مشن مجنوں
بھارت کی نظریں اب بھی گلگت بلتستان کو ہتھیانے پر مرکوز ہیں اور مودی کسی وقت بھی یہ مہم جوئی کر سکتا ہے
بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے حال ہی میں ایک تقریب میں کہا ہے کہ'' اگر برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی تو بھارت آج ایسی بلندی پر ہوتا جس کا گمان نہیں کیا جاسکتا۔''
جے شنکر ہی کیا بھارت کے دیگر رہنما بھی اکثر تقسیم ہند اور قیام پاکستان کو نشانہ بناتے رہتے ہیں، بعض تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ'' بس اب بہت ہو چکا، اب سرحد کی لکیر کو مٹا دینا چاہیے اس لیے کہ یہ اب ہم سے مزید برداشت نہیں ہوتی۔''
اس کا مطلب ہم پاکستانی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ آخر کیا چاہتے ہیں؟ وہ دراصل پاکستان کے وجود کو سرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خواہش تو نہرو اور گاندھی کی بھی تھی اور اب مودی کی بھی ہے مگر نہ نہرو اور گاندھی کامیاب ہو سکے اور نہ مودی ہی اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب ہو سکے گا۔
جے شنکر نے یہ بھی کہا ہے کہ ''ہم نے مانسہرہ اور اڑی پر حملہ کرکے پاکستان کو بتا دیا ہے کہ دہشت گردی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، ہم دشمن کا اس کے گھر تک پیچھا کرتے ہیں۔''
شنکر جی نے یہ تو کہہ دیا مگر اس واقعے کے دوسرے دن پھر پاکستان نے ایسا کرارا جواب دیا کہ ان کی ایئرفورس کو سانپ سونگھ گیا تھا، اس دن ان کے پاکستان کے ہاتھوں دو جنگی جہاز تباہ ہوئے اور ایک اپنا جہاز انھوں نے خود ہی گھبراہٹ میں تباہ کر ڈالا تھا پھر ان کا ایک مایہ ناز پائلٹ ابھی نندن ہماری گرفت میں آچکا تھا۔ پاکستان کوئی موم کا بنا ہوا نہیں ہے کہ اسے ان جیسا ملک پگھلا سکے۔
پاکستان اب تک بھارت سے 1948 سے لے کر 1999 تک چار جنگیں لڑ چکا ہے مگر بھارت ایک بڑی طاقت ہونے کے باوجود کبھی اپنی مرضی کی جیت حاصل نہیں کرسکا ہے۔ وہ ہمارے مشرقی بازو کو ضرور توڑ چکا ہے مگر اس کے ٹوٹنے میں خود ہماری اپنی غلطیوں کی لمبی کہانی ہے۔ وہ ہمارے ایٹمی طاقت بننے کے سخت خلاف تھا وہ خود تو ایٹمی طاقت بن چکا تھا مگر ہمیں ایٹمی طاقت ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
جب پاکستان نے یہ کام اپنی بقا کو بھارت سے محفوظ بنانے کے لیے شروع کیا تو وہ اسے تباہ کرنے کے در پے تھا، اس نے اس سلسلے میں اسرائیل سے گٹھ جوڑ کیا مگر ہماری فوج سرحدوں کی بھرپور حفاظت کر رہی ہے، وہ اسی طرح ہمیشہ ہی ناکام و نامراد رہیں گے۔ پاکستان بالآخر یہ کارہائے نمایاں انجام دے کر رہا اور دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت اور اسلامی ممالک میں پہلی جوہری طاقت بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
حال ہی میں بی بی سی کی ویب سائٹ پر ایک مضمون شایع ہوا ہے جس میں ''مشن مجنوں'' کے نام سے ایک بھارتی فلم کا ذکر کیا گیا ہے، جس میں بھارت کے ایک خفیہ مشن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس مہم کو انجام دینے والے سدھارتھ ملہوترا ہیں۔ اس سے پہلے کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لیے ''کشمیر فائلز'' کے نام سے وویک اگنی ہوتری ایک پروپیگنڈا فلم بنا چکے ہیں۔
''کشمیر فائلز'' فلم خاص بی جے پی سرکار کی سرپرستی میں بنائی گئی تھی۔ یہ فلم پورے بھارت میں دکھائی گئی مگر اسے وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو بی جے پی چاہتی تھی کیونکہ بھارتی عوام بھی پاگل نہیں ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ بی جے پی سرکار کشمیریوں کی آزادی کو کچلنے کے لیے جہاں کشمیریوں کا خون بہانے اور حبس بے جا میں رکھنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے وہاں وہ ایسی جھوٹی اور حقیقت سے ہٹ کر فلمیں بنا کر عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتی۔
