نقیب اللہ محسود قتل کیس میں ایس ایس پی راؤ انوار بری

انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نے دیگر ملزمان کو بھی بری کردیا۔


ناصر بٹ January 23, 2023

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 5 سال بعد ہائی پروفائل نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر سمیت 18 ملزمان کو باعزت بری کردیا، نقیب اللہ کے ورثا نے فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔

کراچی سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نمبر 16 نے ہائی پروفائل نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا جس میں استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ عدالت نے ملزمان کو بری کرتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کے خلاف شواہد ناکافی ہیں، جو مقدمہ پولیس نے درج کیا تھا استغاثہ اسے ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

عدالت کے مطابق استغاثہ کے دو گواہوں حضرت علی اور قاسم کے بارے میں استغاثہ ثابت نہیں کرسکا کہ یہ نقیب اللہ کے ساتھی تھے۔ استغاثہ نے کہا کہ مقابلہ مبینہ تھا، نقیب اللہ سمیت 4 افراد کا قتل ہوا لیکن جن لوگوں کو ملوث کیا گیا ان میں سے کسی کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کئے جاسکے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ نقیب اللہ اور دیگر کو جس پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا وہ جعلی تھا، عدالت نے قتل کے واقعہ کو سفاکانہ قرار دیا، عدالت نے کہا کہ ایک اخبار نے آرٹیکل لکھا اور اس معاملے کو ٹیسٹ کیس قرار دیا یہ بہت ہی غلط اقدام تھا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ محسود قتل کیس کا واحد چشم دید گواہ لاپتہ

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر 14 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ مقدمے میں 51 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے۔ نقیب اللہ قتل کیس کا مقدمہ 23 جنوری 2018ء کو درج کیا گیا تھا اور 5 سال بعد 23 جنوری 2023ء کو فیصلہ سنایا گیا۔ مقدمہ کے چالان میں 90 سے زائد گواہوں کو شامل کیا گیا تھا۔ مقدمے میں 7 ملزمان مفرور، 12 جیل میں جبکہ 6 ضمانت پر تھے۔

آج عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کو باعزت بری کردیا۔ بری ہونے والوں میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار، ڈی ایس پی قمر احمد، یاسین، خضر حیات، سپرد حسین، رئیس جعفری، اللہ یار کاکا، محمد اقبال، ارشد علی، غلام نازک، شفیق احمد، محمد انار، خیر محمد، فیصل محمود، علی اکبر، سید عمران کاظمی، عبد العلی اور شکیل فیروز شامل ہیں۔

پراسیکیوشن کے 7 گواہ پولیس کو دیئے گئے بیانات سے منحرف ہوگئے تھے۔ نسیم اللہ عرف نقیب اللہ سمیت چار افراد کے اغوا اور مبینہ جعلی مقابلے میں ہلاکت کے الزام سے سابق ایس ایس پی کے ساتھی ،اٹھارہ پولیس افسران واہلکاروں پربھی جرم ثابت نہیں ہوسکا۔

18 جنوری 2018ء کو کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ہونے والے مقابلے کا ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوموٹو ایکشن لیا تھا، جبکہ جاں بحق ہونے والے نقیب اللہ محسود کے لواحقین نے کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے دے کر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ معاملہ ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

20 جنوری کو راؤ انوار کو ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے ہٹا کر معطل کردیا گیا۔ 21 مارچ کو ایس ایس پی سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے اور انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے راؤ انوار کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نمبر 2 میں پیش کیا اور اسی عدالت نے درخواست ضمانت بھی منظور کی تھی جبکہ 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

راؤ انوار کے وکیل عامر منسوب ایڈووکیٹ نے اپنے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرے موکل کے خلاف استغاثہ ایک بھی گواہ یا ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکا جس کا مقدمہ اس وقت کے ایس ایچ او امان اللہ مروت نے درج کیا، اسے بی کلاس کردیا گیا تھا، امان اللہ مروت نے مقدمے میں میرے موکل کا ذکر تک نہیں کیا اور مقابلے وقت 3 بجے سے 3 بج کر 20 منٹ لکھا تھا۔ اس مقدمے کو بی کلاس کرکے دوسرا مقدمہ اسی مقابلے کا درج کیا گیا اور اس میں راؤ انوار اور دیگر کو نامزد کردیا گیا۔

