہوئی ہے اس سے غربت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں جس کا مراعات یافتہ طبقے کو احساس ہی نہیں ہے کیونکہ انھیں یہ بھی نہیں پتہ کہ انڈا درجن کے حساب سے ملتا ہے، کلو کے حساب سے نہیں ،ٹماٹر کلو کے حساب سے بکتا ہے درجن کے حساب سے نہیں۔
ایک طرف مراعات یافتہ طبقہ کو ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے تو دوسری طرف ملک کے غریب عوام ازل سے ٹیکس دیتے چلے آرہے ہیں اور ملکی معیشت غریب عوام کے ٹیکس سے چلتی رہی ہے اور چل رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان پیسوں کو غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے ذاتی تجوریاں بھری گئی ہیں۔
عمران نیازی حکومت نے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت غریب عوام پر ٹیکسسزکا جو ناقابل برداشت بوجھ لادا ، اس کا خمیازہ موجودہ حکومت کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے اور عوام کو بھی ۔
ہر بار عوام سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ معیشت کی ترقی کے لیے عوام کو مہنگائی کی کڑوی گولی نگلنی ہوگی اور عوام نگلتے ہی رہے ہیں لیکن اس بار مہنگائی نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں عمران نیازی حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی عوام کے کھانے کے لقمہ پر بھی ٹیکس لگا دیے ہیں، باقی بچی ہے سانس اس پربھی ٹیکس غیر محسوس طور پر لگا دیا گیا ہے، جب پیٹ میں دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو تو فاقہ کشی موت بن جاتی ہے اور اس بار بھی یہی کیا گیا ہے۔
غربت کے خاتمے کی یہ جدید ٹیکنیک ایجاد کی گئی ہے، جب ملک میں غریب نہ ہونگے تو لامحالہ یہ اونچے محل بھی نہیں رہیں گے کیونکہ یہ عالی شان محل غریبوں کے دم سے آباد ہیں۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے غریب عوام کا کہنا ہے کہ ٹیکس لگا دینا اگر حکومت کی مجبوری ہے تو سب سے پہلے ان مراعات یافتہ طبقہ پر لگاؤجو ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں جنھیں سرکاری مراعات بھی حاصل ہیں اور وہ کسی بھی قسم کے ٹیکسز دینے سے آزاد ہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟
لیکن حکومت ایسا نہیں کرسکتی، کیونکہ وہاں پر جل جانے کا اندیشہ ہے،جس سے حکومت کی ہوا نکل سکتی ہے، محسوس کیا جاسکتا ہے کہ کپتان کو بھی غریبوں سے نام نہاد ہمدردی تھی اور موجودہ حکومت کو بھی ،جو اب ظاہر ہوتی جا رہی ہے۔ ذرا سوچیے، ہر طرف شور ہے ،ملکی خزانہ خالی ہونے کا رونا دھونا ہے ، ملکی قرضے ادا کرنے کے لیے مزید قرضے لیے جارہے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے ہر حکومت میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔
معیشت کے نام نہاد تجزیہ کار میڈیا میں تباہ حال معیشت کا نقشہ ایسا کھیچ لیتے ہیں کہ جس سے عوام کا دم نکل جاتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا ہے مگر ایسے میں مجال ہے کہ ہمارے دولت مند سیاسی و غیر سیاسی شخصیات باہر منتقل کی گئی اپنی بیش بہہ دولت جو انھوں نے ملک سے باہر منتقل کی ہوئی ہیں کو ملک و قوم کی محبت میں پاکستان کے بینکوں میں منتقل کریں۔
