جاوید کا لنگر خانہ آخری حصہ
یہ رام پور کے کس محلے کے ہیں، مجھے نہیں معلوم لیکن جملوں پر دھار وہی ہے
جاوید صدیقی کا ''روشن دان'' اور ''لنگرخانہ'' خاکوں کا ایک ایسا خزانہ ہے جس سے انسان اپنی جھولی بھرتا دبا کے اور ہائے ہائے کرتا ہے۔ یہ رام پور کے کس محلے کے ہیں، مجھے نہیں معلوم لیکن جملوں پر دھار وہی ہے۔
اپنے ایک خاکے '' حجیانی '' میں وہ لکھتے ہیں۔ امرود، انجیر، لیموں، سنترے اور لوکاٹ کے پیڑوں سے ملی ہوئی جو لمبی کھپریل تھی اس میں باورچی خانہ، گودام اور ایک بڑا سا کمرہ تھا جس میں حجیانی رہا کرتی تھیں اور یہ سارا علاقہ ان کی عملداری میں تھا۔ اس میں دادی کے سوا کسی کو پھٹکنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
حد یہ ہے کہ دادی کی منہ چڑھی مرغیاں بھی دور دور ہی رہتی تھیں، اگر کبھی کوئی مرغی یا مرغا اپنی اوقات بھولا اور باورچی خانہ تک آیا تو حجیانی چمٹایا پھکنی پھینک کر ایسا نشانہ لگاتیں کہ لینے کے دینے پڑجاتے اور ساری مرغیاں چیختی چلاتی پر پھڑپھڑاتی دور بھاگ جاتیں۔
حجیانی بہت ننھی منی سی تھیں۔ سر پر کھچڑی بال، گہرے سانولے چہرے پر بہت سی جھریاں، بہت چھوٹی چھوٹی مگر چمکتی ہوئی آنکھیں۔ چھوٹی سی ناک جس میں چاندی کی بڑی سی لونگ جو دور سے مسے کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ کان اوپر سے نیچے تک چھدے ہوئے تھے جن میں چاندی کی چھوٹی چھوٹی بالیاں پڑی ہوئی تھیں۔ بالیوں میں لال ہرے اور سفید موتی جھولتے رہتے تھے اور ان کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ کان کا اوپری حصہ دہرا ہوگیا تھا۔
حویلی میں حجیانی کی وہی حیثیت تھی جو انگریزوں کے راج میں ریاست کے ریزیڈنٹ کی ہوا کرتی تھی۔ کہنے کو ہر ریاست میں کسی راجا مہاراجا یا نواب کی حکومت ہوتی تھی مگر حکم چلتا تھا ریزیڈنٹ بہادر کا۔ یوں تو وہ نوکرانی تھیں۔ چھوٹی سی تھیں جب یہاں آئی تھیں۔ یہیں ان پر جوانی آئی، یہیںسے ان کی شادی ہوئی مگر شادی کے بعد بھی وہ کبھی سسرال نہیں گئیں۔ بلکہ ان کے شوہر کوحویلی میں ہی ایک کوٹھری دے دی گئی تھی۔
حجیانی کا بیٹا جمااسی گھر میں پیدا ہوا۔ مگر بے چاری حجیانی جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں۔ مچھلی کی بڑی شوقین تھیں اور ان کا فدوی قسم کا شوہر ہر ہفتے ندی سے ٹوکری بھر کے مچھلی پکڑلاتا اور سب کو کھلاتا۔ ایک دن شکار کھیلنے گیا، گرمی کے دن تھے، لوٹا تو رستے میں لو لگ تھی، غریب شام تک ٹھنڈا ہوگیا۔جمے کو اس کا دادا لے گیا، اسی نے پالا۔ حجیانی جوان تھیں، بہت زور لگا مگر انھوں نے اپنی دوسری شادی کے لیے ہاں نہیں کی۔ البتہ بیٹے کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی زندگی میں وہی چار دن تھے جب وہ حویلی سے غائب رہیں۔ بیٹے کو نواب صاحب کے ہاں خاص باغ پیلس میں پہرے دار کی نوکری مل گئی تھی۔ ایک سرکاری کوارٹر بھی ملا ہوا تھا۔ اس نے بہت ہاتھ پائوں جوڑے، سب سے سفارش بھی کرائی مگر حجیانی نے کبھی ایک رات بھی اس کے گھر میں نہیں گزاری۔ دادی یعنی بڑی بیگم کی بہت منہ چڑھی تھیں۔ انھیں جواب دینے بلکہ ڈانٹ دینے کی ہمت اگر کسی میں تھی تو وہ حجیانی ہی تھی۔
