ہوئے جو مہمان ہمارے
پچھلے دنوں ہمارے گھر بھی کچھ مہمان تشریف لائے، میاں بیوی اخبار و رسائل پڑھتے رہے...
جناب! ہر گھر میں مہمان کسی نہ کسی دن ضرور وارد ہوتے ہیں۔ کچھ گھرانے ایسے ہیں جہاں صبح وشام مہمانوں کی آمد رہتی ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ صاحب خانہ کے لیے یہی مہمان زحمت بن جاتے ہیں، اس کی وجہ اتنی ہوتی ہے کہ ہر روز یا ہر ہفتہ اور ہر ماہ آنے والے مہمان، میزبان سے نہ کہ اس کا قیمتی وقت چھین لیتے ہیں، بلکہ معاشی طور پر بھی کنگال کرجاتے ہیں۔ خصوصاً یہ حال ان غریب میزبانوں کا ہوتا ہے جو کراچی جیسے بڑے شہر میں محنت مزدوری کی غرض سے آئے ہوئے ہیں وہ خود خالی پلاٹوں میں جھونپڑی ڈال کر رہتے ہیں، ان کی خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں اور مرد حضرات چنگچی چلاتے یا دوسرا کوئی کام کرتے ہیں یہ غریب خواتین گھر کے جھاڑو برتن دھونے کے علاوہ شیف کا کام بھی کرتی ہیں اگر تنخواہ معقول دی جائے ان کا خیال رکھا جائے تو سالہا سال ایک ہی گھر میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
ان ہی میں سے ایک خاتون نے ہمیں بتایا کہ پچھلے ہفتے ان کے گھر میں 14 افراد آئے جوکہ عمرے کی ادائیگی کے لیے اپنے گاؤں سے اس محنت کش خاتون کے گھر پہنچے اس غریب خاندان نے دو دن تک ان کی خاطر مدارت کی اور اپنے ہی خرچے پر ایئرپورٹ چھوڑ کر آئے، جاتے ہوئے وہ بچوں کو دو سو روپے دے گئے۔ اس بے چارے مفلس زدہ خاندان نے ان کی خاطر مدارت پر پانچ ہزار کے قریب اس وجہ سے خرچ کیے کہ وہ ان کی زمینوں پر کام کرتے تھے گویا وہ سب ان کے افسران بالا تھے جنھوں نے جاتے ہوئے دریا دلی کا ثبوت 200 روپے دے کر دیا۔ اب ان میں سے اعلیٰ ظرف کون تھا؟ وہ کہ جنھوں نے زمینوں پر اناج اگایا اور محنت کے بدلے میں انھیں گندم دیا گیا یا وہ جن لوگوں نے فریضہ عمرے کی ادائیگی میں تو لاکھوں روپے خرچ کردیے لیکن ایک غریب خاندان کو قرض اور تنگدستی میں مبتلا کرگئے۔
پچھلے دنوں ہمارے گھر بھی کچھ مہمان تشریف لائے، میاں بیوی اخبار و رسائل پڑھتے رہے اور بچے گھر میں دھما چوکڑی مچاتے رہے۔ کسی نے گلاس توڑا تو کسی نے ٹی وی خراب کیا، اگر ایل ای ڈی ہوتا تو شاید بچوں کی پہنچ اس تک نہ ہوتی، فریج کی بوتلیں نکالنی شروع کردیں، ماں باپ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ صاحب خانہ کتنا بھی خوش اخلاق، نرم مزاج ہو، آخر کبھی تو کوئی بات گراں گزر ہی جاتی ہے۔ ہم نے بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا اور ان کے شریر بچوں نہیں بلکہ بدتمیز کہنا چاہیے، ان کا ہاتھ پکڑا اور ان کے ماں باپ کے حوالے کردیا کہ آپ کے نور نظر جان جگر جیسے بچوں نے پورا گھر سنبھال لیا ہے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں سنبھالیں، اب آپ انھیں اپنے قبضے میں کر لیجیے۔ ہمارے مہمانوں نے ہماری بات کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ اس طرح کے مہمانوں سے واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے ، اس کی وجہ والدین حصول تعلیم کے لیے تو اچھے اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں لیکن تربیت دینا بھول جاتے ہیں۔
