ریاست اور سماج دونوں لرز رہے ہیں
ہر دور کے مسائل علیحدہ ہوتے ہیں اور ان کا حل بھی زمانے کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے
برطانیہ کے ادیبOwen Chadwickکہتا ہے '' اگر انسان یہ سوچے کہ حالات ناقابل برداشت ہیں اور یہ دیکھے کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے تو وہ ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اگر وہ مسائل کا کوئی حل دیکھتا ہے تو اس نظام کو الٹ دیتا ہے کہ جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔''
قوموں کی تاریخ میں '' عروج و زوال '' ہمیشہ ایک معمہ رہا ہے اور مورخوں نے اس موضوع پر کافی سوچ و بچار کیا ہے کہ آخر کیوں ایک قوم ترقی کرتی ہے؟ ابن خلدون ، اشپینگلر اور ٹوائن بی ان چند مفکرین میں سے ہیں کہ جنہوں نے اس معمہ کو حل کر نے کی کوشش کی۔
ترقی کے لیے کسی بھی سماج میں ضروری عنصر تبدیلی کا ہوتا ہے کیونکہ کسی نظام میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ انسان کے تمام مسائل کو آنے والے زمانے تک کے لیے حل کر دے۔
ہر دور کے مسائل علیحدہ ہوتے ہیں اور ان کا حل بھی زمانے کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے اگر مسائل کو حل کیے بغیر چھوڑ دیا جائے تو سماج پس ماندہ ہوجاتا ہے لیکن اگر تحقیق و جستجو ، سو چ بچار کے دروازوں کو کھلا رکھا جائے تو ذہن جاگتا رہتا ہے اور مسائل کا حل نکلتا رہتا ہے ۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ نئی روایات کیوں پیدا ہوتی ہیں اور باغیانہ افکار و نظریات کیوں مقبول ہوتے ہیں ؟ اس کی بنیاد روایات یا نظام کی افادیت اور کار کردگی پر ہوتی ہے ۔
ہر نظام اپنے خاص ماحول اور وقت کے مطابق قائم ہوتا ہے لیکن جب وقت کے ساتھ ضروریات اور تقاضے بدلتے ہیں تو یہ ان کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔
یورپ آج دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور خوشحال خطہ ہے لیکن ایک زمانے میں یورپ جاہلیت اور عام لوگوں کے لیے غربت و افلاس کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، لوگ سائنس اور فلسفے تک کے نام سے بھی واقف نہیں تھے، کیتھولک چرچ مذہب کا ٹھیکیدار بنا ہوا تھا اور وہ عیسائیت کی انتہائی سخت اور تنگ نظر تشریح کرتا تھا۔
زیادہ تر علمی کتابیں لاطینی زبان میں لکھی جاتی تھیں جو کہ اشرافیہ کی زبان تھی اور عوام کی اکثریت اسے سمجھ نہیں پاتی تھی اور ان کتابوں کا کسی عام عوامی زبان میں ترجمہ کرنا جرم ٹہرا کرتا تھا ، اگر کوئی عام آدمی سقراط ، ارسطو ، افلاطون یا کسی اور مفکر کی کتاب پڑھتا ہوا پایا جاتا تو اسے زندہ جلا دیا جاتا تھا ۔
عورتوں کے ساتھ جانوروں سے برا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ ان گنت سوچنے والوں کو اذیت ناک سزائیں دی گئیں۔ پورے یورپ پر خوف، ڈر کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے لیکن پھر حالات نے کروٹ بدلی اور یورپ میں ''نشاط ثانیہ'' Renaissanceشروع ہوئی۔
یہ اصل میں اٹلی کے شہر فلورنس سے شروع ہوکر دیکھتے ہی دیکھتے پہلے پورے اٹلی اور پھر پورے یورپ میں پھیل جاتی ہے Renaissanceکا آغاز چودھویں صدی میں ہوتا ہے یہ یورپ کی سیاسی ، معاشی ، سماجی اور ثقافتی کی نئی پیدائش تھی ۔
لوگ غربت و افلاس ، قحط، بیماریوں ، وباؤں ، مظالم کے ستائے ہوئے تھے وہ سب ان سب مسائل کا حل تلاش کررہے تھے ، لیکن انھیں لگتا نہیں تھا کہ کبھی ان کے حالات و ماحول بدلیں گے اور انھیں ان عفریتوں سے کبھی نجات ملے گی ، کیونکہ مذہبی اور سیاسی دونوں لحاظ سے یورپی معاشرے انتہائی بدترین صورتحال سے دو چار تھے اور تبدیلی کی بات کرنے والوں کو سخت سزائیں ملا کرتی تھیں لیکن یہ جمود ٹوٹا اور اس کے ٹوٹنے کی بہت سی وجوہات تھیں۔
