بہار غزل بلقیس خانم بھی رخصت ہوئیں
بلقیس خانم نصف صدی سے بھی زیادہ اپنی سحر انگیز آواز کا ایک ایسا انمول رتن تھیں جس کا نعم البدل مشکل ہی سے میسر آئے گا
سال دو ہزار بائیس جاتے جاتے بھی دنیائے موسیقی کو ایک بڑا دکھ دے گیا۔ سرمایہ موسیقی اور بہار غزل بلقیس خانم بھی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں اور غزل کی محفلوں کو اداس کر گئیں۔
بلقیس خانم نصف صدی سے بھی زیادہ اپنی سحر انگیز آواز کا ایک ایسا انمول رتن تھیں جس کا نعم البدل مشکل ہی سے میسر آئے گا۔ غزل کی گائیکی میں گلوکارہ اقبال بانو کے بعد وہ بھی قابل فخر غزل کی سنگر تھیں کہ جتنا بھی موسیقی کے دیوانے ان کی چاہت کا بھرم رکھیں وہ کم ہے میری یہ خوش قسمتی کہ میں نے اقبال بانو کو بھی روبرو سنا ہے اور بلقیس خانم صاحبہ کو بھی، بلکہ وہ تو میرا ایک گیت بھی گا چکی ہیں جس کا میں آگے تذکرہ کروں گا۔
فی الحال میں ان کے ایک ایسے دلکش اور منفرد گیت کے بارے میں کچھ بات کروں گا کہ اس گیت نے بلقیس خانم کو صف اول کی گلوکاراؤں میں لا کھڑا کیا تھا اور وہ گیت ان کی زندگی کے ساتھ ایسا جڑ گیا تھا کہ وہ جہاں بھی جاتی تھیں جس محفل میں بھی غزل سرا ہوتی تھیں، غزلوں کے ساتھ ساتھ ان سے اس گیت کی پرزور فرمائش ہوا کرتی تھی اور وہ گیت بھی میں نے بلقیس خانم سے روبرو مشہور سارنگی نواز استاد امراؤ بندو خاں کے گھر کی ایک یادگار محفل میں سنا تھا۔
یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ دہلی کے موسیقی گھرانے کے نام ور استاد سارنگی نواز بندو خاں کے صاحبزادے استاد امراؤ بندو خاں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے اور پھر یہاں ریڈیو پاکستان کراچی میں بہ طور اسٹاف آرٹسٹ ملازم ہوگئے تھے انھوں نے اپنے سولجر بازار والے گھر میں باقاعدہ موسیقی کی کلاسیں بھی شروع کی ہوئی تھیں وہ نہ صرف ایک سارنگی نواز تھے بلکہ خوبصورت کلاسیکل غزل سنگر بھی تھے اور اپنے گھر میں وہ اکثر و بیشتر موسیقی کی محفلوں کا اہتمام بھی کرتے رہتے تھے۔
ان کے گھر کی محفلوں میں مہدی حسن، اقبال بانو، فریدہ خانم، تصور خانم، حبیب ولی محمد اور غلام فرید صابری قوال بھی شرکت کیا کرتے تھے اور جب بھی ہندوستان سے کوئی فنکار آتا تو ان کے گھر کی محفل میں پرفارمنس ضرور دیا کرتا تھا۔ میں نے نامور ستار نواز استاد رئیس خان کو بھی پہلی بار استاد امراؤ بندو خاں صاحب کے گھر پر ہی سنا تھا۔ استاد امراؤ بندو خاں کا بھانجا امیر احمد خاں اسلامیہ کالج میں میرا کلاس فیلو تھا۔
ہم دونوں کی گہری دوستی تھی اس کے ساتھ میں ان کے گھر کی موسیقی کی ہر محفل میں شرکت کرتا تھا۔ اب آتا ہوں بلقیس خانم کے اس شہرہ آفاق گیت کی طرف جس کے بول ہیں:
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے
انوکھا لاڈلا
یہ گیت راگ درباری میں موسیقار استاد عاشق حسین نے مرتب کیا تھا اور اسے ریڈیو کے لیے مشہور شاعر طفیل ہوشیار پوری نے لکھا تھا۔ یہ گیت ریڈیو کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا، پھر جب یہ ریڈیو سے نشر ہوا تو اس کی دھوم مچتی چلی گئی۔ ہر فرمائشی پروگرام میں یہ گیت شامل کیا جاتا تھا اور بلقیس خانم سے یہ گیت ہر محفل میں سنا جاتا تھا اور بار بار سنا جاتا تھا اور اس گیت کی قدر و منزلت بڑھتی چلی گئی تھی۔
بلقیس خانم کی سریلی آواز میں اس گیت کا حسن اور بھی نکھرتا چلا گیا تھا اور پھر یہ گیت ان کی زندگی کا حصہ بنتا چلا گیا تھا۔ اب میں آتا ہوں بلقیس خانم کی ابتدائی زندگی کی طرف۔ بلقیس خانم نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے نانا عنایت علی خان سے حاصل کی تھی جو اپنے وقت کے مشہور موسیقار اور غزل گائیک بھی تھے۔
پھر بلقیس خانم نے 1964 میں ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی گائیکی کا آغاز کیا، اسی دوران انھوں نے موسیقی کی مزید تعلیم استاد محمد شریف جالندھری سے حاصل کی اور کلاسیکل موسیقی میں کافی دسترس حاصل کرنے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور کے موسیقاروں اختر حسین اکھیاں اور شہریار کی کمپوز کی ہوئی بہت سی دھنوں میں غزلیں ریکارڈ کرائیں اور اپنی آواز کا جادو جگاتی رہیں۔