اس فلم کو بی جے پی سرکار نے بھارت کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی بھیجا تاکہ وہاں بھی بھارت کے حق میں اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کا رنگ دیا جاسکے۔ اسے اسرائیل میں بھی دکھایا گیا وہاں اسے کوئی پذیرائی نہ مل سکی۔ وہاں کے ایک مشہور فلم ڈائریکٹر نے واضح طور پر اسے ایک پروپیگنڈا فلم قرار دیا جس پر بھارت سرکار بہت سیخ پا ہوئی اور اسرائیل کی سرکار سے اس ڈائریکٹر کے خلاف شکایت بھی کی مگر اسرائیل حکومت کچھ نہ کرسکی کیونکہ وہاں بھارت کی طرح آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب بھارت سرکار کی آشیرباد سے ہی یہ نئی فلم ''مشن مجنوں'' بنائی گئی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ہی نہیں بلکہ اس کے ہیرو خود سدھارتھ ملہوترا ہیں۔ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرنے کے مشن پر کسی طرح پاکستان پہنچ جاتے ہیں اور پھر مختلف روپ بدل کر ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں مگر کر کچھ نہیں پاتے، بس ناکام و نامراد واپس لوٹ جاتے ہیں۔
اس تصوراتی اور پروپیگنڈا فلم پر خود بھارتی ناظرین نے سخت تنقید کی ہے۔ اسے انھوں نے کھلی جارحیت کہا ہے جو حقیقت بھی ہے۔ اس پر کچھ پاکستانیوں نے بھی تبصرے کیے ہیں اور اسے ایک تصوراتی فلم قرار دیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بھارت پاکستانی ایٹمی اثاثوں کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا حالانکہ وہ انھیں اس وقت سے تباہ کرنے کی کوشش میں تھا جب یہ بالکل ابتدائی شکل میں تھے۔
اس طرح ''مشن مجنوں'' فلم کو بھارت کی ایک ناکام خواہش ہی کا نام دیا جاسکتا ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ بھارت پاکستانی جوہری اثاثوں کو ابتدا میں یعنی جب وہ تکمیل کے مراحل میں تھے تب بھی اور اب ان کے مکمل ہونے اور ایٹمی دھماکے ہونے کے بعد بھی انھیں تباہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے اور اس کوشش میں اس نے بلاشبہ اسرائیل کی مدد بھی حاصل کی تھی اور اب بھی وہ اس کی مدد سے انھیں نقصان پہنچانے کے درپے ہے مگر وہ پہلے بھی اپنے مذموم ارادوں میں ناکام رہا ہے اور اب بھی رہے گا۔
پاکستان نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ انھیں ہم نے صرف اپنے دفاع کے لیے بنایا ہے اور یہ ہر ملک کا استحقاق ہے کہ وہ اپنی حفاظت کا بھرپور بندوبست کرے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے ایٹمی اثاثے شروع سے ہی محفوظ ہیں یہ نہ تو اندرونی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں اور نہ ہی بیرونی دہشت گرد انھیں کوئی آنچ پہنچا سکتے ہیں۔
پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے ایٹمی اثاثے خود ان کے اندرونی مہم جوؤں کی دسترس سے دور نہیں ہیں۔ بھارتی یورینیم اتنی غیر محفوظ ہے کہ وہ ممبئی اور دہلی کے بازاروں میں فروخت کے لیے پیش کی جاچکی ہے۔ اس کا انکشاف عالمی میڈیا نے بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ ایٹمی مراکز میں دھماکے ہو چکے ہیں جن میں تنصیبات کو نقصان پہنچنے کے علاوہ کئی کئی ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔
افسوس کہ بھارتی حکمرانوں کی توجہ اس جانب ذرا نہیں ہے بس وہ تو پاکستانی ایٹمی اثاثوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں مگر انھیں اپنے مذموم ارادوں میں کبھی بھی کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے یہ بھی کہا ہے کہ'' پاکستان کے بننے سے وہاں کے بہت سے اہم حصے جو بھارت میں شامل ہونے چاہیے تھے نہیں ہو سکے اس سے بھارت کے لیے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔''
یہ حقیقت ہے کہ بھارت کا پاکستان کی وجہ سے وسطی ایشیائی ممالک سے براہ راست رابطہ ممکن نہیں ہے۔ پھر کشمیر کے گلگت بلتستان کے علاقے پاکستان میں شامل ہونے سے بھی وہ بہت پریشان ہے، اگر یہ علاقہ ہی اس کے پاس ہوتا تو وہ باآسانی وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل کرسکتا تھا۔ اس وقت اس کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح گلگت بلتستان کے علاقے کو ہتھیا لے، تو اس سے وسطی ایشیائی ہی نہیں بلکہ مغرب کے کئی ممالک تک اس کی رسائی آسان ہو سکتی ہے۔
دو سال قبل وہ گلگت بلتستان پر بھرپور حملہ کرنے والا تھا مگر اس سے پہلے ہی چین نے لداخ میں اپنی فوجوں کو گھسنے کا حکم دے دیا اور وہ لداخ کے ایک بڑے علاقے پر قدم جمانے میں کامیاب ہوگئیں۔ بھارت اس ناگہانی مصیبت میں پھنس گیا اور پھر اسے گلگت بلتستان کو ہتھیانا تو درکنار لداخ کو بچانا ہی مشکل ہو گیا۔
اس کے باوجود بھی بھارت کی نظریں اب بھی گلگت بلتستان کو ہتھیانے پر مرکوز ہیں اور مودی کسی وقت بھی یہ مہم جوئی کر سکتا ہے، اس لیے پاکستانی حکومت کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی حزب اختلاف کو بھی اس نازک وقت کا ادراک کرنا چاہیے اور مل جل کر ملک کے مسائل کو حل کر لینا چاہیے۔