عوام کا دباؤ
پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل نہ کرنے کی ایک بنیادی وجہ عوام کادباؤ ہے
اس سال کا پہلا سیاسی بحران پنجاب میں شروع ہوا۔ پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمن نے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے صوبائی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کو کہا۔ وزیر اعلیٰ نے گورنر کی ہدایت کو نظرانداز کیا۔ گورنر نے وزیر اعلیٰ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کی اس یقین دہانی پرکہ وہ فوری طور پر اسمبلی توڑنے کا مشورہ گورنر ہاؤس نہیں بھیجیں گے ،گورنر کے حکم کو دس دن کے لیے معطل کیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے گزشتہ ہفتہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا اور گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھجوادی۔
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر سبطین خان نے پیشکش کی کہ اگر وفاقی حکومت تحریک انصاف کی قیادت سے عام انتخابات کی تاریخ پر بات کرے تو پنجاب کی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس واپس لی جاسکتی ہے مگر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا ء اﷲ کا بیانیہ ہے کہ اب پہلے پنجاب اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ گورنر نے وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر دستخط نہیں کیے اور آئین کے تحت پنجاب اسمبلی تحلیل ہوگئی۔
گزشتہ سال جب پرویز الٰہی اپنے عزیز چوہدری شجاعت حسین کے حلقہ گروپ سے باہر نکل کر عمران خان کے اسیر ہوئے تو پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری کے بارے میں خبریں گشت کرنے لگیں کہ وہ ایک پراسرار مشن پر لاہور گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کے مشیر قمر الزمان کائرہ نے تو پیشگوئی کردی کہ پرویز الٰہی 20 جنوری تک پنجاب کے سب سے بڑے عہدہ پر براجمان رہیں گے ، پھر رانا ثناء اﷲ کی قیادت میں وفاقی وزراء اور مشیروں نے لاہور میں ڈیرے ڈال لیے۔ عطاء اﷲ تارڑ نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا تو وہ سیاست چھوڑدیں گے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے بھی اس دوران متضاد بیانات سے صورتحال کو کامیابی سے کنفیوژ کیا۔
پرویز الٰہی نے تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیان دینے پر تحریک انصاف سے تعلق رکھے والی خاتون مشیر کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری کیا ، مگر عمران خان نے پرویز الٰہی کے بیان کا نوٹس نہیں لیا۔ اس دوران پنجاب میں حزب اختلاف کے متعدد اراکین کے نام نئے وزیر اعلیٰ کے طور پر میڈیا میں سنائی دیے گئے۔
پھر آصف زرداری نے واضح کیا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر پہلا حق حمزہ شہباز کا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پرویز الٰہی آخری وقت تک اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں تھے۔ انھوں نے ایک مسلم لیگی رہنما سے رابطہ کیا تھا اور حزب اختلاف نے پرویز الٰہی کے کہنے پر تحریک عدم اعتماد واپس لی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کے آغاز پر پرویز الٰہی کے پاس اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لیے مطلوبہ اراکین اسمبلی موجود نہیں تھے۔
عمران خان نے گزشتہ ہفتہ لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پہلے ہمیں یقین نہیں تھا کہ ہم اس تحریک میں کامیابی کے لیے مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل کرسکیں گے مگر پھر ہم نے ٹارگٹ پورا کرہی لیا۔ یوں مسلم لیگ اور اتحادیوں کی جوڑ توڑ کی پالیسی بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اب خیبر پختون خوا کی اسمبلی بھی تحلیل ہوئی۔
عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا تو قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اراکین کے استعفے منظور کر لیے۔ حکمراں اتحاد ان نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کررہا ہے۔ عمران خان کی حکومت اپنے پونے چار سال مکمل ہونے پر غیر مقبولیت کی انتہا پر پہنچ گئی تھی۔ ملک کا اقتصادی بحران بڑھ رہا تھا۔ روپے کی قیمت گرنے سے مہنگائی کا طوفان شروع ہوا۔ تمام ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں۔
