طبقاتی تفریق بواسطہ انگریزی
اردو کا معاملہ کچھ اس قسم کا ہے کہ ابھی جب پاکستان نیا نیا تھا تو اس حساب سے جذباتی وفور بہت تھا۔
بھائی ہم نے تو انگریزی زبان کی جان کو پہلے ہی صبر کر لیا تھا۔ سوچا کہ مولانا حالیؔ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ
چلو تم ادھر کی جدھر کو ہوا ہو
فی زمانہ تو کیا بڑے کیا چھوٹے ایرا غیرا نتھو خیرا سب ہی انگریزی کے رخ ہوا میں اڑے چلے جا رہے ہیں۔ بیشک انگریزی کی اے بی سی ڈی بھی نہ پڑھی ہو مگر بیٹے بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ انگریزی میں بھیجیں گے۔ ادھر پنچوں نے بھی یہی طے کیا ہے کہ اب قوم کی راہ نجات انگریزی میں ہے۔ آخر کو تو ہمیں گلوبل ولیج ہی میں شاد آباد ہونا ہے اور گلوبل ولیج کو جانے والا ہر رستہ انگریزی سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔ سو ہم نے سوچا کہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کیوں بناتے ہو۔ تو سوچا کہ چلو مان لو۔ جو پنچوں کی رائے وہ ہماری رائے۔
سو ہم تو ادھر مطمئن تھے۔ مگر ادھر غازی صلاح الدین نے جھرجھری لی اور بولے کہ انگریزی پاکستان کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ تعلیم کا مطلب تو یہ ہے کہ اور یہی ہونا چاہیے کہ تعلیم سے بے بہرہ مخلوق تعلیم حاصل کر کے تعلیم یافتہ مخلوق کے دوش بدوش کھڑی نظر آئے۔ ان کے ساتھ مل کر ملکی ترقی میں حصہ لیتی نظر آئے۔ مگر یہاں انگریزی کی تعلیم نے یہ صورت پیدا کر دی ہے کہ قوم دو طبقوں میں بٹتی نظر آ رہی ہے۔ جس نے انگریزی کے چار حرف پڑھ لیے وہ زمین پہ قدم نہیں رکھتا اور کالے آدمی سے بات نہیں کرتا۔ یہ اونچا اڑتا ہے اور طبقہ اعلیٰ میں اپنے آپ کو شامل سمجھتا ہے۔ یہ ہے انگلش میڈیم کا فیض باقی سب اردو میڈیم والے شمار کیے جائیں گے۔ اس زبان میں کتنا بھی تیر مار لو۔ رہو گے موچی کے موچی ہی۔
خیر ہم نے سوچا کہ غازی نے کالم ہی تو لکھا ہے۔ توپ تو نہیں چلائی۔ بات آج نہیں تو کل آئی گئی ہو جائے گی۔ پانی کو تو بہر حال انگریزی ہی کے نشیب میں مرنا ہے۔ مگر نہیں صاحب نہیں۔ اس پہ تو بحث چل نکلی اور لمبی کھنچی۔ غازی صلاح الدین نے بتایا ہے کہ برٹش کونسل نے زبانوں کے مشاقوں کو اور تعلیم کے ماہروں کو قریب و دور سے بلایا اور ایک مباحثہ کا آغاز کر ڈالا۔ کراچی میں' اسلام آباد میں' لاہور میں۔ ایک کے بعد دوسرا' دوسرے کے بعد تیسرا مباحثہ ہوا۔ پاکستان میں انگریزی کے اثر و رسوخ پر اور انگریزی کی تعلیم کے مسئلہ پر خوب بحثا بحثی ہوئی۔ اور اس سے پتہ چلا کہ پاکستان کے سلسلہ میں انگریزی تعلیم کا مسئلہ اتنا سیدھا سادھا نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے۔ اور اتنا طے شدہ بھی نہیں ہے کہ ارباب حکومت نے کہا اور سب طرف سے آمنا و صدقنا کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ سو ہوا یوں کہ یہاں بحث کا باب کھلا تو پھر چل سو چل۔ جیسے ارباب فکر بھرے بیٹھے تھے ع
اک ذرا چھیڑئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے
اس سوال پر گرما گرم بحث ہوئی کہ کیا واقعی انگریزی زبان ہمارے بیچ معاشرتی تفریق کا باعث بن رہی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بحث بھی تو ہونی چاہیے کہ انگریزی زبان نے ہمارے معاشرے میں کس حد تک روشن خیالی کو فروغ دیا ہے۔ زمینداروں جاگیرداروں کی آل اولاد کو انگریزی تعلیم کی ساری سہولتیں حاصل رہی ہیں۔ ان سہولتوں سے انھوں نے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ اکسفورڈ اور کیمبرج تک گئے اور ڈگریاں لے کر واپس آئے۔ اور مضمون میرؔ کی زبان میں یہ برآمد ہوا کہ ؎
مکہ گیا' مدینہ گیا' کربلا گیا
جیسے گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آ گیا
