پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
اب وقت ہے کہ جماعتِ اسلامی کوکراچی میں کام کرنے کا موقع دیا جائے
میر ؔ صاحب نے تو یہ مصرع کسی اور حوالے سے کہا تھا مگر کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں جماعتِ اسلامی کی عوامی اور مقامی سطح پر مقبولیت کو دیکھ کر اس کے کچھ بالکل مختلف رُوپ دھیان میں آرہے ہیں۔
وطنِ عزیز کی سیاست میں عوام کی قدرومنزلت کے دن گنے چُنے ہیں کہ صوبائی یا قومی انتخابات کے ہنگام اور ووٹ کاسٹ کرنے کے دن تک وہ لوگ بھی اُن سے ہنس کر ملتے اور محبت سے کلام کرتے ہیں جن کی باز دید کے لیے انھیں اگلے الیکشنز تک کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ درمیانی عرصے میں یہ لوگ انھیں گائے بھینسوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور یوں یہ رشتہ ایک طرح کی اداکاری سی بن کر رہ جاتا تھا۔
جہاں تک اس سارے معاملے سے جماعتِ اسلامی کا تعلق ہے تو اس کی تاریخ بھی قومی زندگی کی کم و بیش چھ دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے کہ ہماری نسل کا اس سے اولین تعارف اس کی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے حوالے سے ہوا تھا جو اپنے ابتدائی دنوں میں اپنے مذہبی مزاج، اخلاقی روّیوں، تنظیم اور سادہ روی کے حوالے سے جانی جاتی تھی اور اس کی سیاست بھی تعلیمی اداروں کے اندرونی ماحول تک محدود تھی۔
ایوب خان کے خلاف تحریک اور پیپلز پارٹی کے قیام سے پیدا ہونے والا دوسرا گروہ کمیونزم سے اپنی رغبت کی وجہ سے سُرخا گروپ کہلاتاتھا جب کہ ہمارے جیسے بہت سے کسی درمیانے اور مشترک راستے کی تلاش میں تھے جس کی پاداش میں انھیں دونوں طرف سے تنقید سہنا پڑتی تھی یعنی سُرخے انھیں دائیں بازو اور مذہب پسند فکر کا حصہ سمجھتے تھے جب کہ اسلامی جمعیت طلبہ والوں کے نزدیک یہ گروہ سُرخا نہیں تو نیم سُرخا ضرور تھا لیکن اچھی بات یہ تھی کہ دونوں طرف سے ہتھیاروں کے بجائے زباندانی سے کام لیا جاتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کے بہت سے طالب علم لیڈر آگے چل کر قومی زندگی میں اچھے مقررین کی صف میں شامل کیے گئے مگر یہ صورتِ حال ملک میں برسرِعمل سیاسی جماعتوں کے تعلیمی اداروں میں دخول کے بعد بدل گئی اور اس کے ساتھ ہی طلبہ سیاست بھی لڑائی جھگڑے اور غنڈہ گردی کا شکار ہونا شروع ہوگئی اور پھر یوں ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ سُرخے اپنی انقلابی روش کے ساتھ کمٹڈ رہے اور نہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان اپنی اُس پہچان سے منسلک رہے جو اخلاقی اصولوںپر استوار تھی لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوگئی تعلیمی اداروں سے نکلنے کے بعد دونوں دھڑوں کے تربیت یافتہ لوگ ملک کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں اپنی موجودگی کا اظہار کرنے لگے۔
دونوں اطراف کے موقعہ پرست عناصر سے قطع نظر اِن کے کچھ ایسے نمایندے بھی سامنے آئے جو اپنی عمدہ کارکردگی اور مؤثر شخصیات کی بنا پر نہ صرف عزت کی نظر سے دیکھے گئے بلکہ ان کا مثبت اثر اُن کے معاشروں پر بھی نظر آیا جس کی ایک مثال جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے نعمت اللہ خان ہیں جنھوں نے کراچی جیسے وسیع شہر، لسانی اور نسبی اختلافات سے بھرپور فضا اور بے شمار شہری مسائل کو ایسی مہارت اور نیک نام کامیابی کے ساتھ ترقی کے رستے پر ڈالا کہ جس کا ذکر آج بھی بطور مثال کیا جاتا ہے۔