عامر منسوب ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا کہ میرے موکل کا اس مقابلے سے کوئی تعلق نہیں تھا، جو مقدمہ راؤ انوار کو نامزد کرتے ہوئے درج کیا گیا اس میں بھی مقابلے کا وہی وقت لکھا گیا جو امان اللہ نے لکھا تھا، امان اللہ مروت نے مقابلے کی اطلاع موبائل پر میسج کے ذریعے اپنے ایس ایس پی راؤ انوار کو دی تھی، سابق ایس ایس پی نے وہی میسج اپنے سینئرز پولیس افسران کو سینڈ کیا جس کا ریکارڈ بھی عدالت میں موجود ہے۔

عامر منسوب نے کہا کہ عدالت سی ڈی آر دیکھے جس میں راؤ انوار کی لوکیشن 3 بج کر 20 منٹ کے بعد کی ریکارڈ پر آئی ہے جس سے واضح ہے کہ مقابلے کے وقت میرے موکل وہاں موجود ہی نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ پولیس مقابلہ خود ساختہ، جھوٹا اور بے بنیاد تھا، انکوائری رپورٹ

راؤ انوار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ راؤ انوار کے خلاف 23 جنوری کو درج کیے جانے والے مقدمے میں آئی جی سندھ کی فائنڈنگ رپورٹ کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ فائنڈگ رپورٹ 25 جنوری کو آئی تھی، غیر قانونی مقدمہ میں غیر قانونی طریقے سے راؤ انوار کو شامل کیا گیا، اس مقدمے میں جس ہوٹل کا ذکر کیا گیا ہے وہ گنجان آباد علاقے میں ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں گذشتہ ادوار میں خوفناک دھماکا ہوا تھا جس سے رہائشی عمارت کا ایک حصہ مکمل تباہ ہوگیا تھا۔

راؤ انوار کے وکیل نے کہا کہ اس روڈ پر متعدد بینکس ہیں بازار ہے، کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک بھی سی سی ٹی وی فوٹیج نہ مل سکی ہو، جس سے یہ واضح ہوسکے کہ ہوٹل سے سادہ لباس اہلکاروں نے نقیب اللہ اور دیگر کو حراست میں لیا۔

عامر منسوب ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ چشم دید گواہ کے مطابق راؤ انوار کو آواز سن کر شناخت کرسکتے ہیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ راؤ انوار ایک ماہ تک پولیس حراست میں تھے لیکن ان کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے کروایا گیا نہ ہی آواز کی شناخت کرائی گئی، استغاثہ کے 2 اہم عینی شاہدین کے پاس موبائل بھی تھے لیکن کسی کا بھی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا، نقیب اللہ کے موبائل نمبرز تو بتائے گئے لیکن اس کی کوئی سی ڈی آر عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔

وکیل صفائی نے کہا کہ اس میں ایک عینی شاہد حضرت علی بھی تھا جس کا بھائی پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث تھا اور مقابلے میں مارا گیا۔

مدعی مقدمہ کے وکیل صلاح الدین پہنور ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ ڈی ایس پی قمر بھی امان اللہ مروت سے رابطے میں تھے۔ وکیل صفائی ملک کھوکھر ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہ ڈیوٹی کا حصہ ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اپنے بالا افسر کو کسی بھی واقعے کی اطلاع دے۔

یہ بھی پڑھیں : اس شہر کی پھر سے خدمت کروں گا، راؤ انوار

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بلکل یہ ڈیوٹی کا حصہ اور اگر اس بنیاد پر ڈی ایس پی اور ایس ایس پی کو نامزد کیا گیا ہے تو پھر ڈی آئی جی اور دیگر اعلی افسران کو بھی نامزد کرنا چاہیے تھا۔

صلاح الدین پہنور نے کہا کہ راؤ انوار 3 بج کر 21 منٹ پر وہاں موجود تھے۔ عامر منسوب ایڈوکیٹ نے کہا کہ3 بج کر 27 منٹ پر میرے موکل کی موجودگی ان کی دی ہوئی سی ڈی آر بتارہی ہے اس کا مطلب صاف ہے کہ راؤ انوار مقابلے کے بعد پہنچے۔

صلاح الدین پہنور ایڈوکیٹ نے دلائل میں کہا کہ افسران کو پتا تھا مقابلے کا، نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود چار افراد کی فرضی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے کیس کی پیروی کررہے تھے مگر دسمبر 2019ء میں کینسر سے ان کا انتقال ہوگیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