خاندان میں سب لوگ انھیں حجیانی کہا کرتے تھے حالانکہ انھوں نے حج نہیں کیا تھا۔ قصہ کچھ یوں مشہور ہے کہ وہ بمبئی گئی ضرور تھیں مگر پانی کو دیکھ کر انھیں چکر آنے لگے۔ بیمار ہوگئیں اور ایسی بیمار ہوئیں کہ جہاز جدہ چلاگیا اور حجیانی اسپتال۔ مگر جب حاجیوں کے پہلے قافلے کے ساتھ اپنے گھر واپس آئیں تو حجیانی مشہور ہوگئیں۔
جاوید صدیقی کے خاکوں کی کتاب ''روشن دان'' کا ایک دوسرا دلچسپ خاکہ ''اپنے کامریڈ حبیب'' مجھے پسند آیا۔ وہ لکھتے ہیں جس دن سے بمبئی آیا اور ترقی پسند ادیبوں، شاعروں سے میل جول بڑھا تو ایک نام بار بار کانوںمیں پڑتا رہا، وہ نام تھا حبیب تنویر کا۔ میں نے اپنے دل میں سوچا، ان ترقی پسندوں کی تو عادت ہے اپنے ساتھیوں کو جھنڈے پہ چڑھا کے رکھتے ہیں۔ اب ان حبیب صاحب میں ایسی کون سی خاص بات ہے کہ جسے دیکھو وہ حبیب تنویر حبیب تنویر کرتا رہتا ہے۔
1968 میں ''اپٹا'' نے تیج پال ہال کرائے پر لے لیا تھا جس میں ہر جمعے کو ''اپٹا'' کا ایک ڈرامہ پیش کیا جاتا تھا۔ ایک تو بمبئی میں ویسے ہی ہندی اردو کا ڈرامہ دیکھنے والے بہت کم ہیں، اوپر سے ''اپٹا'' کا نام، زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ڈرامہ ورامہ تو خاک ہوگا، کمیونسٹ پارٹی کا پروپیگنڈہ ہوگا۔ اس لیے لوگ بہت کم جاتے تھے اور ہر ہفتے نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں کیفی صاحب کو جو ''اپٹا'' کے صدر تھے، یہ ترکیب سوجھی کہ اگر دیکھنے والے خود نہیںآتے تو انھیں لایا جانا چاہیے۔
چنانچہ بمبئی سینٹرل کے بازاروں اور پتلی پتلی گلیوں نے ایک عجیب و غریب منظر دیکھنا شروع کیا کہ ایک لمبے چوڑے بڑے بڑے بالوں والے کیفی اعظمی اور ان کے ساتھ ایک نہایت دبلا پتلا چشمے والا لڑکا یعنی میں، دکان دکان اور مکان مکان ''اپٹا'' کے ناٹکوں کے ٹکٹ بیچتے پھررہے ہیں۔ لوگ کیفی صاحب کے احترام میں اور کچھ اس خیال سے بھی کہ وہ خود آئے ہیں، ٹکٹ تو لے لیا کرتے تھے مگر آتے واتے نہیں تھے۔ اس دوران جب میں اور کیفی صاحب سڑکوں کی خاک چھانا کرتے تھے، ان سے باتیں کرنے اور بہت کچھ سیکھنے جاننے کا موقع ملا۔
کیفی صاحب کم بولتے تھے مگر جو بھی بولتے تھے وہ نپا تلا بھی ہوتا تھا اور وزنی بھی۔ ایک دن نہ جانے کیسے حبیب تنویر کا ذکر آگیا۔ مجھے معلوم تھا کہ حبیب صاحب اور کیفی اعظمی نہ صرف یہ کہ ہم خیال اور ہم مشرب ہیں بلکہ اچھے دوست بھی ہیں۔ پھربھی میں نے حبیب صاحب کے بارے میں کیفی صاحب کی رائے پوچھ ہی لی۔ کیفی صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ چلتیرہے۔ میں نے عرض کیا: ''حبیب صاحب کی شاعری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟''
