استاد الاساتذہ ڈاکٹر اسحاق منصوری
دین اسلام ہی انسان کو ایک اطمینان بھری زندگی بخشتا ہے
آج کا کالم پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق منصوری سابق صدر شعبہ عربی زبان و ادب ، جامعہ کراچی کے تعارف اور ان کی دینی اور علمی خدمات کے حوالے سے ہے۔
معاشرتی برائیوں ، اخلاقی اور تہذیبی زوال دین سے دوری اور آج کے نوجوانوں کا کردار اور پاکستان سے تعلیم یافتہ طبقے خصوصاً طالبعلموں اور بے روزگاروں کا دوسرے ملکوں میں حصول معاش کے لیے جانا ، ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ساڑھے سات لاکھ نوجوان ایک قلیل عرصے میں پاکستان چھوڑ گئے ہیں، ہمارے کالم میں ایسے اہم اور سنگین مسائل شامل ہیں۔
اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ الحمدللہ ، اللہ تعالیٰ نے دوسری بار مجھ خطا کار کو عمرے کی ادائیگی کا موقعہ دیا ہے ، جلد ہی عقیدت کا سفر طے کروں گی انشا اللہ۔ آپ سب میری دعاؤں میں شامل رہیں گے اور آپ سب کی دعاؤں کی طالب ہوں۔
پروفیسر ڈاکٹر اسحاق منصوری کی جائے پیدائش کراچی ہے۔ آپ کے آباو اجداد کا تعلق کاٹھیا واڑ (گجرات اور بھارت) قصبہ جیت پور سے ہے۔ والد کا اسم گرامی حاجی محمد ذکریا میمن اور والدہ حاجیانی مریم بائی کی آغوش میں پروان چڑھے۔ والدین کی تعلیم و تربیت کا ہی کمال تھا کہ ڈاکٹر اسحاق منصوری نے اپنی زندگی دعوت دین کی ترویج و اشاعت میں گزار دی اور اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
تعلیمی کارکردگی اس قدر شان دار تھی کہ انٹر اور میٹرک شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج سے کیا ، بہترین کارکردگی کے اعتراف میں گولڈ میڈل اور سلور میڈل سے نوازا گیا۔ اسی کالج سے مولوی ، عالم فاضل عربی کے امتحانات میں پوزیشن حاصل کی۔ ایم اے اسلامیات پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ 1979 میں عربی لسانیات میں عبور حاصل کرنے سعودی عرب تشریف لے گئے جہاں جامعہ ملک سعود ، ریاض سے '' الدبلوم العالی فی، علم اللغتہ التطبیقی '' دو سال میں مکمل کیا۔
1979 میں ڈاکٹر اسحاق منصوری نے پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد مرحوم کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ تحقیقی مقالے کا عنوان ''عربی نثر کے رجحانات'' پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سندھ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ڈاکٹر عبدالواحد ہالیپوٹو نے اپنے تاثرات میں پی ایچ ڈی کے مقالے کو عربی زبان و ادب کی ترقی کی طرف ایک نیا قدم قرار دیا۔
تدریسی خدمات کا سلسلہ کچھ اس طرح سے ہے۔ آغاز فیڈرل گورنمنٹ کالج اسلام آباد بہ طور لیکچرار۔ اسی کالج میں 1975 سے 1983 تک شعبہ عربی کے صدر رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کاوش اور جذبہ دینی خدمت اور عربی زبان سے عشق نے انھیں دیار غیر '' نائیجیریا '' میں بورنو کالج آف ایجوکیشن پہنچا دیا، جہاں صدر شعبہ عربی زبان و ادب مقرر ہوئے۔ اسی طرح کامیابیوں کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور طلبا نے خوب استفادہ کیا۔
ڈاکٹر صاحب کے زیر نگرانی طلبا و طالبات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب کے لائق و فائق طلبا نے استاد کا خوب نام روشن کیا۔ڈاکٹر صاحب کی تدریسی خدمات بھی قابل رشک ہیں۔ انھوں نے جدید عربی زبان اور اس کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جماعت ششم ، ہفتم اور ہشتم کے لیے عربی نصاب متعارف کروایا۔ اس کے ساتھ ہی عربی کورس بک پر مشتمل ایک ''حرا عربی قاعدہ '' ترتیب دیا۔
یہ قاعدہ حرا نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن لاہور کی طرف سے شایع ہوا۔ اس کے علاوہ وزارت تعلیم حکومت پاکستان کے تحت نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کے زیر اہتمام 2014 میں عربی نصابی کتاب '' عربی چھٹی جماعت کے لیے'' اس عنوان سے کتاب کی اشاعت ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کا سب سے اہم اور قابل قدرکام طلبا و طالبات کے لیے قرآنی نصاب کا ترتیب دینا ہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی چینلز اور ریڈیو پر بھی دینی پروگراموں میں بحیثیت مہمان شرکت کرتے رہے ہیں۔ آپ کو کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔
