محسن نقوی‘ ایک اور صحافی وزیر اعلیٰ

صحافی برادری کے وہ تیسرے سپوت ہیں جو پنجاب کی مسند پر متمکن ہوئے ہیں


اطہر قادر حسن January 25, 2023
[email protected]

پنجاب کی نگران وزارت اعلیٰ کا معاملہ بالآخر طے پا ہی گیا ہے ہمارے دوست اور بھائی سید محسن نقوی نگران وزارت اعلیٰ کی مسند سنبھال چکے ہیں۔

صحافی برادری کے وہ تیسرے سپوت ہیں جو پنجاب کی مسند پر متمکن ہوئے ہیں اور جن مشکل اور ابتر سیاسی حالات میں انھوں نے یہ بھاری پتھر اٹھایا ہے اب یہ ان کی سیاسی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے اس منصب کے ساتھ کس طرح انصاف کرتے ہیں۔

وہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی سے قریبی نسبت بھی رکھتے ہیں لیکن سابق وزیر اعلیٰ اور ان کی اتحادی پارٹی تحریک انصاف نے ان کی بطورنگران وزارت اعلیٰ کے عہدے پرتقرری کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور اعلیٰ عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پنجاب کی سابقہ حکمران جماعت تحریک انصاف اور ان کے اتحادی وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے اسمبلی کی تحلیل کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے مابین نگران حکومت کی تشکیل کے لیے کھٹ پٹ چلتی رہی ۔

خیبر پختونخوا میں تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نگران وزارت اعلیٰ کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا گیا لیکن پنجاب میں وزارت اعلیٰ کی تقرری الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ گئی جس نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی کا تقرر کردیا۔

پنجاب کی سابقہ حکمران جماعت کا یہ کہنا ہے کہ محسن نقوی ان کے خلاف تنقیدی رویہ رکھتے ہیں اور ان کو خدشہ ہے کہ وہ نگران وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھ کر منصفانہ اور آزاد الیکشن نہیں کرائیں گے کیونکہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی دوست ہیں اور نواز لیگ سے ان کی قربت بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عمران خان نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ محسن نقوی نے ان کی حکومت گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

2013میں قومی انتخابات کے بعد عمران خان پنجاب کے اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ جناب نجم سیٹھی پر مسلسل یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ انھوں نے پنجاب کی پینتیس سیٹوں پر مبینہ دھاندلی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

35پینچرز کی اصطلاح اسی تناظر میں استعمال کی جاتی ہے لیکن خان صاحب بعد میں حسب روایت مکر گئے اور فرمایا یہ بات تو انھوں نے ویسے ہی کہہ دی تھی لیکن محسن نقوی کے حوالے سے بھی وہ یوٹرن لے لیں۔

نگران حکمران کا اصل کام ایک مقرر آئینی مدت میں صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اور وہ انتخابات کے بعد اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر کے واپس اپنے گھرکولوٹ جاتا ہے۔

آسان لفظوں میں ابھی اسے اقتدار کی ہوا لگنا بھی شروع نہیں ہوتی کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جاتا ہے۔

ہمارے دوست اور مربی محسن نقوی کاگزشتہ دو دہائیوں سے انھی سیاستدانوں کے ساتھ واسطہ ہے اور وہ نہ صرف ان سیاست دانوں کے داؤ پیچ سمجھتے ہیں بلکہ بطور صحافی ان کی محفلیں انھی سیاستدانوں کے دم قدم سے آباد رہتی ہیں' اقتدار کی غلام گردشیں ان سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ وہ ایک سدا بہار شخصیت ہیں۔

ان کے ہاں پروٹوکول نامی کسی شئے کا کوئی تصور نہیں ہے جس کا اظہار انھوں نے نگران وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے پہلے ہی دن کر دیا اور سرکاری پروٹوکول اور گاڑی لینے سے انکار کر دیا۔

صحافتی حلقوں' سماجی اور سیاسی حلقوں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ہر شخص کی اپنی پسند نا پسند ہوتی ہے لیکن وہ جب کسی عوامی مسند پر بیٹھتا ہے تواسے اپنی پسند ناپسند کو اس عوامی ذمے داری کے تقاضے کی مناسبت سے اپنے سے دور کرنا ہوتا ہے اور محسن نقوی ان صلاحیتوں کے مالک ہیں کہ وہ اپنے عوامی عہدے کے ساتھ انصاف کر تے ہوئے پنجاب میں شفاف الیکشن کا انعقاد یقینی بنا کر اپنی نیک نامی میں اضافہ کر سکیں ۔

ماضی میں ہمارے ہاں نگران حکمرانوں کی اس قدر قلت رہی ہے کہ ایک دفعہ تو ہمیں بیرون ملک سے جناب شوکت عزیز کو نگران وزیر اعظم کے لیے امپورٹ کرنا پڑا جو بعد میں ہمارے مستقل حکمران بھی بن گئے۔

اسی طرح ایک اور وزیر اعظم جناب معین قریشی بھی امپورٹ کیے گئے تھے' یہ دونوں صاحبان دراصل عالمی معاشی اداروں کے نمایندے اور تنخواہ خوار تھے اور ان دونوں نے حق نمک ادا کرتے ہوئے پاکستان کی جمع پونجی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں اپنے اصل مالکان کے حوالے کر دی اور کپڑے جھاڑ کر چلتے بنے اور اس کے بعد کبھی پاکستان پلٹنے کا نام بھی نہیں لیا یعنی اس طرح کے بھی ہمارے حکمران رہے ہیں۔

اب ہمارے پاکستانی حکمران اگر اپنے اصلی پاکستانیوں کو نگران حکمران منتخب کرنے پر اعتراض کریں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو امپورٹڈ حکمرانوں کو تو فوراً قبول کر لیتے ہیں اور ان کی خوشامدیں کرتے پھرتے ہیں لیکن اپنے ہی جینوئن پاکستانیوں پر معترض ہوتے ہیں۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم صاف ستھری سیاست اور سیاست دانوں کے عادی نہیں رہے ہیں اس لیے ہمارے سیاستدانوں کو ہر ایک اپنے جیسا ہی لگتا ہے اور ہم اس شعر کی عملی تفسیر بن گئے ہیں کہ

اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے

اب رہائی ملی تو مر جائیں گے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں