قصہ بلدیاتی انتخابات کا …
حکومت سندھ کی ذمے داری ہے کہ جماعت اسلامی، پی ایس پی اور ایم کیو ایم سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کرے
جمہوری نظام کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کا طریقہ تو سیاست دانوں کو راس آیا اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی ''ریگولیٹ'' کرنے کے طریقوں کے ساتھ جمہوری نظام کی اہمیت کو قبول کر لیا مگر بااختیار بلدیاتی نظام کے تصور کو ، عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دینے والے سیاست دان ہضم نہیں کر پائے۔
سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بناء پر الیکشن کمیشن نے گزشتہ سال اندرون سندھ پرانے بلدیاتی قانون کے تحت انتخابات کرائے۔ دوسرے مرحلہ کے تحت 24 اگست کو کراچی اور حیدرآباد میں انتخابات منعقد ہونے تھے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت کو گرانے کے لیے خفیہ مشن شروع کیا، اس کا ایک مرحلہ متحدہ قومی موومنٹ کو تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدہ کرنا تھا۔
ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی کے لیے بلدیاتی قانون میں بنیادی تبدیلیوں، سندھ پبلک سروس کمیشن کی تنظیمِ نو اور ایم کیو ایم کے نمایندے کو گورنر سندھ مقرر کرنے کے مطالبات پیش کیے۔ پیپلز پارٹی نے ان مطالبات کو منظور کیا۔
مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام اس معاہدہ کے ضامن بنے۔ ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ن سے علیحدہ معاہدہ کیا۔ ا س معاہدہ میں نئی مردم شماری اور نئے صوبوں کی تشکیل کے لیے قانون سازی کی شقیں شامل تھیں۔
نئی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کمیٹی قائم کی تاکہ بلدیاتی قانون میں تبدیلی کی جائے۔
اس دوران ایم کیو ایم نے سندھ کے گورنر کے لیے نسرین جلیل کا نام پیش کیا۔پھر یہ خبریں شایع ہوئیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہوسکا بعد ازاں آصف زرداری کی مداخلت پر ایک اور کمیٹی قائم ہوئی۔ کچھ نکات پر اتفاق ہوا اور کچھ پر تنازع باقی رہا۔
گزشتہ سال جماعت اسلامی نے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے لیے سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا۔ یہ دھرنا بلاشبہ ایک ماہ تک جاری رہا۔ سندھ کے وزراء ناصر حسین شاہ اور سعید غنی وغیرہ نے حافظ نعیم الرحمن اور دیگر رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور ایک معاہدہ پر اتفاق کے بعد جماعت اسلامی کے صالحین گھروں کو چلے گئے۔
اس کے بعد پی ایس پی والوں نے کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا۔ حکومت سندھ کے نمایندوں نے مصطفی کمال سے مذاکرات کیے۔ پیپلز پارٹی نے پھر فراخ دل کے ساتھ مصطفیٰ کمال کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کیا جیسا جماعت اسلامی کے ساتھ کیا تھا۔ ایم کیو ایم نے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے لیے ریلی نکالی۔
ریلی کے شرکاء وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ گئے۔ پولیس نے ڈنڈوں ، واٹر کینن اور آنسو گیس کے شیلز کے ساتھ ایم کیو ایم کے کارکنوں پر حملہ کیا۔ اس مظاہرہ میں شریک رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ سڑک پر بے ہوش ہوئیں اور انھیں اسپتال لے جایا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے پولیس ایکشن پر افسوس کا اظہار کیا مگر پیپلز پارٹی کی روایت ہے کہ وہ معاہدے تو کرتی ہے مگر معاہدوں کو فراموش بھی کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ حکومت سندھ نے کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کو التواء میں رکھا۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی عرض داشتوں پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو 15 جنوری کو انتخابات کی ہدایت کی۔
ایم کیو ایم نے سندھ ہائی کورٹ میں عرضداشت پیش کی ہے کہ نئی بلدیاتی حلقہ بندیوں تک بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جائیں۔ ایم کیو ایم نے اپنے مطالبات منظور نہ ہونے پر مخلوط حکومت سے دست بردار ہونے کا عندیہ دیا تو وفاقی وزراء کا ایک وفد کراچی آیا اور گورنر ہاؤس میں مذاکرات ہوئے۔
