خیبر پختونخوا پولیس طالبان کے نشانے پر
دہشت گرد اب باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے پولیس اور پولیس کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر انھیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں
1997میں صوبائی اسمبلی کی کوریج کے دوران میری اور میرے عزیز دوست مرحوم سہیل قلندر کی دوستی اے این پی کے موجودہ مرکزی جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین سے ہو گئی۔
اکثر اسمبلی کے اس وقت بڑے بڑے لانوں میں اسمبلی اجلاس کے بعد سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے اسی دوران میاں صاحب کے چہیتے حاجی نیاز سے بھی ہمارا تعلق بنا وہ ایسے کہ ایک دن میاں صاحب دنبہ کڑاھی کھلانے نیاز کے دفتر رامپورہ مارکیٹ لے گئے، ہر وقت انگریزی جھاڑنے والے حاجی نیاز سے میری اور سہیل کی پہلی ملاقات تھی۔
آہستہ آہستہ یہ تعلق دوستی سے بڑھ کر بھائی ولی میں تبدیل ہو گیا۔ نیاز کی معرفت سے دو پولیس والوں سے اس وقت سلام دعا ہوئی ایک دوست محمد جو آج کل شرقی تھانے کے ایس ایچ او ہیں پچھلے 20 سال سے وہ صدر کے تھانوں میں بطور ایس ایچ او کامیابی سے ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔
دوست محمد چوک یادگار چوکی میں تھے اور ان کے دوست سردار حسین بڈھ بیر تھانے میں تعینات تھے دونوں پھر محرر بنے اور کافی مضبوط قسم کے پرچے دیے۔
ایک دن تو دوست محمد نے ایک غریب خاتون کی شکایت پرا سکواش کے کھلاڑی جان شیر خان کے خلاف بھی پرچہ دے دیا اور پرچہ ایسا کہ جان شیر خان کو جیل میں کئی دن گذارنے پڑے۔ سردار حسین نے پشتہ خرہ اور بڈھ بیر جیسے تھانوں میں تعیناتی کے بعد شہر میں بھی ذمے داریاں ادا کیں اور بھانہ ماڑی جیسے گنجان آباد علاقے کے ایس ایچ او بھی رہے۔
یہ سارے واقعات کل سے میرے ذہن میں مسلسل دھرائے جا رہے ہیں کیونکہ سردار حسین جیسے محنت کش پولیس آفیسر کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ان کی شہادت پر خود پولیس نہ صرف افسردہ ہے بلکہ کچھ حد تک خوفزدہ بھی۔ سردار حسین جیسے بہادر پولیس والے کی شہادت کا کافی اثر پولیس کے رینکس میں پڑا ہے۔
یہ اثر مجھے پھر ماضی کی طرف لے جا رہا ہے جب 2007 میں حکومت کے آخری دنوں میں بڑے بڑے پولیس آفیسر یا تو فیلڈ میں جانے سے کتراتے تھے یا فیلڈ پوسٹنگ سے بچنے کے لیے کئی ایک اعلیٰ افسروں نے خیبرپختونخوا کو چھوڑ کر دوسرے صوبوں میں اپنے تبادلے کروائے۔
ہمارے شہر کے ایک معروف ایس ایچ او نے خود مجھے کہا کہ حالات خراب ہیں اسی لیے ایس ایچ او گیری چھوڑ کر ٹریفک میں تبادلہ کروا رہا ہوں اور موصوف پھر ایس پی کے عہدے تک پہنچنے کے بعد ٹریفک پولیس سے ہی ریٹائر ہوئے اب بھی کچھ ایسے ہی حالات ہیں۔
پولیس اور پولیس کے اندر بہادر اور کام کرنے والے عوامی مقبولیت کے حامل افسران اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ پولیس کو اس کے اصلی کام سے روکا جا سکے۔
صرف ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈی پی او محمد شعیب پر اب تک 3 بار باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے حملے کیے جا چکے ہیں۔
اگرچہ پولیس کے آئی جی نے انھیں اضافی بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کر دی ہیں تاہم اپنے ایک بہادر آفیسر کو بچانے کے لیے ان کا تبادلہ ضروری ہے۔ انگریز کے دور سے انتظامیہ کا یہ چلن رہا ہے کہ جن آفیسر کے لیے اپنے علاقے میں مشکلات بڑھ جائیں تو اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان، بلوچستان کو خیبرپختونخوا سے ملاتا ہے اور یہی آج کل دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ پختونخوا سے اسمگلر دہشت گرد اور غیر قانونی طور پاکستان آنے والے اب بلوچستان کا رخ کرتے ہیں اور ادھر سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پختونخوا اور پھر ملک کے دوسروں حصوں کی طرف رخ کرتے ہیں۔
