زہر کی فصلیں اگ رہی ہیں
جو زمین اس میں بسنے والوں کے پیٹ نہیں بھرتی ہے توپھر اس میں بسنے والے اس زمین میں زہر بھرنا شروع کر دیتے ہیں
کافکا، اپنی کہانی ـــــ''Before the Law'' میںقانون کو ایک جسمانی جگہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پوری کہانی ایک شخص کے بارے میں ہے جو ایک گیٹ وے سے گزرنے کی کوشش کررہاہے جو اسے قانون میں داخل کردے گا۔
قانون کے سامنے ایک گیٹ کیپر کھڑا ہے۔ اس گیٹ کیپر کے پاس اسی ملک کا ایک آدمی آتا ہے جوقانون میں داخلہ مانگتا ہے لیکن گیٹ کیپر کاکہنا ہے کہ وہ اس وقت داخلہ نہیں دے سکتا ۔ آدمی اس پر غور کرتا ہے اور پو چھتا ہے کہ ''کیا اسے بعد میں اجازت دی جائے گی ''۔
'' یہ ممکن ہے '' گیٹ کیپر کہتا ہے '' لیکن اس وقت نہیں '' چونکہ گیٹ معمول کے مطابق کھلا ہے، گیٹ کیپر ایک طرف بڑھتا ہے اس لیے آدمی گیٹ کے اندر جھانکنے کے لیے جھک سکتا ہے یہ دیکھ کر گیٹ کیپر ہنسا اورکہنے لگا'' اگر آپ چاہیں تو میرے منع کرنے کے باوجود اندر جانے کی کوشش کریں لیکن خبردار رہو، میں طاقتورہوں اور میں دروازے کے رکھوالوں میں سب سے زیادہ حلیم ہوں ۔''
ہال سے ہال تک ایک کے بعد ایک گیٹ کیپر ہے ہر ایک آخری سے زیادہ طاقتور ہے تو وہ فیصلہ کرتاہے لہٰذا جب تک اسے داخل ہونے کی اجازت نہ مل جائے انتظار کرنا بہتر ہے ۔گیٹ کیپر اسے ایک اسٹول دیتا ہے اور اسے دروازے کے ایک طرف بیٹھنے دیتا ہے وہاں وہ دنوں اور سالوں تک بیٹھتا ہے وہ داخلے کے لیے بہت کوششیں کرتاہے اور وہ گیٹ کے رکھوالے کواپنی بے صبری سے تھکا دیتا ہے۔
گیٹ کیپر اکثر اس کے ساتھ بہت کم بات چیت کرتا ہے وہ اس سے اس کے گھر اور بہت سی دوسری چیزوں کے بارے میں سوالات کرتا ہے لیکن سوالات لاتعلقی کے ساتھ ٹال دیے جاتے ہیں ان کئی سالوںکے دوران آدمی اپنی توجہ تقریباً مسلسل گیٹ کیپر پر مرکو ز کرتا ہے ، وہ دوسرے دروازوں کے رکھوالوں کو بھول جاتاہے، وہ اپنی بدقسمتی پر لعنت بھیجتا ہے اپنے ابتدائی سالوں میں دلیری اور زور سے، بعد میں جیسے جیسے وہ بوڑھا ہوتاہے وہ صرف اپنے آپ سے بڑ بڑاتا رہتا ہے۔
اس کا رویہ بچکانہ ہوجاتاہے لمبے عرصے بعد اس کی بینائی ختم ہونے لگتی ہے اور وہ نہیں جانتا کہ دنیا تاریک ہے یا اس کی آنکھیں اسے دھوکا دے رہی ہیں ۔ پھر بھی وہ اپنی تاریکی میں قانون کے دروازے کی چمک سے واقف ہے۔ اب وہ اپنی زندگی کے خاتمے کے قریب ہے ۔ مرنے سے پہلے ان طویل سالوں میں اس کے تمام تجربات اس کے سر میں ایک نقطہ پر جمع ہوتے ہیں۔
ایک ایسا سوال جو اس نے ابھی تک گیٹ کیپرسے نہیں پوچھا تھا۔ وہ اسے اپنے قریب بلاتاہے کیونکہ وہ اب اپنے اکڑے ہوئے جسم کو نہیں اٹھا سکتا ہے، گیٹ کیپر کو اس کی طرف جھکتا پڑتا ہے۔
''اب تم کیا جاننا چاہتے ہو'' گیٹ کیپر نے پوچھا '' تم لاجواب ہو ہر کوئی قانون تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے''آدمی کہتاہے '' تویہ کیسے ہوتاہے کہ اتنے سالوں میں میرے علاوہ کسی نے داخلے کی بھیک نہیں مانگی ؟''
گیٹ کیپر اس کے کان میں گرج کر بولا ''یہاں کسی اور کو داخل نہیں کیاجاسکتا کیونکہ یہ گیٹ صرف تمہارے لیے بنا یا گیاہے، لہٰذا آخر میں کوئی اور نہیں ہے اور اب میں اسے بند کر نے جارہا ہوں۔ ''
