کراچی جناح اسپتال کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا استعفیٰ معمہ بن گیا
ڈاکٹر سکندر حیات کی متعدد شکایات موصول ہوئیں، وہ اسپتال کے ملازمین کیلیے غیر اخلاقی الفاظ استعمال کرتے تھے، ترجمان
جناح اسپتال کراچی کے حکام کی جانب سے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سکندر حیات کے خلاف انکوائری کمیٹی تشکیل دیدے گئی،جس کے بعد ڈاکٹر سکندر حیات نے اپنے عہدے سے استعفٰی دیدیا جو ایک معمہ بن گیا ہے۔
نوٹیفیکیشن کے مطابق انکوائری کمیٹی کے چیئر مین شعبہ طب کے سربراہ پروفیسر سید مسرور احمد اور کو چیئرمین ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف نیورولوجی، جے پی ایم سی پروفیسر خالد شیر کو بنایا گیا ہے جبکہ ڈاکٹر جاید درس،ڈاکٹر یحییٰ خان تونیو اور اسپتال کے انچارج ایڈمن-1 علی حیدر کو کمیٹی کے ممبران کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔
کمیٹی کے اجلاس نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر سکندر حیات کا میڈیکل چیک آپ کروایا جائے گا،لیکن اس سے قبل ان کے اہل خانہ سے مشاورت بھی کی جائے گی۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ترجمان جہانگیر درانی نے ایکسپریس کو بتایا کہ اسپتال حکام کو ڈاکٹر سکندر حیات کی متعدد شکایات موصول ہوئی تھیں کہ وہ اکثر اسپتال کے ملازمین کیلیے غیر اخلاقی کلمات کا استعمال کرتے تھے اور کام میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے شعبہ حادثات کا نظام مسلسل متاثر کررہے تھے جس کی وجہ سے اسپتال کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر (ای ڈی) پروفیسر شاہد رسول کی جانب سے ڈاکٹر سکندر حیات کی ذہنی صحت کے متاثر ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔
جناح اسپتال کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سکندر حیات نے کہا کہ جوائنٹ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر سلیمان کو ایگزیکٹیو ڈاکٹر جے پی ایم سی پروفیسر شاہد رسول نے اسپتال کے تمام شعبہ جات کے ملازمین کی حاضری کا جائزہ لینے کی ہدایت کی،مگر ڈاکٹر سلیمان نے اسپتال کے بجائے صرف میرے زیر نگرانی جنرل اسٹور ،جنرل ورک شاپ، کچن سمیت دیگر شعبہ جات کے ملازمین کی حاضری کا جائزہ لیا اور غیر حاضر ملازمین کی حاضری لگادی،جبکہ یہ وہ افسران ہیں جو کچھ اپنی ڈیوٹی پر تاخیر سے آتے ہیں،میرے ملازمین کو نفیساتی دباؤ میں مبتلا کیا جارہا تھا،جبکہ میں روزانہ ڈیوٹی پر ٹائم پر آتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر دوپہر بارہ بجے سے قبل اسپتال میں قدم ہی نہیں رکھتے اور ان کی جی حضوری کرنے والے افسران بھی دس یا ساڑھے بجے اسپتال پہنچتے ہیں، ایسا عمل بار بار دوہرایا جارہا تھا،اس ہی لیے میں صبح کے اوقات میں ڈاکٹر سلیمان اور ڈاکٹر یحیٰی کے زیر نگرانی نرسز آٹنڈنٹ سیکشن اور سینیٹیشن سیکشن سمیت دیگر شعبہ جات کے ملازمین کی حاضری کی صورتحال دریافت کرنے پہنچ گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سیکشن میں ہر ایک ملازمین سے سو سو روپے لیئے جارہے تھے میں نے پوچھا کہ یہ پیسے کیوں لیے جارہے ہیں تو مجھے ڈاکٹر سلیمان کے اسسٹنٹ نے کہا کہ آل پاکستان سپورٹنگ ایسوسی ایشن ابھی یہ پیسے جمع کررہی ہے تاکہ بعد میں ملازمین کو ضرورت محسوس ہونے پر یہ رقم واپس دی جائے، یہ ملازمین ایک سے پانچ گریڈ کے ہیں اور ان کی تعداد آٹھ سو سے ایک ہزار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اندازہ لگا لیں کہ ماہانہ یہ رقم پانچ لاکھ سے کم نہیں بنتی اور اس شعبہ میں غیر حاضر افراد کی حاضری لگائی جارہی تھی ،میں نے رجسٹر لے کر غیر حاضر ملازمین کو غیر حاضری ظاہر کیا تاکہ ان ملازمین سے پیسے لے کر ان کی حاضری نہ لگا دی جائے اور ڈاکٹر سلیمان کی اسسٹنٹ کو ہدایت کی کہ اس رقم کا آڈٹ کرواکر حکام کے علم میں لایا جائے،جس کے بعد جناح اسپتال کے ای ڈی ڈاکٹر شاہد رسول نے میرے خلاف انکوائری کمیٹی تشکیل دیدی۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سکندر حیات نے کہا کہ میرے خلاف بنائی جانے والی کمیٹی میں ان پروفیسرز کو شامل کیا گیا ہے جو خود تاخیر سے آتے ہیں،اسپتال کے ای ڈی نے مجھے اپنے پاس بلا کر معاملہ دریافت کرنے کے بجائے مجھے استعفیٰ دینے کے لیئے مجبور کیا،مجھے زبرستی ذہنی طور پر متاثرہ قرار دے کر نکالنے کی کوشش کی گئی اور مجبوراً میں نے استعفیٰ دے دیا۔