اب پشاور میں آنے والے غیر قانونی افغان باشندے چمن کے راستے کو استعمال کرتے ہیں طور خم کو نہیں۔ ایکسپریس اخبار کے محنتی رپورٹر احتشام خان نے کئی ماہ قبل اپنی خبر کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ طالبان اب انتہائی جدید ہتھیار استعمال کر رہے ہیں اندھیرے میں نشانہ بنانے والے ہتھیاروں کے علاوہ اب ان کے پاس تھرمل گنز بھی ہیں جس کا لکی مروت میں پولیس تھانے پر حملے کے دوران بھرپور استعمال کیا گیا۔
کئی ماہ گذر جانے کے بعد اب جا کے خیبرپختونخوا پولیس نے یہ نئے ہتھیار خریدے ہیں اور وہ بھی اتنی قلیل تعداد میں کہ ڈی ایس پی سرکل کی سطح پر بھی ایک ہتھیار مہیا کرنا ممکن نہیں اگرچہ چیف سیکریٹری نے یہ کہا ہے کہ پولیس کو 3 ارب مزید جاری کیے جائیں گے۔ اگر سردار حسین پر حملے کو تفتیش کی نگاہ سے دیکھا جائے تو دلیر آفیسر نے اپنی حفاظت کے تمام تر بندوبست کر رکھے تھے انھوں نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی ایک مختلف راستے سے متاثرہ پولیس چوکی پہنچے۔
پیدل راستہ بھی اپنایا تاکہ کسی کی نظر میں نہ آ سکیں لیکن طالبان جنھوں نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے وہ گرنیڈ حملے کے بعد وہیں موجود تھے اور شہید پولیس آفیسر کو بلٹ پروف جیکٹ کے باوجود تھرمل گن سے نشانہ بنا کر شہید کیا گیا ، طالبان نے ڈیڑھ کلومیٹر دور سے ان پولیس والوں کو جدید ہتھیاروں سے نشانہ بنایا ، کسی کو جان بچانے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔
دہشت گرد اب باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے پولیس اور پولیس کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر انھیں راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں ۔ طالبان کی وہ والی محبت جو کبھی افغانستان میں جہاد کی وجہ سے عوام کے دلوں میں تھی لمبی لڑائی کے نقصان کے بعد اب وہ نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی علاقوں کے بعد اب جنوبی اضلاع میں بھی سیاسی سرپرستی میں امن مارچ ہوئے۔
پہلے عوام اپنی سطح پر اپنے اپنے علاقوں میں ایسے امن مارچ کرتے تھے لیکن اب انھیں سیاسی جماعتوں کی سرپرستی بھی مل گئی ہے خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی اور اس کے نوجوان سربراہ ایمل ولی خان امن مارچ کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے سوات اور دیر میں جب صرف کچھ طالبان ظاہر ہوئے تھے کافی واویلا مچایا لیکن اس کے بعد سے بطور جماعت پی ٹی آئی خاموش ہے ۔
صوبے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو خود صوبائی حکومت کہتی ہے کہ وفاق اس کی ذمے دار ہے لیکن وفاق کے امن و امان کے حوالے سے اجلاسوں میں وہ شریک ہی نہیں ہوئے حالانکہ مسلسل پولیس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جو لوگ نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کو عام معافی تحریک انصاف کے دور میں ملی اور ان کی واپسی بھی ہوئی۔ امن و امان کا قیام صوبائی ذمے داری ہے جو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اب وفاق پر الزام ڈال کر بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ صوبے کے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے اور وہی ان کی حفاظت کی ذمے دار ہے۔