پہلی وجہ یہ تھی کہ جب انھوں نے سمندری سفر شروع کیا تو ان کا بہت سی مختلف ثقافتوں اور سماجوں سے واسطہ پڑا وہاں سے ان کو بہت سے نئے خیالات اور سوچ کے بارے میں آگا ہی حاصل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ انھیں مختلف مذاہب کی معلومات بھی ملیں اور انھیں اندازہ ہوا کہ جو جو باتیں خدا کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں وہ آفاقی سچ نہیں ہیں۔
دوسری سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ قدیم یونانی اور رومی فلسفیوں اور دانشوروں و مفکروں کی کتابوں کا دوبارہ دریافت ہونا تھی ،کچھ ان کی کتابیں تو یورپ میں پہلے ہی سے موجود تھیں لیکن بس انھیں ڈھونڈنا اور دوبارہ زندہ کرنا تھا لیکن زیادہ تر کتابیں وہ تھیں جو اسلامی سنہری دور کے مسلمان مفکروں نے محفوظ کی ہوئی تھیں ۔
اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے مسلم دانشوروں کی بھی کتابیں پڑھیں جن میں ابن رشد کی لکھی ہوئی ارسطو کے فلسفے کی تشریحات شامل ہیں ۔
اسی وقت میں پیٹرارک نے رومی فلسفی سسیرو کے خطوط اور کتابیں دریافت کی ۔ ایک اور اہم وجہ کالی موت کی و با ء بھی ہے جس نے یورپ کی آدھی آبادی ختم کردی تھی۔
اس وبا نے لوگوں کا کیتھولک چرچ کے اس دعویٰ سے کہ ہر چیز کا حل مذہب کے پاس ہے یقین اٹھا دیا تھا آبادی کے اتنے بڑے حصے کے مر جانے کے بعد بچ جانیوالے فلسفیوں پر زیادہ سختی نہیں کی گئی اور انھیں اپنا کام کرنے کی تھوڑی آزادی حاصل ہوگئی تھی ۔
اس کے علاوہ پر نٹنگ پریس کی ایجاد نے سب زیادہ اہم کردار ادا کیا جس کی وجہ سے نئے نئے خیالات اور سو چ گھر گھر پہنچنا شروع ہوگئے ۔ شیکسپیئر نے کہا تھا '' اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ مت بناؤ'' جب تک ہم اپنے بند ذہنوں اور دلوں کے در اور دروازے نہیں کھول دیتے ہم گھٹ گھٹ کر مرتے رہتے ہیں۔ ہر قسم کی آفتوں اور اذیتوں میں مبتلا رہتے ہیں ۔
وقت اپنے ساتھ ساتھ ہر چیز کو تبدیل کرتا رہتا ہے، جو ہم آج ہوتے ہیں وہ گذرے ہوئے کل میں نہیں تھے۔ ہر دور کے اپنے مسائل اور تقاضے ہوتے ہیں آپ اگر وقت کیساتھ نہیں چلیں گے تو پھر آپ دوبارہ کبھی بھی وقت کو نہیں پکڑ سکیں گے۔
پوری انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں جمود کا شکار ہوگئیں ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ ماضی کی عظیم الشان سلطنتوں کا ذکر آج صرف کتابوں میں ملتا ہے ، کیونکہ انھوں نے اپنے آپ کو وقت کے ساتھ تبدیل نہیں کیا ۔
ان کے سماجوں میں نئے خیالات، نئے تصورات ، نئی سوچ پر پابندی عائد تھی ۔ گوئٹے کہتا ہے کہ '' اچھے خیالات بے باک بچوں کی طرح اچانک اور یکایک آپ کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں اور چلا چلا کر کہنے لگتے ہیں ہم یہاں ہیں ہم یہاں ہیں ۔''
آج جو ہماری ریاست اور سماج لرز رہے ہیں اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم پوری دنیا کے برخلاف صدیوں پرانی سوچ اور طریقوں پر اپنی ریاست اور سماج چلانے پر بضد ہیں ، ہم نے تحقیق پر ہمیشہ پابندی عائد رکھی ۔
لوگوں کو قیدی بنا کررکھا اور انھیں کمزور سے کمزور بناتے چلے گئے۔ چند سو خاندان ملک کے مالک بنے ہوئے ہیں اور باقی سب بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں امریکا، برطانیہ اور یورپ کے سب ممالک اسکول سے ہی نصاب میں فلسفہ، نفسیات اور عالمی ادب پڑھاتے ہیں۔ طالب علموں کو سماجیات پڑھائی جاتی ہے ۔ سوچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں ۔
ریسرچ کے لیے زور دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سب لوگوں کو یکساں حقوق اور موقع حاصل ہیں اور دوسری طرف ہمارے ملک میں اقتدار سمیت ہر قیمتی شے چند خاندان کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے آج ریاست اور سماج دونوں انتہائی بدترین صورتحال سے دوچار ہیں اور لوگوں کا ہر چیز پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