ان مذاکرات کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے مگر آصف زرداری نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم کے تحفظات دور کردیے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے وفاق سے ایم کیو ایم کے رویہ کی شکایت کی اور حکومت سندھ نے ایم کیو ایم کو دی جانے والی مراعات کی تفصیلات اخبارات کو جاری کیں۔ حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ ایم کیو ایم کے 6 ارکان کو وفاق میں اہم عہدے دیے گئے۔
امین الحق اور فیصل سبز واری وفاقی وزراء بھی بنائے گئے۔ صوبائی بجٹ میں ایم کیو ایم کے اراکین کی تجویز کردہ کئی تجاویز شامل کی گئیں۔ سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کے عہدہ سے استعفیٰ ایم کیو ایم کے کہنے پر لیا گیا۔ بلدیہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر ایم کیو ایم کی سفارش پر تقرر کیا گیا اور تین اضلاع میں ایڈمنسٹریٹر مقررکیے گئے۔
ایم کیو ایم کے لاپتہ کارکنوں کی واپسی میں حکومت سندھ نے مثبت کردار دا کیا۔ ایم کیو ایم اراکین قومی اسمبلی کو مختلف پارلیمانی کمیٹیوں کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے ایک رہنما کے بھائی سمیت تین اراکین سندھ پبلک سروس کمیشن کا رکن مقرر کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے قریبی رشتہ داروں کو کراچی واٹر ینڈ سیوریج بورڈ میں اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
اس دوران سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے کا ایک اور مشن شروع کیا۔ ایم کیو ایم کی قیادت اپنے احتجاجی جلسہ میں شرکت کے لیے ایم کیو ایم کے مختلف گروہوں اور دیگر جماعتوں سے رابطے کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم کا ابھی تک کا مؤقف ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر بلدیاتی انتخابات نامکمل رہیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کراچی میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ پیشگوئی کرچکے ہیں کہ اگلا میئر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہوگا۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے مذاکرات اور پیپلز پارٹی کے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو دی جانے والی مراعات کی فہرست آشکار ہونے کے باوجود یہ حقائق واضح ہورہے ہیں کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی اختیارات کو نچلی سطح تک بااختیار کرنے کے نظریہ کو قبول ہی نہیں کرنا چاہتی۔ پاکستان کا آئین 1973میں نافذ ہوا تھا ، یوں اس آئین کو تیار ہوئے 50 سال ہوگئے ہیں۔ 1973 کے آئین کی شق 140-A کے تحت بلدیاتی اداروں کا قیام ضروری ہے۔
بے نظیر بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ، انھوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں لندن میں جلاوطنی کے دن گزارے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے 1988 کے انتخابی منشور میں نئے سماجی معاہدہ (New Social Contract) کا تصور شامل کیا تھا۔
بے نظیر بھٹو برطانیہ کی کاؤنٹی کے نظام سے متاثر تھیں مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے بلدیاتی نظام کے نفاذ کو اپنے ایجنڈ ے سے خارج کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جنرل نقوی نے نچلی سطح تک کے بلدیاتی نظام کو نافذ کیا۔
پیپلز پارٹی نے اس نظام کو ایک فوجی آمر کی ذہنی اختراع قرار دے کر پس پشت ڈال دیا۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل جنرل ضیاء الحق کے نافذ کردہ بلدیاتی نظام کو سندھ میں نافذ کیا ، یوں ایک بے اختیار بلدیاتی نظام کی بناء پر کراچی اورحیدرآباد موئنجودڑو کی شکل اختیار کرگئے۔
وزیر اعلیٰ اپنی دیگر مصروفیات کے علاوہ شہروں میں سیوریج ، پانی کی کمی کے مسائل کے حل اور کوڑے کو ٹھکانے لگانے جیسے مسائل پر بھی توجہ دیتے ہیں جب کہ یہ تمام کام بلدیاتی اداروں کے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے اپنے وائٹ پیپر میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو دی جانے والی مراعات کا ذکر کیا ہے۔ عجب ستم ظریفی ہے کہ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو مراعات تو دینا چاہتی ہے مگر شہر کی ترقی کے لیے نچلی سطح کا بلدیاتی نظام کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔
حکومت سندھ کی ذمے داری ہے کہ جماعت اسلامی، پی ایس پی اور ایم کیو ایم سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کرے اور بااختیار بلدیاتی نظام کے قانون کا مسودہ سندھ اسمبلی میں پیش کرے۔ شہروں کی ترقی کا راستہ ہی نچلی سطح کا بلدیاتی نظام ہے۔