جو ہو گیا … مٹی پاؤ
عوام کی جو حالت پچھلے چار سال سے ہو رہی ہے اس میں مزید سختی کی گنجائش نہیں
بالآخر ضد کی جیت ہو ہی گئی۔ تحریک انصاف خیبرپختونخوا کی مقامی قیادت کے مشورے کے برخلاف صوبائی اسمبلی توڑ دی گئی۔ پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ محمود خان نے اپنی حکومت ختم کرکے وزیراعلیٰ ہاؤس خالی کر دیا۔
اب شاید وہ پشاور میں اپنے نئے خریدے جانے والے گھر منتقل ہو جائیں جو بقول شخصے وزیراعلیٰ ہاؤس کے بہت قریب ہے۔ اسمبلی توڑے جانے کے بعد ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن نگران وزیراعلیٰ کے نام پر متفق نہیں ہو سکیں گے۔
محمود خان کی طرف سے ایسے بیانات بھی آئے کہ وہ اپوزیشن لیڈر سے رابطہ نہیں کریں گے کیونکہ محمود خان کو درانی کے اس بیان پر کافی غصہ تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعلیٰ نے اپنی حکومت بچانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے ان سے رابطہ کیا لیکن پھر اچانک ایسی بات ہو گئی کہ محمود خان نے اکرم خان درانی کو چائے کی دعوت دے دی۔
درانی وزیراعلیٰ ہاؤس آنے سے انکاری تھے، بیچ کا راستہ اسپیکر کے گھر مل بیٹھنے کا نکالا گیا۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اس تمام عمل کو تنازعہ سے بچانے میں پرویز خٹک کا کردار انتہائی اہم رہا۔ خیبر۵ پختونخوا کی سیاسی قیادت نے بصیرت کا مظاہرہ کیا اور اس میں پرویز خٹک کے کردار کو سراہنا چاہیے۔
پرویز خٹک سیاسی عمل کو جاری رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اپنی وزارت اعلیٰ کے دنوں میں بھی انھوں نے مکمل طور پر عمران خان کی ہدایات یا فیصلوں پر عمل نہیں کیا، اسی لیے 5 سال تک بغیر کسی بڑے مسئلے کے حکومت کی۔
انھوں نے شیرپاؤ اور جماعت اسلامی کو ملا کر حکومت بنائی اور پھر عمران خان کے کہنے پر انھیں حکومت سے فارغ بھی کیا لیکن پرویز خٹک نے عمران خان کے احکامات پر کبھی سیاسی مخالفین کو تنگ نہیں کیا ورنہ عمران خان عوامی نیشنل پارٹی اور باقی جماعتوں کو احتساب کے نام پر رگڑا دینے کے سخت حامی تھے۔
بدلے میں عوامی نیشنل پارٹی نے بطور سیاسی جماعت کے پرویز خٹک کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنایا۔ اے این پی کے رہنما بظاہر دہشت گردوں کی جانب سے ہدف بنائے جانے اور اسفندیار ولی کی صحت کی تاویل پیش کرتے رہتے ہیںمگر حقیقت بہرحال یہی ہے کہ پرویز خٹک کو کسی بھی قسم کی سیاسی یا حکومتی پریشانی کا شکار نہیں کیا گیا۔
شیرپاؤ کی حکومت سے علیحدگی کے باوجود پرویز خٹک نے پانچ سال مکمل کیے بلکہ کئی بڑے منصوبے شروع اور مکمل کرکے پی ٹی آئی کو انتخابی جیت کے لیے بنیاد بھی رکھی۔ صحت کارڈ، بی آر ٹی جیسے بڑے بڑے منصوبوں کی ہی وجہ سے عمران خان کو صوبے میں اتنی اکثریت ملی کہ خود عمران خان کو بھی حیرت ہوتی ہو گی۔ یہ پرویز خٹک ہی تھے۔
جنھوں نے عمران خان کو پشاور بس منصوبے کے لیے راضی کیا حالانکہ عمران خان لاہور میٹرو کو جنگلہ بس کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے رہے لیکن پی کے کے کمالات دیکھیے کہ خود عمران خان نے اس منصوبے کا افتتاح بھی کیا اور تکمیل پر بس کے سفر کے مزے بھی لوٹے۔ عمران خان نے جنرل باجوہ کی سفارش کے باوجود انھیں دوبارہ وزیراعلیٰ نہیں بنایا اور مرکز میں بھی وزیر دفاع بنایا گیا جس کے نام کی تو اہمیت ہے وزارت کی نہیں۔
