کراچی جاگ رہا ہے

اگر کراچی پر تھوڑی سی بھی توجہ دی جاتی تو آج یہ شہر ان حالات سے نہ گزر رہا ہوتا


محمد عارف میمن January 13, 2023
کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا خاتمہ کرکے شہر کو اس کا جائز حق دیا جائے۔ (فوٹو: فائل)

3 کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کا نوحہ کسی کو سنائی کیوں نہیں دیتا۔ ہر طرف بدامنی کا شور ہے، مگر معلوم نہیں حکومت کیوں اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ روزانہ سیکڑوں شہری اپنی قیمتی اشیا سے محروم ہورہے ہیں، کئی مزاحمت پر زخمی اور کئی قتل ہورہے ہیں۔ کوئی کچھ کرتا ہی نہیں۔ پولیس تو پولیس لیکن رینجرز بھی خاموش ہے۔

چائے کے ہوٹل پر دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا جہاں دوسرے بنچ پر کچھ لوگ آپس میں گفتگو کررہے تھے۔ خوشی ہوئی کہ کراچی جاگ رہا ہے۔ کراچی سوال کررہا ہے۔ کراچی سوچ رہا ہے اور کراچی اب بولنے بھی لگا ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ شہری اگر حکومت اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے سامنے نہیں تو کم ازکم آپس میں ضرور اس مسئلے پر سوچ بچار کررہے ہیں۔ کہتے ہیں ناں کہ ہلکی چنگاری کی دیر ہے پھر دیکھیں کہ کیسے شعلے بلند ہوتے ہیں۔ شاید یہی وہ چنگاری ہے جو جگہ جگہ بھڑکنے کےلیے اب تیار ہے۔ تاہم کراچی کے کرتا دھرتا اب بھی سوئے ہوئے ہیں، اور اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ کب یہ چنگاری شعلوں میں تبدیل ہوکر انہیں بھی بھسم کردے۔

کراچی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں پولیس مقامی نہیں، یہاں ٹریفک پولیس بھی مقامی نہیں، یہاں قبضہ مافیا بھی مقامی نہیں، یہاں ٹرانسپورٹ کے کرتا دھرتا بھی مقامی نہیں، یہاں پانی مافیا بھی مقامی نہیں، ریتی بجری کی اسمگلنگ کرنے والے بھی مقامی نہیں، پارکنگ مافیا بھی مقامی نہیں، یہاں کے حکمران بھی مقامی نہیں اور کراچی میں لوٹ مار کرنے والے بھی مقامی نہیں۔ اس لیے کراچی کی کسی کو پروا نہیں۔ اگر یہ سب کراچی کے شہری ہوتے، کراچی کے پیدائشی ہوتے تو یقیناً یہ کراچی کا دکھ درد ضرور سمجھتے۔ یہاں ایک افغانی ایک سال میں پاکستانی بن جاتا ہے، مگر ایک کراچی والا کبھی پاکستانی نہیں بن سکتا۔ ہر طرح کے ظلم سہنے کے بعد بھی کراچی والے ہی بدنام ٹھہرتے ہیں۔

گزشتہ روز ایک اردو بولنے والے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں وہ التجا کررہا تھا کہ میری دکان پر ایک افغانی نے قبضہ کرلیا ہے اور غیرقانونی طور پر فٹ پاتھ پر تندور بنالیا ہے۔ جس کی اطلاع مقامی تھانے کے ایس ایچ او کو بھی دی۔ مگر افغانی کی طاقت دیکھیں کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے یہاں کے قانون کی پروا نہیں، مجھے یہاں کی وردی کا خوف نہیں۔ مجھے یہاں کے لوگوں سے کوئی سروکار نہیں۔ جو میرا دل کرے گا وہ کروں گا۔ اور وہ کررہا ہے، مگر کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ قانون ان کے سامنے اتنا بے بس ہے کہ وہ ایک غیر قانونی افغانی سے سوال تک نہیں کرپارہا۔ یہ حال آج پورے کراچی کا ہے، جہاں ہر طرف لوٹ مار مچائی ہوئی ہے جنہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔

کراچی کا نظام تعلیم بھی غیروں کے ہاتھ سونپ دیا گیا ہے، جو آج اپنی مرضی سے تعلیم کے ساتھ کھلواڑ کیے جارہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کو ایک سازش کے تحت تباہ کردیا گیا۔ ہمارے پاس سرکاری اسکولوں کی عمارتیں موجود ہیں مگر وہاں کی حالت زار یہ ہے کہ جانور بھی جانے سے کتراتا ہے۔ اسی طرح کراچی کی سبزی منڈی کا بھی یہ ہی حال ہے، جہاں ہر طرف آپ کو غیر مقامی لوگ نظر آئیں گے جو اپنی مرضی کے نرخ پر سبزی و فروٹ بیچ رہے ہیں۔ لیکن ان سے کوئی سوال نہیں کرسکتا۔ ذخیرہ اندوزوں نے آٹا بھی بلیک میں بیچنا شروع کردیا مگر حکومت نے یہاں بھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔ کیوں کہ اگر وہ کراچی کے مقامی ہوتے تو یقیناً کراچی کا دکھ سمجھتے۔

