حرف حرف کہانی ایک مطالعہ
ان کی کہانیوں کی گہرائی میں اترنے کے بعد ایک نئی دنیا جو کشف و کرامات کی ہے وجود میں آتی ہے
امین جالندھری کا نام ادبی دنیا میں تعارف کا محتاج نہیں ہے، ان کی کہانیاں پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ بخوبی ہوا کہ مصنف ایک پختہ قلم کار ہیں، ان کا تخلیقی کام مستند ہے، وہ عرصہ دراز سے افسانوں کی کاشت کر رہے ہیں اس محنت اور لگن کے نتیجے میں ان کے دو افسانوں کے مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔
اول ''حرف حرف روشنی'' اور دوم جو میرے زیر مطالعہ رہا ''حرف حرف کہانی'' الفاظ اور جملوں کے ذریعے بصیرت میں ڈھل کر قارئین تک پہنچا ہے۔ مصنف کے خیال و افکار، سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں میں اتنی قوت تھی کہ ان کے افسانوں کو آگاہی کی تپش اور تجربات کی آنچ نے حرارت پہنچائی ہے، یہ عام افسانے نہیں ہیں۔
ان کو سمجھنے کے لیے قاری کے لیے ذہانت و فطانت اور وسعت علم کا موجیں مارتا سمندر اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح قلم کار نے اپنے وجدان اور شعور کے سنگم سے کہانیاں تخلیق کی ہیں۔ ''حرف حرف کہانی'' کے زیادہ تر افسانوں میں معنویت اور کائنات کے وہ اسرار و رموز سمٹ آتے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں، یہ افسانے غور و فکر کی راہیں ہموار کرتے ہیں، یہ خالصتاً بیانیہ افسانے نہیں ہیں، بلکہ اس کی تہہ در تہہ کی پرتیں ہیں۔
ان کی کہانیوں کی گہرائی میں اترنے کے بعد ایک نئی دنیا جو کشف و کرامات کی ہے وجود میں آتی ہے، یہ معجزے یا تحیر زدہ واقعات ان صوفیا کرام سے منسوب ہیں، جن بزرگوں کی ساری عمر ریاضت و عبادت میں گزری، آج جو ہند و پاک میں اسلام کی روشنی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے اور قلوب کو ایمان کی تقویت بخش رہی ہے یہ انھی بزرگان دین کی مرہون منت ہے، صوفیا کرام کے علم اور درس و تدریس سے بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا۔
ان کے دربار میں بادشاہوں نے حاضری دی اور اللہ کے حکم سے بیماروں نے شفا پائی، اللہ کے طالبوں نے راستی کی تلاش اور عبدیت کے تقاضوں کے تحت تخت و تاج کو ٹھوکر ماری اور اپنے رب کی عبادت اور اس کے احکام کی تکمیل کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں، کچھ ایسا ہی سچا اور پکا رنگ مصنف کی تحریروں میں بھی گھل مل گیا ہے۔
ان کے افسانوں کی ایک خوبی حقیقت نگاری بھی ہے، تمام کہانیوں کا جنم مکالماتی فضا میں ہوتا ہے، منظر نگاری کی طوالت دور دور تک نظر نہیں آتی ہے، بلکہ مکالمہ نگاری کے ذریعے کہانی اپنے آغاز اور انجام تک پہنچتی ہے۔
جزئیات نگاری کا حسن اور اسلوب بیان کی سادگی نے مصنف کے افسانوں کو تازگی بخشی ہے اور مختلف موضوعات کی کہانیاں ایک دلکش انداز میں سامنے آئی ہیں، تمام کہانیاں معاشرتی جبر، ناانصافی اور صوفیانہ طرز بیان کی آئینہ دار ہیں۔ ہند و پاک کے ناقدین نے اپنے تبصرے اور وقیع آرا سے کتاب کو مرصع کر دیا ہے۔
ڈاکٹر معین الدین شاہین اجمیری نے امین جالندھری کی تخلیقات کے بارے میں لکھا ہے ''امین جالندھری دنیائے اردو ادب میں ایک ایسے صاحب قلم کی حیثیت رکھتے ہیں جو نہ صرف وقت کی نبض ٹٹولنے میں مہارت رکھتے ہیں بلکہ مداوا کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔
