سوالیہ نشان
عوام کے مسائل حل کرنے کے دعویدار سیاستدان خود آپس میں دست و گریباں ہیں نتیجتاً ملک کا دیوالیہ نکل رہا ہے
مغرب کے ایک ماہر نفسیات کا قول ہے کہ نفرت کی مثال ایک قسم کے تیزاب کی سی ہے۔ ایک عام برتن میں اس کو رکھا جائے تو وہ اپنے برتن کو اس سے زیادہ نقصان پہنچائے گا جتنا اس کو جس پر وہ تیزاب ڈالا جانے والا ہے۔
اگر آپ کو کسی کے خلاف بغض اور نفرت ہو جائے اور آپ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائیں تو جہاں تک آپ کا تعلق ہے تو آپ کے سینے میں رات دن ہر وقت نفرت کی آگ بھڑکتی رہے گی۔ مگر دوسرے شخص پر اس کا اثر صرف اس وقت پہنچتا ہے جب کہ آپ عملاً اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ہوں، مگر ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ آدمی کسی کو وہ نقصان پہنچا سکے جو اس کو وہ پہنچانا چاہتا ہے۔
نفرت کے تحت عمل کرنے والے کا منصوبہ بیشتر حالات میں ناکام رہتا ہے۔جہاں تک نفرت کرنے والے کا تعلق ہے، اس کے لیے دو میں سے ایک عذاب ہر حال میں مقدر ہے۔ جب تک وہ اپنے انتقامی منصوبے میں کامیاب نہیں ہوا ہے تو انتقام کی آگ میں جلتے رہنا اس کا نصیب رہے گا اور اگر بالفرض وہ کامیاب ہو جائے تو اگر اس کا ضمیر زندہ ہے تو وہ اس کا پیچھا کرتا رہے گا۔ وہ اپنے حریف کو نقصان پہنچا کر خود بھی اپنا سکھ چین کھو دیتا ہے۔
اگرچہ انتقام کے جنون میں اس کے اندر کا انسانی احساس دبا رہتا ہے لیکن جب حریف پر کامیابی کے نتیجے میں اس کا انتقامی جوش ٹھنڈا پڑتا ہے تو اس کا سویا ہوا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور ساری عمر اس کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ بقول مرزا غالب:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی مجرم جس کا ضمیر زندہ ہو، اپنے آپ کو احساس جرم سے آزاد نہیں کر پاتا۔ جرم کے بعد ہر مجرم کا سینہ ایک نفسیاتی قید خانہ بن جاتا ہے جس میں وہ مسلسل اپنے وقتی جنون کی نادانی کی سزا بھگتتا رہتا ہے۔ منفی کارروائی کا نقصان آدمی کی اپنی ذات کو پہنچ کر رہتا ہے۔
اس پس منظر میں آپ ملکی سیاست اور سیاستدانوں کی سوچ اور ان کے طرز عمل اور ایک دوسرے کے تعلق کے حوالے سے غور و فکر کریں تو یہ تلخ اور افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ سیاستدانوں میں صبر، تحمل، برداشت اور آئین کے احترام و عزت کا گہرا فقدان پایا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ (ن) تک اور پی ٹی آئی سے لے کر جے یو آئی تک سب کے سب ایک دوسرے کے خلاف منتقمانہ طرز عمل اختیار کرتے اور زہر افشانی کرتے نظر آتے ہیں۔ اقتدار میں آ کر اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات بناتے ہیں، الزامات در الزامات لگا کر مخالفین کے خلاف جھوٹی ایف آئی آرز کٹوائی جاتی ہیں تاکہ وہ لوگ عدالتوں میں ذلیل و خوار ہوتے رہیں۔
ضمیر نام کی چیز کسی کے پاس نہیں اسی باعث انھیں اپنے کسی عمل کا پچھتاوا نہیں ہوتا بلکہ بڑے فخر سے اپنی تقریروں اور بیانات میں ایک دوسرے کے خلاف کیچڑ اچھالتے ہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ آگے بڑھ کے گھر کی خواتین تک چلی جاتی ہے۔ خاندان کے دیگر افراد تک پھیل جاتی ہے۔ بہن، بیٹی، بیوی، ماں، بھائی اور چچا و باپ دادا تک کے نام الزامات کی زد میں آتے ہیں۔