ملک میں گیس کے بحران کا آغاز ہوچلا تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے جلسوں میں بار بار عوام سے اپیل کرتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ پاکستان بین الاقوامی طور پر تنہائی کا شکار ہوچلا تھا۔ چین سے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔
گیم چینجر بننے والے منصوبہ سی پیک کی تعمیر رک گئی تھی۔ عمران خان کی حکومت افغان طالبان کی پشت پناہی کررہی تھی جس کی بناء پر ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں ختم نہیں ہورہی تھیں جس سے بینکنگ کی صنعت محدود ہوگئی تھی اور غیر رسمی معیشت سکڑ رہی تھی۔ پھر اس پورے ماحول میں عمران حکومت کے اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور عمران خان کی جماعت تحریک عدم اعتماد کو ناکام نہ بناسکی۔ مگر عمران خان نے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر کے ایک سائفر کی بنیاد پر امریکی سازش کا بیانیہ بنایا اور عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا۔
آئی ایم ایف نے عمران خان کی حکومت کی پچھلے معاہدہ پر عملدرآمد نہ کرنے کی سزا موجودہ حکومت کو دی اور سخت شرائط پر قرضہ کی پہلی قسط جاری کی۔
ان شرائط کی بناء پر پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی کی قیمتوں سے منسلک ہوگئیں ، یوں پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں کے بڑھنے سے اور ایل این جی گیس کے قطر سے معاہدہ نہ ہونے سے مہنگائی کا زبردست طوفان آیا۔ یوکرائن اور روس کی جنگ کے اثرات بھی ملک کی معیشت پر پڑے۔ پھر تاریخ کے بدترین سیلاب نے رہی سہی کسر دورکردی۔ عام آدمی کے لیے آٹا کی خریداری مشکل ہوگئی۔
وزیر اعظم اور وزراء غیر ملکی دوروں میں مصروف رہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں ریاستی اخراجات کی کمی کے لیے بڑے اقدامات نہیں کیے گئے۔ حکومت ڈالر کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام رہی۔ عام آدمی کو یہ احساس ہوچلا کہ حکمرانوں کو عام آدمی کی پریشانوں کا احساس نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کسی بھی طرح عوامیت کے تصور کو عملی شکل نہ دے سکی۔
عمران خان نے اقتدار سے ہٹتے ہی عوام سے رابطہ کی زبردست مہم شروع کی۔ عمران خان اور ان کے رفقاء کار شہروں شہروں پھرتے رہے اور اپنے ایسے بیانیہ کی تبلیغ کرتے رہے جس میں بے پناہ خامیاں ہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف ملک واپس نہیں آئے۔ حمزہ شہباز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا کر اس الزام کو درست ثابت کردیا گیا کہ شریف خاندان جمہوری نظام میں وراثت کے نظریہ کا قائل ہیں۔
دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ بن گئے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قیادت کرنے والا کوئی قدآور رہنما دستیاب نہیں رہا۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کو ماڈل صوبہ بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا، یوں عمران خان کے بیانیہ کا جواب دینے کے لیے شرجیل میمن جیسے رہنما رہ گئے۔ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پر ایک کمزور بیانیہ کو اس طرح پیش کیا کہ رائے عامہ تبدیل ہوئی۔
پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اراکین اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل نہ کرنے کی ایک بنیادی وجہ عوام کادباؤ ہے ، اگر مسلم لیگ اب بھی سیاسی میدان میں مقابلہ کرنا چاہتی ہے تو میاں نواز شریف واپس آجائیں، شہباز شریف وفاقی کابینہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزراء کو فارغ کریں اور یہ رہنما فورا اپنے حلقوں میں مہم منظم کریں ، جب کہ وفاقی حکومت غیر پیداواری اخراجات میں بڑے پیمانہ پر کمی کرے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے انقلابی اقدامات کا اعلان کرے تاکہ رائے عامہ ہموار ہو۔ اسٹیبلشمنٹ سے مدد مانگنے اور جوڑ توڑ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