پرویز خٹک کے کردار کی وجہ سے پورے ملک پر پختونخوا کی سیاسی قیادت کی بصیرت آشکارہ ہوئی اور واضح کیا گیا کہ مل بیٹھنے سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اکرم درانی اور محمود خان نگران وزیراعلیٰ کے لیے جس نام پر متفق ہوئے ہیں، ان کی اچھے ایڈمنسٹریٹر کی شہرت ہے۔ اعظم خان 2007 کی نگران کابینہ میں شامل تھے اور 2018 کی مرکزی کابینہ میں بھی نگران وزیر رہے۔
عام طور پر انھیں سب کا آدمی کہا جاتا ہے۔ اسی لیے ان کی حلف برداری میں صوبے کی سیاستی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ خصوصاً ایمل ولی خان اور جمعیت کے اہم قائدین سمیت کثیر تعداد میں سیاسی رہنما شریک ہوئے جس سے نظام پر اعتماد میں اضافہ ہوا حالانکہ حلف برداری کی تقریب میں پی ٹی آئی کے بڑے ناموں میں سے کسی نے شرکت نہیں کی۔
پرویز خٹک کو وزیراعلیٰ کے ہمراہ ہونا چاہیے تھا لیکن کیا کہا جائے تحریک انصاف ایک ایسی جماعت بن گئی ہے جس کے بڑے بڑے قائدین بھی اپنے کارکنوں اور خصوصاً اپنے لیڈر عمران خان کی طبیعت کی وجہ سے بھی کچھ اچھے کاموں میں شریک نہیں ہو پاتے کیونکہ مخالف سیاسی جماعتوں سے تعلقات رکھنے پر آپ اپنے قائد اور پارٹی کارکنوں دونوں کی نظر میں مشکوک ہو جاتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو عمران خان نے اپنی جماعت کو وہ جماعت بنا دیا ہے جو اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتی ہے۔ اگر آپ تحریک انصاف کے مخالف ہیں تو آپ خائن بھی ہیں، چور بھی۔ دنیا کی کونسی ایسی برائی ہے جو آپ میں نہیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔
اس کے تمام ادارے ہمارے ہیں،ہم نے ہی ان کو بے توقیر بنایا ہے ، ہم خود ہی اس کی توقیر میں اضافہ کرسکتے ہیں کوئی اور نہیں۔ صرف ایک صوبہ پنجاب میں اس سال کے آغاز سے جاری سیاسی ڈیڈلاک نے اس ملک کو کتنا نقصان پہنچایا کہ آج آٹے کی قیمت ڈیڑھ سو روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔
خراب مالی حالات اور مہنگائی نے اس ملک کے عام لوگوں کا سکون چھین لیا ہے ایسے میں سیاسی ڈیڈلاک کسی طور پر بھی عوام کے فائدہ میں نہیں۔ اگر خیبرپختونخوا میں عمران خان اپنے سیاسی مخالفین خصوصاً جمیعت علمائے اسلام جس کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں کی جماعت کے اکرم درانی کے ساتھ مل بیٹھ کر سیاسی معاملات کا حل نکال سکتے ہیں تو پنجاب اور مرکز میں بھی ایسا ممکن ہے۔
عوام کی جو حالت پچھلے چار سال سے ہو رہی ہے اس میں مزید سختی کی گنجائش نہیں۔ محاذ آرائی کی سیاست کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ مسئلے بات سے ہی حل ہو سکتے ہیں اب ذمے داری پی ٹی آئی کی قیادت کی ہے کہ وہ پرویز خٹک کی طرح اپنے قائد کو سیاسی ٹریک پر واپس لائیں۔ جو ہو چکا ہے اب وہ ہو گیا ہے واپس نہیں ہو سکتا بقول چوہدری شجاعت کے مٹی پاؤ ۔