عہد حاضر میں برصغیر میں جو انشا پرداز فکر رسا کے گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہیں ان میں امین جالندھری بھی پایہ رکاب نظر آتے ہیں۔'' ڈاکٹر شاہد جمالی کے خیال کے مطابق امین جالندھری صاحب صوبہ سندھ میں ایک جانی مانی ادبی شخصیت ہیں ادبی ذوق تو گویا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے، نثر نگاری خاص طور پر افسانہ نگاری میں ان کو مکمل دسترس حاصل ہے۔''
میں نے ''حرف حرف کہانی'' کے کئی افسانے ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالے ۔مسافر، محشر خیال، مستی، خمار، چک گ ب45، رہائی، ایک دن کی بات وغیرہ افسانہ ''خمار'' میں مصنف نے معجزات اور کرامات کی دنیا آباد ہوتی دکھائی ہے، گوکہ اب ایسے واقعات شاذ و نادر ہی جنم لیتے ہیں۔
افسانہ ''مسافر'' میں تخلیق کار نے دنیا کی ناپائیداری کو موضوع بنایا ہے، قطار در قطار لوگ فانی دنیا سے کوچ کرکے ابدی دنیا کی طرف کوچ کر رہے ہیں اور یہی دنیا کی حقیقت ہے کہ سب کو ایک دن جانا ہے، یہ مال و متاع، گھر بار ایک حدیث مبارکہ کے مطابق ہمارا نہیں اسے دوسرے لوگ برتیں گے، ''اچھا اور نیک بندہ'' وہی ہے جو زندگی کی حقیقت کو جان لیتا ہے۔
فضل دین اس افسانے کا کلیدی کردار ہے اور آخرکار اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں حال و قال ختم ہو جاتا ہے، افسانہ ''رہائی'' کی بنت اور کردار نگاری نے افسانے کو زندہ و تابندہ بنادیا ہے۔یہ کہانی ہمارے اس معاشرے کی کہانی ہے جہاں غریب کا استحصال ہوتا ہے اس کی عزت و آبرو کا سودا کیا جاتا ہے، اگر غریب ہاری اور خدمت گار احتجاج کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اور اس کے خاندان کو پایہ زنجیر کرکے قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔
افسانے کے کردار سائیں اور ملازم عرض محمد ہیں، عرض ، سائیں کی خدمت اور اسے فائدہ پہنچانے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے آزماتا ہے لیکن بدلے میں ذہنی و جسمانی اذیت اس کا مقدر بنتی ہے۔ افسانے کے اختتام پر اندرون سندھ میں بسنے والے وڈیروں اور جاگیرداروں کی ذہنی پسماندگی کی عکاسی بہت موثر انداز میں کی گئی ہے، انجام بہت بھیانک اور انسانیت سوز ہے، سائیں! آپ کا خادم جو ٹھہرا۔
عرض ، ہمارے خاندان میں آج تک کسی کو پولیس میں بھرتی نہیں کروایا ہے لیکن بات ہمارے بیٹے کی ہے اور تم ہمارے پرانے کمدار ہو، تمہارے لیے لاکھوں روپے خرچ کریں گے اور ہاں تمہاری حسن زادی کا کیا حال ہے، سائیں! آپ کی باندی، تو پھر عرض ! کل تم یہ کرنا کہ حسن زادی کو حویلی بھجوا دینا۔ سائیں سائیں۔۔۔۔سائیں!
اس طرح کے حالات گاؤں گوٹھ میں ہر روز پیش آتے ہیں، علم و شعور نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں کی آبادی اپنے حقوق سے اس لیے محروم رہتی ہے کہ انھیں تعلیم سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے۔ مصنف کے تمام افسانے کفایت لفظی کے مظہر ہیں، ان کا انداز بیان اچھوتا اور دلکش ہے جو قاری کو کہانی کے انجام تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور یہی کامیاب افسانوں کی خوبی ہوتی ہے۔