آپ ماضی قریب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ مسلم لیگی رہنما، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کیسے کیسے الزامات لگاکر قانون کے شکنجے میں جکڑنے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ کچھ اسی طرح کا طرز عمل پی پی پی کے رہنما (ن) لیگی رہنماؤں کے خلاف اختیار کرتے تھے۔
لیکن آج ان کی آواز خاموش ہوگئی اپنے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور اب دونوں کا سارا زور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے خلاف نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے دل میں بھی پی پی پی اور (ن) لیگ کے خلاف نفرت کا الاؤ روشن ہے۔ ان کی سیاست کا محاذ آصف زرداری، شریف برادران، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن ہیں۔
الزامات کی ایک طویل فہرست عمران خان کے ہاتھ میں ہے جو وہ اپنے بیانات، جلسوں اور تقریروں میں لگاتے رہتے ہیں اور جواب میں دوسری جانب سے الزامات کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے یوں ہر دو طرف سے الزامات کی سیاست کا بازار گرم ہو جاتا ہے جس نے پورے سیاسی ماحول کو نہ صرف پراگندہ کرکے رکھ دیا ہے بلکہ جمہوریت کے استحکام کا خواب بھی تشنہ تعبیر ہے۔
نفرت اور انتقام کی اس سیاست کے نتیجے میں پی ڈی ایم نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے عمران خان کو اقتدار سے باہر کیا۔ خان نے اپنی بے دخلی کو بیرونی سازش سے تعبیر کیا اور اندرون وطن پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو اس سازش کا کھلاڑی قرار دیتے ہوئے غیر مرئی قوتوں پر بھی الزامات عائد کیے۔ اگرچہ خان کی حکومت آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے ختم کی گئی لیکن انھوں نے اسے سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے قبول نہ کیا۔
ادھر عوام نے ضمنی انتخابات میں (ن) لیگ اور پی پی پی کے مقابلے میں عمران خان کو بھرپور کامیابی سے ہمکنار کرکے خان کے حوصلے بلند کر دیے۔ انھیں یقین ہو گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسی اعتماد کی بنیاد پر انھوں نے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کردیں۔
پی ڈی ایم بالخصوص (ن) لیگ نے اپنا پورا سیاسی زور لگایا کہ پنجاب اسمبلی کو بچا لیں لیکن وہ ناکام ہوگئے۔ اس ضمن میں قائد (ن) لیگ میاں نواز شریف لیگی رہنماؤں پر سخت برہم ہیں۔ عمران خان حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ پورے ملک میں مارچ اپریل میں ایک ساتھ عام انتخابات منعقد کیے جائیں اس حوالے سے انھوں نے عندیا دیا ہے کہ اگر شہباز حکومت ان سے الیکشن ٹائم فریم پر بات چیت کرنے پر آمادہ ہو تو وہ قومی اسمبلی میں واپس آنے پر تیار ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں مفادات کو ہمیشہ ترجیح حاصل رہی ہے۔ اصول، نظریہ اور جمہوری اقدار کا کہیں کوئی گزر نہیں۔ نفرت، بغض، کینہ، عداوت اور انتقام قومی سیاست کا طرہ امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ ایسی بے اصولی سیاست میں عوام ایندھن بن کر رہ گئے ہیں۔ ان کے نصیبوں میں صرف گرانی، بے روزگاری، غربت، مہنگائی اور قدم قدم پر صرف مسائل ہی مسائل ہیں۔
عوام کے مسائل حل کرنے کے دعویدار سیاستدان خود آپس میں دست و گریباں ہیں نتیجتاً ملک کا دیوالیہ نکل رہا ہے۔ سیاسی و معاشی بحران نے ملک کے روشن مستقبل کے آگے بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کسی کو اس کی خبر اور فکر ہے؟