کافکا کی اس کہانی میں ملک کا نام نہیں ہے لیکن اس شخص کے حالات وواقعات سے صاف لگتا ہے کہ یہ پاکستان کے ایک شخص کی کہانی ہے ۔ رکیے، یہ پاکستان کے ایک شخص کی کہانی بلکہ پاکستان کے22 کروڑ انسانوں کی کہانی ہے۔ ان بائیس کروڑ انسانوں کی کہانی جو ساری عمر خوشحالی، حقوق، آزادی، روزگار، خوشیوں، سکون، قانون اور انصاف کے دروازے کے باہر بیٹھے بیٹھے مر رہے ہیں لیکن پوری عمر وہ ان چیزوں کو حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔ ان سے پہلے بھی ان گنت لوگ اس دروازے کے آگے بیٹھے بیٹھے مر چکے ہیں لیکن انھیں بھی اس دروازے میں داخلے کی اجازت نہیں مل سکی، انھیں ان چیزوں تک رسائی حاصل نہ ہوسکی ۔ وہ بھی انتظار کرتے کرتے بوڑھے ہوگئے اور پھر مر گئے۔
انھیں یا ہمیں اس دروازے میں داخلے کی اجازت ملتی بھی کیسے کیونکہ یہ دروازہ ہمارے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ اس دروازے میں عام لوگوں کا داخلہ حرام قرار پایا ہواہے۔ اس دروازے میں صرف اور صرف ہمارے ملک کی ایلیٹ کلاس ہی داخل ہوتی ہے اورہوسکتی ہے۔کتنے بیوقوف اوراحمق ہیں یہ22کروڑ انسان جو آج بھی داخلے کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ آج بھی اس ہی دروازے پر بیٹھے ہیں ۔ آج بھی اپنے دن بدلنے کا انتظارکررہے ہیں ۔ گیٹ کیپر کے آگے گڑگڑارہے ہیں۔
دروازے میں داخلے کی بھیک مانگتے مانگتے تھک نہیں رہے ہیں ۔ روز گل سڑ رہے ہیں، فاقوں میں زندگی گھسیٹ رہے ہیں خون تھوک تھوک کرعمراپنی تمام کررہے ہیں لیکن پھربھی اپنی جھوٹی آس اورامید کو مار نہیں رہے ہیں ۔ روز ایک نئی صبح کاانتظار کرتے ہیں حقیقت اور سچائی کوقبول کرنے کے انکاری بنے ہوئے ہیں ۔ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں یہ ملک ان کے لیے نہیں بنا تھا۔ یہ ملک صرف چندسو خاندانوں کی عیاشیوں اور عیش و عشرت کے لیے بنا تھا۔
انگریزوں کے غلاموں کے لیے بنا تھا جو آ ج ملک کے آقا بنے پڑے ہیں ۔ اگر تم اس بات کو جھوٹ سمجھتے ہو تو پھر ان چند سو خاندانوں کی داستان پڑھ لو یا کسی سے سن لو۔ یہ سب کے سب انگریزوں کی مخبری اور جی حضوری کیا کرتے تھے ۔ بدلے میں انھیں جاگیریں عطا کی گئیں، ''سر ''کے خطاب نوازے گئے ،اگراب کوئی بھی شک ہے توکلیموں کی کہانیاں پڑھ لو ۔ یا درکھو تم صرف اورصرف ایندھن ہو ایلیٹ کلاس کی عیاشیوں اور عیش و عشرت قائم رکھنے کا ایندھن، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو۔
نہ تمہیں پہلے کبھی انسان تسلیم کیا گیا نہ ہی آج اورنہ ہی آنیوالے کل میں تسلیم کیا جائے گا، کیونکہ اگر تمہیں انسان کادرجہ دیاجائے تو انسانوں کے حقوق ہوتے ہیں انھیں جینے کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان چاہیے ہوتاہے۔علاج ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ کی سہو لیا ت مہیا کی جاتی ہیں ۔ ان سے محبت کی جاتی ہے،ان کی عزت نفس کا احترام کیا جاتاہے۔تم ہی بتائو کہ تم سے امیرو کبیر لوگ محبت کرتے ہیںیا نفرت۔وہ تمہاری زندگیوں کو جنت بنارہے ہیں یادوزخ اور دوزخ بھی ایسی کہ روزاس کی آگ تیز پر تیز کیے جارہے ہیں۔
جو زمین اس میں بسنے والوں کے پیٹ نہیں بھرتی ہے توپھر اس میں بسنے والے اس زمین میں زہر بھرنا شروع کر دیتے ہیں پھرکچھ عرصے بعد زمین سے گندم نہیں بلکہ زہرکی فصلیں اگتی ہیں پھر زمین اور ا نسان دونوں زہریلے ہوجاتے ہیں ۔ زہر کسی کا دوست نہیں ہوتااور نہ ہی اس کی آنکھیں ہوتی ہیں اور نہ ہی اس کا دل اور نہ ہی ذہن ۔ وہ وہ ہی کا کرتا ہے جو کرتاہے، اگر محلوں اور قلعوں میں رہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زہر سے محفوظ رہیں گے تو وہ اول درجے کے احمق اوربے وقوف ہیں ۔