معیشت کی یہ کیسی تباہی ہے کہ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں کم کرنے کا نام نہیں لیتی ہیں اور نہ مراعات یافتہ طبقہ پر ٹیکسز کا بوجھ لادا جاتا ہے سوائے غریب عوام کے ۔ کپتان کی سیاسی نعروں میں سے صرف ایک ہی نعرہ سچ ثابت ہو رہا ہے کہ ''میں ان کو رلا دوں گا'' واقعی غریب عوام رونے پر مجبورکردیے گئے ہیں، میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ ڈرو غریب کے آنسوؤں سے، ان کی آہوں اور بددعائوں سے جو پہلے ہی سابقہ حکومتوں کو لے ڈوبے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں عوام پر جو ٹیکس لگا دیا جاتا ہے وہ رقم واپس عوامی سہولت کے نام پر عوام کو ہی لوٹا دی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں ان رقوم سے ذاتی تجوریاں بھری جاتی رہی ہیں۔عوام بیچارے منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ چور چور کے نعرے بلند ہوتے رہے ہیں لیکن سزا کسی کو بھی نہیں ہوئی ہے سب وقت کے ساتھ بے گناہ ثابت ہوتے رہے ہیں، خدارا! اس کھیل تماشے کو بندکیا جائے اور اپنی ساری توجہ غریب عوام کی زندگی پر دیں کہ وہ چند ہزار روپے کی تنخواہ پر کیسے گزارہ کرسکتے ہیں جہاں قدم قدم پر ٹیکسز کی بھرمارکردی گئی ہے۔
اوپر سے ناجائز منافع خوری ہے، بازاروں میں ہر لمحے چیزوں کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں۔ نام نہادمدینے کی ریاست کے دم بھرنیوالی تبدیلی سرکار کی حکومت کا کیا دھرا آج غریب عوام مہنگائی کی صورت میں بھگت رہی ہے یہ کیسی ریاست تھی کہ عوام نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا، گلاس توڑا کسی اور نے اور بارہ آنے وصول کیے جا رہے ہیں بے چارے غریب عوام سے؟
ہائے! کیسے کیسے وعدے کیے گئے تھے نئے پاکستان کے لیے سب کے سب یوٹرن میں بدل گئے۔ کوئی ہے جو ٹھنڈے کمروں سے باہر نکل کر بازاروں میں نکل جائیں اور چیزوں کی قیمتیں معلوم کریں اور پھر ان قیمتوں کو غریب عوام کی قلیل آمدنی سے موازنہ کریں کہ آخر کس طرح غریب اس مہنگائی کے سونامی میں زندہ رہ سکتے ہیں؟
کپتان کہا کرتے تھے کہ گھبرائیں نہیں، کیوں نہ گھبرائیں انھی کی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف موجودہ حکومت گھبرائی ہوئی ہے بلکہ آج غریب عوام کا زندہ رہنا بھی محال ہوتا جارہا ہے۔زندگی کی باقی ضروریات کوکیسے پورا کیا جائے جب کہ زندہ رہنے کے لیے روٹی ہی میسر نہیں ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف ! باہر نکل کرغریبوں کے گھروں میں جھانکیے کس نے کھانا کھایا ہے اورکس نے نہیں۔ فائلوں میں سب اچھا اچھا لکھا ہوگا مگر حقیقت اس سے بھیانک ہوتی جارہی ہے، غریب عوام کا خاتمہ دکھائی دینے لگا ہے۔اس سے پہلے کہ غربت سب کچھ ہڑپ کرلے غریب عوام پر لادے گئے ٹیکسز پر نظرثانی کریں اور آئی ایم ایف والوں سے کہہ دیں کہ پاکستان کے عوام غریب ہیں ان کی قلیل آمدنی بھاری بھرکم ٹیکسزکی متحمل نہیں ہوسکتی، یہ جیتے جی مرجائیں گے تو پھر میں کن پر حکومت کروں گا۔
پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ ہم یا تو مزید قرضے بڑھنے دیں یا قیمتیں بڑھائیں۔سو حکومت وقت نے عمران نیازی حکومت کی طرح بیک وقت دونوں راستے اپنا لیے ہیں۔ قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں اور قرضے بھی بڑھا دیے۔ جب تک غریب عوام میں سکت ہے یہ سب کچھ سہتے رہیں گے تاوقتیکہ ان کے صبرکا پیمانہ لبریز نہ ہو۔
مجھے تو ڈر سا لگ رہا ہے کہ سونامی جیسی مہنگائی اور اژدھا جیسی بے روزگاری ملک میں انارکی کا سبب نہ بنے جہاں کوئی طاقت بھی کام نہیں آئے گی۔ اللہ پاک ہمارے وطن عزیز پر رحم کرے اوراسے سدا آباد رکھے اور حکمرانوں کو غریبوں کی حالت زار دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)