ڈاکٹر اسحاق منصوری صفہ انٹرنیشنل ایجوکیشن ویلفیئر فاؤنڈیشن کے صدر اپنی اسلامی فکر اور دینی خدمات مختلف طریقوں سے انجام دے رہے ہیں۔ آج کل معاشرے کی زوال پذیر اقدار اور مذہب سے دوری کے نتیجے میں بے شمار لوگ گمراہ ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اصلاح معاشرے اور حلال و حرام ، شرم و حیا کے فوائد و نقصانات کو بروئے کار لاتے ہوئے ''نکاح سینٹر'' جیسا ادارہ جوکہ وقت کی ضرورت بھی ہے قائم کیا ہے۔ اس کے قیام کا مقصد نکاح کو آسان بنانا ہے تاکہ معاشرے میں پیدا ہونے والی برائیوں کا خاتمہ ہو۔
زیادہ سے زیادہ جہیزکا حصول، لڑکے کے اسٹیٹس پر نظر رکھنا ، ہم پلہ رشتے کی تلاش ، فضول رسومات ، مہندی ، مایوں ، لڑکی کی شادی کرنے کے لیے جھوٹی شان و شوکت دکھانا ، ایک کھانے کی جگہ دس پندرہ ڈشوں کا انتظام کرنا ، اچھے ہوٹلوں یا بینکوئٹ میں تقریب کا انعقاد، لڑکے والوں کی طرف سے لڑکی کے سسرال والوں کے لیے قیمتی لباس اور زیورات دینے کا طریقہ ، سالیوں کا جوتا چھپائی کی رسم ادا کرنا اور سالی کو آدھی گھر والی کہنا یہ سب باتیں، رسم و رواج دین اسلام کے منافی ہیں۔
ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اللہ کو ناراض کر کے نکاح کے بندھن میں بندھے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے نکاح کو مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ بے شمار گھرانے ایسے ہیں جو اتنے زیادہ اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ لڑکوں کی اتنی تنخواہیں نہیں ہوتیں جو اپنی زوجہ کی فرمائشوں کو پورا کرکے ماہانہ بجٹ کو نقصان پہنچائے یا پھر دھوم دھام سے شادی کرنے کے لیے قرض لے اور اپنی ازدواجی زندگی کو مشکل میں ڈالے۔
سیدھا سادہ اور اسلامی طریقہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے بغیر کسی شرائط کے نکاح کا فریضہ انجام دیا جائے تاکہ لڑکیاں آسانی کے ساتھ اپنے والدین کے گھر سے رخصت ہوں۔ جہیز نہ دینے اور فضول خرچی کی وجہ سے لڑکا لڑکی کی شادی میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اور نوجوان بدکاری کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ غیر شادی شدہ نوجوانوں پر ذمے داری کا بوجھ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے ، اسی وجہ سے وہ اپنے قیمتی وقت کا زیاں باہر دوستوں کی صحبت میں رہ کر کرتے ہیں۔ سیر و تفریح اور دوسرے غیر اسلامی مشاغل کو اپنا کر اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کو تباہ کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر اسحاق منصوری کی تحریر حال ہی میں میری نگاہ سے گزری ہے ، اس سے چند سطور۔ وہ لکھتے ہیں '' صنعتی انقلاب نے دنیا بدل ڈالی، تین سو سال میں پوری دنیا بدل گئی۔ انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے مشینوں سے بہت کام لیا گیا ہے مگر اس انڈسٹریلائزیشن نے انسانوں کی خاندانی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی زندگی پر انتہائی گہرے اور دوررس اثرات مرتب کیے ہیں جن کی اذیت ، تکلیف اور درد سے پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ لوہے کی مشینوں کے کالے کالے دھوئیں میں انسانیت ، ہمدردی ، پیار محبت ، شرم و حیا ، ادب احترام ، نسوانیت اور مردانگی کی تمام اخلاقی خوبیاں اور انسانی فضائل تہس نہس ہوگئے ہیں۔
مشترکہ خاندان جوائنٹ فیملی سسٹم میں عورت اور مرد انتہائی اطمینان اور سکون سے زندگی کا بہترین لطف حاصل کرتے تھے، اب صنعتی ترقی نے بہت کچھ دیا تو بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔''
دین اسلام ہی انسان کو ایک اطمینان بھری زندگی بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو درازی عمر عطا فرمائے جن کے دم سے انسانی بقا کے کئی چراغ دینی خدمات کے حوالے سے روشن ہیں۔ اللہ اس روشنی کو قائم و دائم رکھے۔(آمین۔)