اسی دوران استاد عاشق حسین کا مرتب کردہ گیت انوکھا لاڈلا بلقیس خانم کی آواز میں ریکارڈ ہو کر مشہور ہوتا چلا گیا اور اس گیت کی شہرت ریڈیو کے بے شمار گیتوں سے آگے نکلتی چلی گئی۔ اسی دوران مشہور میوزک کمپوزر نذر حسین کی موسیقی میں بلقیس خانم کا گایا ہوا شاعر عبیداللہ علیم کا لکھا ہوا گیت جس کے بول تھے:
کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں
جو کراچی ریڈیو اسٹیشن پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس گیت نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی۔ بلقیس خانم نے اردو، پنجابی کے علاوہ موسیقار فیروز گل اور موسیقار غلام علی کی موسیقی میں بہت سے سندھی زبان کے گیت بھی گائے جو بڑے مقبول ہوئے۔ پھر بلقیس خانم کو فلمی دنیا سے بھی آفرز آنے لگی تھیں۔ یہ کبھی کراچی میں ہوتی تھیں اور کبھی لاہور میں رہتی تھیں۔ لاہور میں انھوں نے کئی فلموں کے لیے بھی گیت گائے۔ ان فلموں میں بلما، اناڑی، گڈو، نئی زندگی، قرض، تصویر، میلہ سجنا دا اور نواب زادی کے نام قابل ذکر ہیں۔
جب ہندوستان سے نامور ستار نواز استاد رئیس خان پاکستان آئے اور ان کی جب پہلی ملاقات بلقیس خانم سے ہوئی ان کی گائیکی کو انھوں نے بڑا پسند کیا اور بلقیس خانم تو بہت پہلے سے ان کی ستار نوازی کی معترف تھیں۔ ہندوستان میں استاد رئیس خان کی مقبولیت بڑی زبردست تھی۔ ان کا نام اور کام سارے ہندوستان میں پوجا جاتا تھا۔ رئیس خان کو بلقیس خانم بہت پسند آئیں اور اتنی زیادہ پسند آئیں کہ انھوں نے ان کو جب شادی کے لیے کہا تو وہ انکار نہ کرسکیں اور پھر دونوں ایک دوسرے کے شریک زندگی بن گئے۔ اس طرح موسیقی کے دو ستاروں کا ملن بڑی آسانی سے ہوگیا۔
جب لاہور کی فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوئی تو میں بھی لاہور کو خیرباد کہہ کر واپس کراچی آگیا اور پھر ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے لکھنا شروع کردیا۔ اسی دوران کراچی ریڈیو پر میری ملاقات موسیقار لال محمد اقبال سے کافی عرصہ یعنی دس بارہ سال لاہور میں گزارنے کے بعد ہوئی تھی انھوں نے اپنی ایک دھن پر مجھ سے ایک گیت لکھوایا اور پھر وہ گیت غزل کی خوبصورت گائیکہ بلقیس خانم سے گوایا تھا جسے ریڈیو پر بڑی شہرت ملی تھی، گیت کے بول تھے:
تو جو ملا جان وفا
پیار کے گیت لبوں پر آئے
اور میں جھوم اٹھی
اب نہ ٹوٹ سکے گا
تیرے پیار کا بندھن
تو سانسوں میں شامل
تو ہے میری دھڑکن
یہ گیت وہ کبھی کبھی اپنے گھر کی محفل میں بھی گاتی تھیں اور ایک بار جب موسیقار اور کلاسیکل سنگر امیر احمد خان کے ساتھ استاد رئیس خان سے ملنے بلقیس خانم کے گھر گیا تھا تو استاد رئیس خان نے بھی اپنا ستار سنایا تھا اور بلقیس خانم نے بھی میرا لکھا ہوا گیت اس موقع پر گایا تھا۔ دو فنکاروں کی حسین زندگی کے حسین پل بہت اچھے گزر رہے تھے۔ مگر شاید تقدیر کو ان دونوں کا یہ ساتھ دیرپا پسند نہیں آیا اور 6 مئی 2017 میں استاد رئیس خان بلقیس خانم کو داغ مفارقت دے گئے۔ جدائی کا یہ دکھ بلقیس خانم کی زندگی کا پھر روگ بنتا چلا گیا تھا۔
بلقیس خانم استاد رئیس خان کو ایک دیوتا کی طرح چاہتی تھیں۔ استاد کے چلے جانے سے ان کی زندگی کی بہاریں روٹھتی چلی گئی تھیں اور پھر جاتے سال کی 21 دسمبر کی رات ان کی زندگی کی آخری رات ثابت ہوئی اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اس طرح موسیقی اور غزل کی گائیکی کا روشن ستارہ ٹوٹ کر خلاؤں میں گم ہو گیا اب اس دنیا میں نہ وہ انوکھا لاڈلا ستار نواز استاد رئیس خان ہے اور نہ ہی اس لاڈلے کے گن گانے والی گلوکارہ بلقیس خانم اس دنیا میں موجود ہے۔ آسمان ان دونوں فنکاروں کی لحد پر شبنم افشانی کرے اور اللہ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔( آمین)