میرے خیال میں اُن کی اس کامیابی کی بنیادی وجہ اُن کی شخصی مضبوطی کے ساتھ ساتھ وہ تنظیم ا ور عمل پسندی بھی تھی جو اس جماعت کا شیوہ رہا ہے مجھ سمیت بہت سے دوستوں کو جماعت کی کئی اور سرگرمیوں مثلاً قومی سیاست میں اُس کی کارکردگی پر اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ اس جماعت جیسی تنظیمی صلاحیت اپنی مثال آپ ہے جس کی ایک مثال ادارہ الخدمت بھی ہے کہ جس نے حالیہ برسوں میں خدمتِ خلق اور انتظامی صلاحیت کی بنیاد پر بین الاقوامی سطح پر تحسین حاصل کی ہے لوگ ان کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں ووٹ بے شک نہ دیں مگر جہاںعوام اور عوامی خدمات کا معاملہ آتا ہے دھیان بار بار مڑ کر انھی دوستوںکی طرف جاتا ہے کہ جن کا مقصد عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا اور اس کے مسائل کو حل کرنے میں اس کا ہاتھ بٹانا ہے ۔
ایک اجمالی جائزے کے مطابق اس وقت کراچی شہر اپنے باسیوں کے اعتبار سے چار حصوں میں تقسیم ہے 40%لوگ وہ ہیں جو باقاعدہ غریب کہے جاسکتے ہیں 20%لوگ ایسے ہیںجن کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے لیکن اُن کا جھکاؤ نچلے اور پسماندہ طبقوں کی طرف ہے جب کہ 20%لوگ بالائی متوسط طبقے اور باقی کے 20%کا تعلق امیر اور صاحبانِ اقتدار لوگوں سے ہے۔
پاکستان بننے کے بعد پہلے دس برسوں میں کراچی کی بیشتر آبادی مقامی سندھیوں اور مہاجروں پر مشتمل تھی مگر پھر اس کے امکانات کی وجہ سے پٹھان اور پنجابی بھی یہاں بہت بڑی تعداد میں آباد ہوگئے اور یوں فی زمانہ یہ شہر قومیتوں کے اعتبار سے پورے پاکستان کی ایک تصویر ہے، بندرگاہ اور انڈسٹری کی وجہ سے یہاں کی کسی ترتیب کے بغیر قائم ہونے والی آبادیوںکو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی معاملات سے قطعِ نظر شہر کی حد تک اس کا انتظام قابل ، ذمے دار ، محنتی اور غیر جانبدار لوگوں کے سپرد کیا جاتا تاکہ وہ اس شہر کے مسائل کو سلیقے اور دانش مندی سے حل کرتے مگر ہُوا یہ کہ مختلف سیاسی نعروں اور مافیاز کے کنٹرول کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی گئی اوریہ منظر اس کلاسیکی شعر کی ایک تصویر بن کر رہ گیا کہ
حکمِ حاکم ہے کہ اس محکمۂ عدل کے بیچ
دست ِفریاد کو اُونچا نہ کرے فریادی
اگر قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے بلدیاتی نظام کے ذریعے عوام کو تحفظ اور اس کے نمایندوں کو وہ تربیت مل جاتی جس کے ساتھ وہ آگے چل کر اسمبلیوں میں جاتے اور وہاں بھی عوام دوست ماحول کو اس طرح سے تخلیق کرتے کہ آج وطنِ عزیز مسائلستان نہ بنا ہوتا۔
اب وقت ہے کہ جماعتِ اسلامی کوکراچی میں کام کرنے کا موقع دیا جائے اور اُن کی تنظیمی صلاحیت اور کارکردگی کو دیگر شہروں کے بلدیاتی نظاموں اور نمایندوں کے لیے ایک ایسی روشن مثال بنا دیا جائے کہ جس عام آدمی کے نام پر یہ ملک بنایا گیا تھا وہ بھی فخر اور اطمینان کے ساتھ اسے اپنا کہہ سکے۔