کیفی صاحب کچھ سوچتے رہے پھر دھیرے سے بولے: ''برے اور بے معنی شعر نہیں کہتے ہیں لیکن حبیب کو جاننا ہے تو ان کی شاعری نہیں ان کے ناٹک دیکھیے۔ حبیب کی اصلی پہچان وہی ہیں۔'' اور پھر یوں ہوا کہ میں نے ''چرن داس چور'' دیکھا۔ میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ اس ناٹک میں وہ کون سی چیز تھی جس نے میرے حواس پر جادو کردیا تھا۔ کیا وہ اسکرپٹ تھا؟ کیا وہ چھتیس گڑھی ایکٹروں کا پرفارمنس تھا؟ کیا وہ ڈائریکشن تھی؟ کیا وہ میوزک تھا؟ پتا نہیںکیا تھا۔ مگرمیں آج تک ''چرن داس چور'' کے طلسم سے باہر نہیںآسکا ہوں۔
حبیب صاحب مارکسزم میں نہ صرف یہ کہ یقین رکھتے تھے بلکہ اس پہ عمل بھی کرتے تھے۔ ان کی کہنی اور کرنی میں کبھی کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ ہم سب نے دیکھا ہے کہ ان کی اکلوتی بیٹی نگین تھیٹر کے دوسرے آرٹسٹوں کے ساتھ سفر کرتی تھی اور انھیں کے ساتھ ٹھہرائی بھی جاتی تھی۔ پروڈیوسر ڈائریکٹر کی بیٹی ہونے کے باوجود اسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ کسی بہتر سلوک کا مطالبہ کرسکے۔
حبیب صاحب کو ناٹک کی دنیا نے ہی نہیں نوازا، اس دنیا نے بھی سرآنکھوں پہ بٹھایا جو اسٹیج سے باہر ہوتی ہے انھیں درجنوں اعزازات دیے گئے، بڑے اور ذمے دار عہدے تفویض کیے گئے۔ پدم شری اور پدم بھوشن سے نوازے گئے مگروہ وہی رہے جو تھے۔
صاف گوئی حبیب تنویر کی طاقت بھی تھی اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔ وہ کبھی بھی سیاست کے ناز بردار نہیں رہے، نہ ہی ہر پانچ سال بعد بدل جانے والے حاکموں کے استقبال میں اپنی ٹوپی بدلی۔ اس لیے انھیں وہ درجہ کبھی نہیں مل سکا جس کے وہ مستحق تھے۔ کچھ لوگوں نے تو حبیب صاحب کو مالی اور ذہنی نقصان پہنچانے کی ہی نہیں بلکہ جسمانی تکلیف پہنچانے کی بھی کوشش کی۔
ان پر حملے کرائے گئے، گھر سے بے گھر کیا گیا اور غنڈوں کے ذریعے ڈراموں کے شوز رکوائے گئے۔ مگر حبیب تنویر نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے، نہ شہر چھوڑ کر بھاگے، نہ اپنے کام کی رفتار کو مدھم کیا۔ وہ اپنے چھوٹے سے لشکر کے سپہ سالار تھے اور سالار کی شان یہی ہوتی ہے کہ خود گر جاتا ہے مگر پرچم کو نہیں گرنے دیتا۔
جاوید صدیقی کے خاکے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اعلیٰ پائے کے ادیب اور صحافی ہونے کے ساتھ 90 سے زائد فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے بھی لکھ چکے ہیں اور ان کو فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں نے انھیں بہت دولت دی لیکن انھیں وہ تخلیقی تسلی نہ مل سکی جس کی تلاش تھی۔ امید ہے کہ اتنے شاندار خاکے لکھ کر ان کی کچھ تسلی ضرور ہوگئی ہوگی۔