بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت نے قانون کی دھجیاں اڑائیں ایم کیو ایم
یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن 2023 کا الیکشن شفاف کروائے گا، وسیم اختر کی بہادر آباد مرکز میں پریس کانفرنس
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنونیر نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت کے ساتھ مل کر بلدیاتی الیکشن میں قانون کی دھجیاں اڑا دیں اب یہ کیسے مملک ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن 2023 میں شفاف عام انتخابات کے انعقاد کا اہل ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ڈپٹی کنوینر وسیم اختر نے مرکز بہادر آبا د میں ڈپٹی کنوینر عبد الوسیم و دیگر اراکین رابطہ کمیٹی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کی عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے موقف کی تائید کی اور بلدیاتی الیکشن میں گھروں میں بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کافی عرصے سے ہر فورم پر آواز بلند کر رہی تھی کہ حلقہ بندیاں درست نہیں ہوئیں مگر موجودہ الیکشن کمیشن نے حکومت سندھ کے ساتھ مل کر انصاف و قانون کی دھجیاں اڑادیں۔ اگر الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ہم نے دیر کردی توپھر بھی انکا فرض تھا کہ ہماری بات کو سنتے، الیکشن کمیشن اور 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
وسیم اختر نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ الیکشن کمیشن 2023 کا الیکشن شفاف کروائے گا، الیکشن کے روز سے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرے پڑے ہیں، جن میں بیلٹ باکسز اور پیپرز سر عام نظر آرہے تھے اور لوگ ٹھپہ لگا رہے تھے پوری دنیا اس جھرلو بلدیاتی انتخابات کا مذاق اڑا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 2015 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کا 11 لاکھ کا مینڈیٹ تھا جبکہ اس بلدیاتی انتخابات میں تمام جماعتیں مل کر بھی 11 لاکھ ووٹ نہیں لے سکیں ہیں، 2023 کے بلدیاتی انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کو گھروں میں بیٹھ کر مسترد کردیا ہے، انہوں نے کہا کہ کراچی اور حیدرآباد میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ اتنا کم رہا کہ جیتنے والوں کو شرم سے مرجانا چاہئے، جو شخص مہینوں سے سوشل میڈیا پر میئر بنا پھر رہا ہیں وہ خود 6 ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکا جبکہ انتخابی مہم پر اربوں روپے اُڑا دیے۔
ایم کیو ایم رہنما نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے چند سیٹوں کے عوض کراچی اور حیدرآباد کے عوام کی نمائندگی کو پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بیچ دیا جس کیلئے انہیں کراچی اور حیدرآباد کے عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں وسیم اختر نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے 75 یوسیز غلط بنائی جن میں آبادی کا تناسب درست نہیں تھا 75 سے 95 ہزار پر مشتمل ایک یوسی تشکیل دی اور دوسری جانب 25 سے 30ہزار پرڈسٹرکٹ کونسلز میں بھی 25 یوسیز کا اضافہ کرکے جیری مینڈرنگ کی گئی تھی،52 یوسیزوہ ہیں جو کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے قبول کیں کہ ہم انہیں درست کریں گے بلاول زرداری اور پیپلزپارٹی کی قیادت نے ہم سے یہ طے کیا تھامگر اپنی ہی بات پر عمل نہ کرکے آپ نے شہری سندھ کے مینڈیٹ پر شب خون ماراہے۔
وسیم اکتر نے کہا کہ بلاول بھٹو یا پیپلزپارٹی والے سمجھتے ہیں کہ اس طرح آپ نے کراچی حیدرآباد کو فتح کر لیاتو سن لوآپ غلطی پر ہو کراچی حیدرآباد اور شہری سندھ نے آپ کو کبھی ووٹ نہیں دیئے، زرداری صاحب کے الفاظ تھے کہ میں بلاول کو کسی جھگڑے میں ڈال کر نہیں جانا چاہتا مگر آپ نے پھر اپنے عمل سے اپنے قول کی نفی کردی۔ انکا کہنا تھا کہ اتنی دھاندلی کے باوجود بھی پیپلزپارٹی کو ڈھائی لاکھ ووٹ پڑا ہے جماعت اسلامی کو 3 لاکھ اور پی ٹی آئی کو ڈیڑھ لاکھ ووٹ پڑا، اتنے جھرلو اور دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد بھی ووٹر ٹرن آؤٹ اتنا کم رہا ہے ایسے کنٹرولڈ ایریاز جو دور دراز کے ہیں وہاں کھل کر ٹھپے لگائے گئے جن کو کوئی دیکھنے والا نہیں تھا۔
وسیم اختر نے کہا کہ ہم پھر سے کورٹ جارہے ہیں ہم نے دھاندلی زدہ الیکشن کے شواہد جمع کر لئے ہیں، الیکشن کمیشن مکمل ناکام ہوا ہے پیپلزپارٹی کا اصل چہرہ پاکستان اور پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے جو تھوڑا بہت بجٹ لوکل گورنمنٹ کو ملنا تھا دھاندلی کرکے اس پر بھی پیپلزپارٹی قابض ہوگئی الیکشن کمیشن نے ہمارے ساری درخواستوں کو رد کیا اور اُسکا جانبدارانہ رویہ سب نے دیکھا، ہماری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ وہ سو موٹو ایکشن لیں کراچی حیدرآباد اور شہری سندھ کو نمائندگی کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے آخر میں ایک بار پھر کہا کہ ہم عوام کے شکر گزار ہیں ، عوام کی الیکشن سے کامیاب دستبرداری ہمارے موقف کی فتح ہے۔