مطلب یہ کہ انگریزی میں گٹ پٹ کرنا تو خوب آگیا۔ مگر ذہنی اعتبار سے زمیں جُنبد نہ جُنبد گُل محمد۔ ان کے مقابلہ میں ایک وہ تھے جنہوں نے غریبانہ انداز میں تعلیم کے مراحل طے کیے اور پھر واقعی انھوں نے کبھی اپنے ملک ہی میں رہ کر اور کبھی موقعہ ملنے پر بیرون ملک تعلیم مکمل کرنے کے بعد بڑے ذہین ہونے کے ثبوت فراہم کیے۔
پھر اس مسئلہ کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ انگریزی میں خوب مہارت پیدا کر لی۔ شیکسپیر سے بھی شناسائی ہو گئی۔ انگریزی کے واسطے سے یورپ کے باقی ادب کے بارے میں بھی خیر سے معلومات بگھارنے کے اہل ہو گئے۔ مگر اپنی ا ب ت بھول گئے۔ اقبالؔ نے کیا کہا' اس کی خبر نہیں۔ فیضؔ سے تعارف جتنا مہدی حسن نے کرا دیا اس پر واہ واہ کر لی۔ آگے اللہ اللہ خیر سلا۔ مطلب یہ کہ ؎
سب کی ہے تم کو خبر اپنی خبر کچھ بھی نہیں
اس پر ہمیں حلقہ ارباب ذوق میں ہونے والی ایک گفتگو یاد آ رہی ہے۔ میرا جی کی برسی کی تقریب تھی۔ اعجاز حسین بٹالوی صدارت کر رہے تھے۔ جب میرا جی کے بارے میں سب اپنی اپنی کہہ چکے تو صدر نے زبان کھولی اور یوں کہا کہ میرا جی کا شغف فرانسیسی شاعری سے بھی بہت تھا۔ اس سے بڑھ کر ہندو دیو مالا سے شغف تھا۔ یہ شغف پاکستان والوں کو وارا نہیں کھاتا۔ اس لیے میرا جی کی شاعری پاکستان میں نہیں چلے گی۔ پھر بولے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارے علامہ اقبالؔ کے ساتھ بھی کہیں میرا جی والا مضمون نہ دہرایا جائے۔ حضرات آدھا اقبالؔ تو فارسی میں ہے اور ادھر ہمارا معاملہ اب یہ ہے کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔ فارسی سے ہمارا ناتا اب ٹوٹ چکا ہے۔ سو آدھا اقبالؔ اب ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ آدھا اقبالؔ اردو میں ہے مگر اب اردو سے بھی ہماری بیگانگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اب ہم نے انگریزی ہی پر تکیہ کرنے کی ٹھانی ہے۔ تو کہیں یہ نہ ہو کہ یہ آدھا اقبالؔ بھی ہمارے لیے اجنبی بن جائے۔ پھر تو یوں ہوتا نظر آ رہا ہے کہ اقبالؔ کو ہم کھو بیٹھیں گے۔ بس پھر یوم اقبالؔ ہی ہمارے پاس رہ جائے گا۔
اور اردو کا معاملہ کچھ اس قسم کا ہے کہ ابھی جب پاکستان نیا نیا تھا تو اس حساب سے جذباتی وفور بہت تھا۔ تحریک پاکستان کے سب قائدین ابھی زندہ و سلامت تھے۔ اس فضا میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیدیا گیا۔ مگر تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ گیا ہے۔ اور پاکستان کے ارباب بست و کشاد چکنم میں ہیں کہ ع
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
تو اب پتہ نہیں چل رہا کہ اب ہماری کوئی قومی زبان ہے بھی یا نہیں۔ غازی صلاح الدین کو خوب سوجھی۔ کہتے ہیں کہ اردو قومی زبان ہے یا نہیں بہر حال وہ پاکستان کی لنگوا فرنیکا تو ہے۔
ارے خوب یاد دلایا۔ تقسیم سے پہلے ہم یہ کہتے تھے کہ اردو ہندوستان کی لنگوا فرنیکا ہے۔ مگر ہندوستان کی ہندو اکثریت اس باب میں ہندی کو بڑھاوا دے رہی تھی۔ اس تنازعہ میں گاندھی جی نے سمجھوتے کی ایک صورت نکالی اور اردو ہندی ہندوستانی کا فارمولا پیش کیا۔ مگر سیاسی سطح پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پا رہا تھا تو لسانی سمجھوتہ کیسے ہو جاتا۔ اور جب تقسیم ہو گئی تو اردو ہندی ہندوستانی کے فارمولے کے ساتھ وہی ہوا کہ:
آں دفتر را گائو خُورد۔ گائو را قصاب بُرد۔
اب بس رضا علی عابدی اس فراموش شدہ مقدمے کے گواہ رہ گئے ہیں۔ انھوں نے بس' ریل گاڑی، بیل گاڑی، ہوائی جہاز ہر سواری میں سوار ہو کر اور بی بی سی کا نمایندہ بن کر برصغیر کا کونہ کونہ چھان مارا ہے۔ اور پھر دریائے سندھ کے کنارے کنارے بھی انھوں نے سفر کر کے دیکھ لیا۔ غازی صلاح الدین کو اس باب میں ان کی کمک تو بہر حال حاصل رہے گی۔
اس سے آگے کا معاملہ یہ ہے کہ سیاست کا بازار گرم ہے۔ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