کل آنکھوں کے سامنے ایک بچے کو روتا ہوا دیکھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ لمبی لائن لگا کر جب میں آٹا لینے آیا تو مجھے منع کردیا، جب کہ میرے گھر میں آٹا نہیں ہے۔ میرے ابو کا انتقال ہوگیا ہے اور امی نوکری کرتی ہیں۔ امی صبح مجھے پیسے دے کر گئی تھیں کہ ساتھ والے انکل کے ساتھ جاکر آٹا لے آنا۔ جب انکل نے آٹا لیا تو انہیں دو کے بجائے ایک بوری دی اور کہا کہ ایک آدمی کو ایک بوری دے رہے ہیں۔ پھر میں لائن میں لگ کر اپنی باری پر پہنچا تو اب یہ کہہ رہے ہیں کہ آٹا ختم ہوگیا ہے۔ یہ منظر رلا دینے والا تھا۔ اس بچے کی آنکھوں میں جہاں آنسو تھے وہیں انتظامیہ کے خلاف بھرپور نفرت بھی تھی۔ آج یہ اس قابل نہیں کہ کچھ کرسکے لیکن جب یہ بڑا ہوگا اور کچھ کرنے کے قابل ہوگا تو کیا آپ سمجھ سکتے ہیں وہ کیا کرے گا اور اسے کیا کرناچاہیے؟ یہ ہم سب کےلیے بہت بڑا سوال ہے۔

بلوچستان میں ایک بزرگ آٹے کے ٹرک کے آگے یہ کہہ کر لیٹ گئے کہ میرے اوپر چڑھا دو۔ آٹے کے بغیر بھی تو سسک سسک کر مرنا ہے تو کیوں نہ اس طرح مرجائیں۔ یہ ہمارا زوال ہے، جہاں آج ہم بڑے فخر سے پوری دنیا کے سامنے بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ اگر کراچی کو اس قابل کیا ہوتا تو آج کراچی پورے پاکستان کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتا تھا۔ لیکن لوٹ مار مچانے والوں نے صرف اپنا مفاد سوچا اور اس مفاد اور مفاہمت کے چکر نے جہاں کراچی کو تباہ کیا وہیں اس کے اثرات پورے ملک میں بھی نظر آرہے ہیں۔ کراچی اپنے پیروں پر کھڑا تھا، جسے اٹھا کر زمین پر لٹا دیا گیا ہے اور اب کہا جارہا ہے کہ کراچی کو پھر سے پاؤں پر کھڑا کریں گے۔ اگر یہ تھوڑی بھی توجہ کراچی پر دیتے تو آج کراچی ان حالات سے نہ گزر رہا ہوتا۔

ہمارے نوجوانوں کو برباد کرنے کے بعد آج انہیں منشیات کی لت میں مبتلا کرنے والے بھی غیر مقامی ہیں، جو غیر مقامی پولیس کو بھتہ دینے کے بعد اپنا کام باآسانی کررہے ہیں۔ نسلیں تباہ کرنے کے بعد بھی کسی کو سکون نہیں مل رہا۔ آج کراچی میں ایک غیر مقامی دودھ فروش کی اکڑ یہ ہے کہ وہ سرعام دودھ اپنی مرضی کے ریٹ پر فروخت کرتا ہے، مرغی اپنی مرضی کے نرخ پر فروخت کرتا ہے اور خریدار سے کہتا ہے لینا ہے تو لو ورنہ راستہ ناپو۔ ڈی سی آفس سے جاری ہونے والے نرخ نامہ کو وہ آویزاں کرنا تو دور کی بات دکان پر رکھنا بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ لیکن انہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ قانون نام کی شے بھی اس ملک میں موجود ہے۔ یہ صرف اس قانون کو جانتے ہیں جس پر قائداعظم کی تصویر ہے۔ اس کے علاوہ یہ کسی قانون کو نہیں مانتے۔

چند روز میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ہر امیدوار اپنی تجوری خالی کررہا ہے اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے میں لگا ہوا ہے۔ آج یہ اپنی جیب سے لگا رہے ہیں تو یقیناً یہ کل ملنے والے سرکاری فنڈز سے اپنا لگایا ہوا وصول بھی کریں گے۔ یہ لوگ سو روپے لگا کر ایک ہزار روپے وصول کرنے کا پلان بھی بنا چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ کراچی کو لوٹ کا مال سمجھنے والے کبھی کراچی کو ترقی کی شاہراہ پر نہیں چلنے دیں گے۔

کراچی کا نظام بہتر کرنے سے ملک کا نظام بھی خودبخود بہتر ہوسکتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کراچی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا خاتمہ کرکے کراچی کو اس کا جائز حق دیا جائے اور ہر علاقے کو کراچی کا ہی حصہ تصور کیا جائے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے کراچی پر فی الفور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ غیرمقامیوں کی رجسٹریشن اور غیرقانونی آنے والوں کو بے دخل کرنے کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ ورنہ چند سال میں کراچی کا نام تبدیل ہوکر علاقہ غیر ہوجائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں