کراچی کے شہریوں کےلیے اچھی خبر

بجلی پیدا کرنے کے روایتی طریقوں کی بدولت ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں


Ehtisham Mufti January 11, 2023
کراچی کے لوگوں کو ’’کے الیکٹرک‘‘ سے ہمیشہ شکایات رہی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کراچی کے رہائشیوں کو کبھی کبھار ہی کوئی خوش خبری ملتی ہے۔ روزانہ کا اخبار اٹھا کر دیکھیں تو اس میں کراچی کے حوالے سے لوٹ مار، حادثات، قتل و غارتگری کی خبریں ہی ملتی ہیں۔ ایسے ماحول میں اور جب کراچی میں اشیائے ضروریات اور تو اور گیس تک کی قلت نے شہریوں کو پریشان کیا ہوا ہے، اگر کسی ادارے کی جانب سے ایسی خبر مل جائے جس سے مستقبل قریب میں اس شہر کے رہنے والوں کو ایک ضروری سہولت میسر ہونے والی ہو تو ظاہر ہے ہر ایک اس کا خیر مقدم کرے گا۔

ایسی ہی کچھ میری کیفیت تھی جب میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ کراچی کو بجلی مہیا کرنے والی کمپنی یعنی کے الیکٹرک اور توانائی کے شعبے میں بین الاقوامی طور پر ایک بہت بڑا نام ''سیمنس پاکستان'' کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے جس کی بدولت ساحل سمندر پر واقع ایٹمی بجلی گھر کنوپ سے کے الیکٹرک تک بجلی کی ترسیل ممکن ہوسکے گی اور اس طرح کراچی کے شہری نہ صرف وافر مقدار میں بلکہ نسبتاً کم قیمت پر بجلی حاصل کرسکیں گے۔

وافر مقدار میں بجلی اور وہ بھی سستی ایک ایسا خواب ہے جو کراچی کے لوگوں کےلیے شرمندہ تعبیر ہوا چاہتا ہے۔ یہ خبر اس لیے بھی خوش آئند ہے کیونکہ یہ چوتھا ایسا منصوبہ ہے اور اس سے پہلے این کے آئی اور کے ڈی اے گرڈ اپنا کام کررہے ہیں اور جلد ہی دھابیجی کے ساتھ جڑنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کے الیکٹرک کے اس منصوبے کی لاگت 48 ملین ڈالر ہے۔

کے الیکٹرک اور سیمنس کے درمیان معاہدے کے اثرات 2024 کی گرمیوں سے محسوس کیے جاسکیں گے، جب اس منصوبے کی بدولت کے الیکٹرک نیشنل گرڈ سے 500 سے 800 میگاواٹ بجلی حاصل کرسکے گی اور اس کی تعمیر سے بجلی کی ترسیل اور بانٹ کا نظام بھی جدید خطوط پر استوار ہوجائے گا۔ اس منصوبے کے علاوہ یہ کمپنی دوسرے منصوبوں پر بھی کام کررہی ہے اور انتھک جدوجہد میں مصروف ہے کہ اس شہر کو، جو عرصہ دراز سے روشنیوں کا شہر کہلایا جاتا ہے، صحیح معنوں میں ایک جگمگاتا ہوا شہر بناسکے۔ اسی سلسلے میں بن قاسم کے مقام پر 900 میگاواٹ کے آر ایل این جی کی بنیاد پر چلنے والے پاور اسٹیشن کی تنصیب کا کام بھی جاری ہے جو جدید ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے اور اس کی تکمیل کے بعد کراچی کو بجلی کی فراہمی میں مزید آسانیاں پیدا ہوں گی اور نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ مدت سے بجلی کی کمی سے پریشان صنعت کار بھی آخرکار بجلی کی وافر مقدار میں ترسیل سے مستفیذ ہوسکیں گے۔

بجلی پیدا کرنے کے روایتی طریقوں کی بدولت ماحول پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نشانے پر ہونے والے ممالک میں پاکستان صف اول میں ہے۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ کراچی کی بجلی کی کمپنی کے الیکٹرک اس سنگین مسئلے کا احساس کرتی ہے اور اس کے مستقبل کے منصوبوں میں روایتی بجلی پیدا کرنے کے طریقوں سے ہٹ کر متبادل توانائی کی راہ اپنانے کا عزم نظر آتا ہے۔ اس کے منصوبوں کے مطابق وہ مستقبل میں 1100 میگاواٹ بجلی متبادل ذرائع سے حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

کراچی کے لوگوں کی اپنی بجلی کی کمپنی سے ہمیشہ سے دو شکایات رہی ہیں۔ ایک تو بجلی آتی نہیں اور جب آتی ہے تو ڈر لگا رہتا ہے کہ نہ جانے اس کا بل کتنا آئے گا۔ کے الیکٹرک کی کاوشوں اور اس کی انتظامیہ کی بھاگ دوڑ کی بدولت لگتا ہے کہ سب کچھ بدلنے والا ہے۔ کم قیمت پر وافر مقدار میں بجلی سب کچھ بدل کر رکھ دے گی۔ کراچی کی فیکٹریاں چل پڑیں گی جس سے لوگوں کے روزگار میں اضافہ ہوگا اور ان کی قوت خرید بھی بڑھے گی۔

شہر میں لوٹ مار اور تشدد بے روز گاری کا نتیجہ ہے۔ جب فیکٹریاں سارے شفٹ چلنے کے قابل ہوجائیں گی تو روزگار کا مسئلہ بھی بہت حد تک حل ہوجائے گا اور نتیجے میں لاقانونیت پر بھی کسی حد تک قابو پالیا جائے گا۔ شہر کے محنت کش بھی پیداواری عمل میں بھرپور شرکت کرسکیں گے، کیونکہ انہیں بھی رات کو ٹھنڈی ہوا میں پنکھوں کی سہولت حاصل ہوگی اور جب وہ مکمل آرام کرکے دوسرے روز فیکٹری جائیں گے تو ترو تازہ ہوکر فیکٹریوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرسکیں گے۔ سستی اور وافر مقدار میں بجلی کایا پلٹ کر رکھ دے گی اور یہ شہر صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر چل پڑے گا۔

کے الیکٹرک کے یہ منصوبے اس بات کی ضمانت ہیں کہ یہ کمپنی اس شہر میں صرف پیسہ کمانے نہیں آئی بلکہ وہ اس شہر کی صحیح معنوں میں خدمت کرنا چاہتی ہے اور اس کا نصب العین صارفین کو سستی بجلی وافر مقدار میں مہیا کرنا ہے، جس کےلیے وہ دن رات جتن کررہی ہے اور نئے ایٹمی بجلی گھر سے ترسیل کی لائن کا منصوبہ اسی عزم کا آئینہ دار ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں