آزادی قربانی مانگتی ہے
کیا کبھی ہم حقیقی معنوں میں آزاد بھی ہوں گے اپنی آنے والی نسلوں کی خوشخالی کامیابی کامرانی کے لیے
www.facebook.com/shah Naqvi
شاعر مشرق علامہ اقبال جنھیں ایرانی اقبال لاہور ی بھی کہتے ہیں۔ بقول ایرانیوں کے وہ ایرانی انقلاب کے فکری نظریاتی رہنما تھے۔
علامہ اقبال کا فارسی کلام ایرانی انقلاب کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔ ایرانی نوجوان ان کے فارسی اشعار پڑھتے ہوئے سینوں پر گولیاں کھاتے۔ اقبال کا اصل کلام تو فارسی میں ہے جو قاری کا لہو گرما دیتا ہے۔
شہنشاہ ایران کی قاہرانہ قوت جس کے پیچھے امریکی سامراج تھا جب کہ ایرانی انقلاب کی کامیابی کے پیچھے ایرانی عوام کے علاوہ دو شخصیات اور بھی تھیں جن میں ڈاکٹر علی شریعتی اور دوسرے اقبال تھے۔ علی شریعتی اسلامی فلسفہ اور تاریخ کے بڑے عالم تھے۔ ایرانی نوجوان ان کے نظریات سے بہت متاثر تھے۔
شہنشاہیت کے خاتمے اور عوام کو ان کے حقوق دلانے کے لیے انھوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ فرانس گئے وہاں انھوں نے فلسفے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی واپس ایران آئے۔
ایرانی خفیہ پولیس ساواک ان کے پیچھے لگ گئی۔ اپنی جان بچانے کے لیے لندن پہنچے لیکن وہاں ساواک کے ایجنٹوں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ علی شریعتی ایرانی شیعت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک علوی سرخ شیعت اور صفوی شیعت ۔ علوی سرخ شیعت کو انقلابی شیعت سے تعبیر کرتے ہیں۔
مشرق وسطی امریکی سامراجی مفادات کے لیے انتہائی حساس علاقہ ہے ایران سمیت خلیجی ریاستوں میں تیل کے اور گیس کے وسیع ذخائرہیں۔ جن پر مغرب کی معاشی صنعتی ترقی کا دارومدار ہے۔ یہ سامراج کی لائف لائن ہے ایرانی تیل کے ذخائر پر بھی امریکی برطانوی تیل کمپنیوں کا قبضہ تھا۔ تیل کی اس دولت کا بیشتر حصہ امریکا یورپ لے جاتے۔
ایرانیوں کو اس میں سے بہت کم ملتا ۔ یہ ایرانی وسائل کی کھلی لوٹ مار تھی۔ جس کی وجہ سے ایرانی عوام کے ہر طبقے میں شدید احساس محرومی پھیل گیا۔ ایرانی عوام سڑکوں پر آگئے ۔وزیر اعظم ڈاکٹر محمد مصدق نے عوام کی امنگوں کے مطابق تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لے کر امریکی یورپی تیل کمپنیوں کو ایران سے بے دخل کر دیا۔ یہ امریکا کے لیے بہت بڑا صدمہ اور شکست تھی۔
اپنی اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے امریکا نے اپنی خفیہ تنظیم سی آئی اے کے ذریعے پورے ایران میں اپنے ایجنٹوں کو پھیلا دیا۔ ان جاسوسوں نے بہت تھوڑی مدت میں بڑی تیزی سے معاشرے کے ہر طبقے میں اثر و نفوذ پیدا کر لیا۔ کیا سرکاری کیا غیر سرکاری حلقے، اخبارات، دانشور اور تو اور وہی مذہبی حلقے علماء اکرام جو وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کی حمایت میں تھے ان کی حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم ہو گئے۔
یہاں تک کہ ان کی حکومت کا خاتمہ کر کے چھوڑا۔ یہ امریکی سامراج کی ایران میں ایک بڑی کامیابی تھی۔ تحریک نظام مصطفیٰ کو یاد کریں جب مذہب کے نام پر جس کا سپانسرڈ امریکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی گئی جس کے رہنما بھی علمائے اکرام اور مذہبی جماعتیں تھیں۔
جو کھیل ایران میں امریکا نے اپنے تیل سمیت دیگر اسٹراٹیجک مفادات کے حصول کے لیے کھیلا وہی کھیل امریکا نے بھٹو کے خلاف پاکستان میں کھیلاکوئی فرق نہیں تھا۔
امریکا نے تیسری دنیا میں عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک جیسی سازشیں کیں۔ امریکی تھنک ٹینکوں کا اس میں کوئی بڑا کمال نہیں تھا۔ صرف ہوا یہ کہ تیسری دنیا کے سادہ لوح عوام اپنے اور اپنے وطن کے خلاف امریکی سازشوں میں آلہ کار بن گئے۔
آج بھی امریکی سازشوں کی کہانی پوری دنیا میں انتہائی کامیابی سے دہرائی جا رہی ہے۔ سادہ لوح بے خبر عوام امریکی سامراجی جال میں مسلسل پھنستے دھنستے جا رہے ہیں۔
کانگو افریقہ کا لوممبا ہو جس نے امریکی غلامی سے نکلنے کی جدوجہد کی آخر کار امریکا نے اسے قتل کرا دیا۔ انڈونیشیا میں یہ مذہبی شدت پسند ہی تھے جنھوں نے امریکی سازشوں کا آلہ کار بن کر اپنے ہم وطن لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر دیا۔
امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایٹمی جنگ بھی کر سکتا ہے بقول سابق امریکی صدر ریگن کے، ذوالفقار علی بھٹو بھی امریکا سے حقیقی آزادی کی جدوجہد میں قتل ہوئے۔
بھٹو دور میں بلوچستان کی منتخب حکومت کا خاتمہ ہوا جس کی وجہ امریکا اور شہنشاہ ایران کا دباؤ تھا۔ جمہوری بلوچستان نہ صرف ایرانی شہنشاہیت بلکہ عرب بادشاہتوں کے لیے بھی بہت بڑا خطرہ تھا کہ پورے خطے میں آخر کار امریکی مفادات کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔
بھٹو امریکا کے لیے ناقابل قبول ہو چکے تھے۔ وہ انھیں ہر صورت مارنا چاہتا تھا کہ اس کے بغیر سوویت یونین کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا تھا۔
ان کے جرم ناقابل معافی تھے یعنی مسلم دنیا کو اکٹھا کرنا، امریکا کے مقابلے پر حقیقی آزادی حاصل کرنا،تیل کا ہتھیار استعمال کرنا اور ایٹمی پروگرام۔ غلامی کی طویل تاریک رات ختم ہونے کو نہیں آرہی۔ 75سال پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے اس کے فوراً بعد پاکستانی قوم کو امریکی غلامی کا طوق پہنا دیا گیا۔
اشرافیہ امریکا کی غلام، اس کی بقا اور مفادات امریکا سے وابستہ ہیں ۔ صدیاں گزر گئی ہیں ہمیں اس غلامی میں۔ کیا کبھی ہم حقیقی معنوں میں آزاد بھی ہوں گے اپنی آنے والی نسلوں کی خوشخالی کامیابی کامرانی کے لیے ۔آزادی کی نیلم پری قربانی مانگتی ہے یہ خیرات میں نہیں ملتی۔