مہمانوں کی آمد و رفت ہر گھرانے میں ہوتی ہے چند ہفتے قبل ہمارا واسطہ ایک ایسے حضرت سے پڑا کہ ہمارا دماغ گھوم گیا، اتفاق سے یہ دور دراز کے رشتے دار تھے۔ہمارے گھر پہلی ہی دفعہ تشریف لائے تھے، اجلا لباس زیب تن کیا ہوا تھا، ڈاڑھی بالکل سفید، سر پر لگی سفید ٹوپی نے بالوں کو چھپالیا تھا، شام کا وقت تھا، لہٰذا ان کے لیے ہم نے ناشتے کا معقول انتظام کیا تھا کہ آئے بھی دور دراز سے تھے، ان کے ساتھ ایک 10 سالہ بچہ جوکہ ان کا پوتا تھا۔ وہ بھی دادا کے ساتھ آیا تھا، ہم نے جیساکہ پہلے عرض کیا کہ ہم نے ان کے لیے معقول ناشتے کا بندوبست کیا تھا جسے ہم ہائی ٹی بھی کہہ سکتے ہیں۔ آنا موصوف کو 5 بجے تھا، تشریف لے آئے 4 بجے۔ اس طرح دوپہر کا کھانا بھی ہمارا اس ہی ہائی ٹی میں شامل تھا، ہم نے ناشتے کی ٹرالی ان کے سامنے رکھ دی، پلیٹیں، چمچے ان کے سامنے رکھ دیے، لاکھ اصرار پر انھوں نے کچھ نہیں لیا۔
بس باتیں کرتے رہے، ہجرت کی باتیں، بیوی سے علیحدگی کے قصے، بچوں کی پرورش، بہوؤں کا سلوک، وہ بولتے نہیں تھکتے تھے اور ہم سنتے ہوئے نڈھال ہوگئے تھے، کباب ہم سب کی پلیٹوں میں پڑے یقینا ہمیں کوس رہے ہوں گے کہ انھیں ان کے جائز مقام پر کیوں نہیں پہنچایا جارہا ہے؟ اور اشتہا بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم نے دوران گفتگو کہا کہ چچا حضور! پانی ہی پی لیجیے۔ انھوں نے ہماری بات نظرانداز کی اور سلسلہ کلام جاری رکھا اب ان کا موضوع سیاست اور موجودہ حالات تھے، تم قلمکارکیا خاک لکھتے ہو، ارے جن لوگوں نے ملک کو دولخت کیا، بھائی کو بھائی سے لڑوایا، زمینوں پر قبضہ کیا، دولت کو دوسرے ملکوں میں منتقل کیا ان کے خلاف کھل کر لکھنا چاہیے، اب انھوں نے ''سب کی'' آڑ لے کر توپ کا رخ ہماری طرف کر دیا تھا۔ توپ سے نکلنے والا گولہ وبارود ہمارے ناتواں وجود کو زخمی کر رہا تھا۔ ہم نے ان سے ادب سے کہا۔
چچا میاں! قاتل کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ذرا سلیقے سے۔ یہ سلیقہ کیا ہوتا ہے؟ اسے منافقت کہتے ہیں، وہ گرجے، اب وہ بے حد جذباتی ہوچکے تھے اور ہمیں احساس ہو رہا تھا آج ہم سے بڑی غلطی ہوئی جو ہم نے انھیں ان کی ہی خواہش پر مدعو کرلیا۔ بھوکے پیٹ میں چوہے ناچ رہے تھے، بلکہ اب تو آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے تھے اور موصوف مسلسل بولنے کی وجہ سے اپنی تھکن کا اظہار نہیں کر رہے، منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوگیا تھا اور سانسیں بے ترتیب سی ہوگئی تھیں، انھوں نے باقاعدہ جب ہانپنا شروع کردیا، تو ہمیں تشویش ہوئی کہ کیوں نہ ایمبولینس کو فون کردیں، حالات ہمارے حق میں سنگین ہوچلے تھے، ہم نے ایک دفعہ پھر لجاجت سے کہا کہ حضرت پانی پی لیجیے۔ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں معلوم ہوتی۔ طبیعت کو کیا ہوا؟ وہ پھر تازہ دم ہوگئے اور سنبھل کر بیٹھ گئے۔ ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ آج ہمیں کسی نہ کسی گناہ کی سزا ملی ہے۔ ہم نے ہمت کرکے پھر چچا کہہ کے مخاطب کیا کہ آپ پلیز کچھ لے لیں، یہ سب آپ کے لیے ہی بنایا تھا۔
آپ پریشان نہ ہوں اسے فریج میں پیک کرکے رکھ دیجیے، گھر جاتے ہوئے لے جائیں گے۔ شکر ہم نے سکھ کا سانس لیا کہ گھر جانے کی تو بات کی لیکن دوسرے حکم نے ہماری خوشیوں کو کافور کردیا۔ بیٹا! کھانے میں خشکہ چاول اور دال بنا لینا، اور بستر ٹیرس پر لگادینا اور دانیال کو ہوم ورک کرا دو، تم سے یہ ریاضی Math سیکھنے آیا ہے۔ امتحانات ہونے والے ہیں۔ اور یہ میرا فرمانبردار پوتا مرغ مسلم اور بریانی شوق سے کھاتا ہے۔ تمہارے بنائے ہوئے کھانوں کی تو خاندان بھر میں بڑی دھوم ہے۔ہم نے سر پکڑ لیا۔ یک نہ شد دو شد۔ آخر مروت اور اخلاق بھی تو کوئی چیز ہے مرتا کیا نہ کرتا باورچی خانے کا رخ کیا۔
تو جناب ایسے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں جو آپ کا قیمتی وقت ہی برباد نہیں کرتے بلکہ آپ کا قیمتی دماغ بھی کھا جاتے ہیں۔ بھوکے جو ہوتے ہیں باتوں کے۔