زہے نصیب
سب سے زیادہ بات ’’سچ‘‘ کو میرا اور تیرا سچ کے مانوں میں بانٹنے پر ہوئی
یہ 1989یعنی آج سے 34برس قبل کی بات ہے کہ حرمین شریفین کی پہلی بار زیارت کا موقع ملا تب سے اب تک ربِ کریم کے فضل سے نو بار عمرے اور 2007میں حج کی سعادت نصیب ہوچکی ہے۔
اگرچہ بیشتر عمر ے کسی نہ کسی شعری یا ادبی سفر کا حصہ تھے کہ سعودی عرب سے ملنے والی دعوتوں کی فوری قبولیت کی بنیاد متعلقہ تقریب کے بجائے یہی کشش ہوا کرتی تھی، پہلے عمرے کے ساتھی جمیل الدین عالی، اُن کی بیگم ، قرۃ العین حیدر اور ڈاکٹر ہلال نقوی تھے جب کہ بعد میں اس فہرست میں جناب احمد ندیم قاسمی ، انور مسعود ، احمد فراز، عطا الحق قاسمی، حسن رضوی اور فرحت پروین کے علاوہ اور بھی بہت سے اہلِ قلم کا ساتھ رہا۔
حج کے علاوہ چار مواقع پر بیگم صاحبہ بھی ساتھ تھیں جب کہ ان بابرکت اور زندگی آموز لمحوں کی مخصوص کیفیات میں لکھی جانے والی شاعری ''اسباب'' کے نام سے کئی بار شایع ہوچکی ہے لیکن اس بار اس سعادت کی بجا آوری کئی ا عتبار سے سب سے الگ اور منفرد ہے کہ اس کا سارا اہتمام میرے برخوردار علی ذی شان امجد نے کیا ہے کہ اس کے بقول یہ اس کی تمنا تھی کہ حرمِ پاک میں وہ اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں حاضری دے ۔
جیسا کہ میں نے گزشتہ کچھ عرصے کے کالموں میں کئی بار ذکر کیا ہے کہ ٹخنے میں فریکچر کی وجہ سے میں گزشتہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے گھر میں ہی محصور ہوں اور پلاسٹر کھلنے کے باوجود شیخ زید اسپتال کے ہڈیوںکے ماہر عزیزی ڈاکٹر واصف کے مشورے کے مطابق ابھی تک چلنے پھرنے میں بہت احتیاط کر رہا ہوں۔
میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ اس مبارک سفر کو دو تین ماہ تک مؤخر کردیا جائے تاکہ میں پوری طرح سے اس کے مراحل اورپروٹوکول کی بغیر کسی سہارے کے ادائیگی کرسکوں مگر آج کے بچوں کے پاس ہم جیسوںکے ہر سوال کا شافی جواب موجود ہوتا ہے چنانچہ اس نے مجھے بتایا کہ لاہور اور جدہ ایئر پورٹس پر ویل چیئر میرے لیے بُک ہوگئی ہے۔
جدہ ایئرپورٹ پر گاڑی موجودہو گی جوہمیں مکہ معظمہ ہمارے ہوٹل تک پہنچائے گی جہاں سے حرم تک ویل چیئر اور اس کے بعد کم و بیش خود کار الیکٹرک گاڑی پر عمرے اور سعی کے فرائض انجام دیے جائیںگے جب کہ اس کے بعد بھی حسب ِضرورت اپنی ویل چیئر پر ہی ہر جگہ آنا جانا ہوگا۔
ٹورکے سارے انتظامات اپنے ''الخدمت '' سے متعلق احباب سرانجام دیں گے کہ ان کا گروپ اس وقت حج اور عمرے کے انتظامات کے حوالے سے نہ صرف پہلی صف میں شمار ہوتا ہے بلکہ ہمارے لیے امتیاز بھائی اور ان کا عملہ اضافی خصوسی انتظامات بھی کرے گا ۔
خیر اب گروپ میزاب کے یہ دوست چونکہ دل وجان سے اپنے کام سے محبت کرتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ میں کئی حوالوں سے دیکھ بھی چکا ہوں، برادرم میاں عبدالشکور اور عامر چیمہ نے لوکل ٹرانسپورٹ کا ذمے لے رکھا ہے اور برادرم سعیدمیو کے عزیزطاہر سمیع نے ایئر پورٹ کی تمام ممکنہ سہولیات کا ذمے لے رکھا ہے۔
رب کریم ان سب دوستوں کے درجات اور آسانیوں میں اضافہ فرمائے کہ فی زمانہ ایسے لوگ بہت کمیاب ہوگئے ہیں۔
ہمارا سفر25اور 26جنوری کی درمیانی رات کو لاہور ایئرپورٹ سے شروع ہوگا اور انشاء اللہ پانچ فروری کو ہم مدینہ منورہ ایئرپورٹ سے واپسی کا سفر کریں گے، دس دن کے اس مبارک سفر کا احوال آیندہ کالموں میں قسط وار پیش ہوتا رہے گا کہ وہاں بیٹھ کر آ پ سے باتیںکرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے ۔
عرفان جاوید نئی نسل کے باکمال اور انتھک ادیب توہیں ہی مگر ان کی شخصیت کا ایک اور بہت خوبصورت پہلو ان کی مہمان نوازی اور احباب کو جمع کرنا بھی ہے۔
اپنی سرکاری ملازمت کی پابندیوں کی وجہ سے وہ اکثر اوقات سفر میں رہتے ہیں اور یوں لاہور کے دوستوںسے مشترکہ ملاقات کا موقع بہت کم نکلتا ہے اب چونکہ یہ تمام دوست کسی نہ کسی حوالے سے ادب، سیاست ، صحافت اور ملکی اور بین ا لاقوامی صورتِ حال پر گہری نظر رکھنے والے ہیں۔
اس لیے بہت بے تکلف گفتگو میں بھی سنجیدہ مسائل کسی نہ کسی طرح سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف خیالات رکھنے اور جملہ بازی کے باوجود سب کی بات کو توجہ ا ور سنجیدگی سے سنا جاتا ہے۔
اس مختصر محفل میںبھی میرے علاوہ وجاہت عباس ، عطاالحق قاسمی ، یاسر قاسمی اور حسین مجروح کے علاوہ میزبان سمیت جو چار پانچ احباب کم یا زیادہ شاملِ گفتگو تھے اُن کا بنیادی ایجنڈا مختلف سیاسی اکابرین کی کارروائیاںاورقلابازیاں تھیںکہ ہر بیان اور تجزیے میں بلیم گیم اور میں نہ مانوں کا وِرد کتے تھے مگر ملک کی سیاسی، معاشی اور اخلاقی صورتِ حال پرتوجہ دینے کی فرصت کسی کے پاس بھی نہیں تھی۔
سب سے زیادہ بات ''سچ'' کو میرا اور تیرا سچ کے مانوں میں بانٹنے پر ہوئی کہ زندہ اور بامقصد معاشرے کبھی اس طرح کی تقسیم کو روا نہیںرکھتے، عرفان جاوید نے برنچ میں لاہور کے تاریخی اور روایتی کھانوں کو بہت مہارت ، خوب صورتی اور فراوانی سے سجا رکھا تھا اور سب نے ان کے بارے میں اپنے اپنے تجربات اور معیارات پر بھی خوب خوب روشنی ڈالی مگر یہ بات اپنی جگہ رہی کہ سب لوگ موجودہ صورتِ حال کے کسی مثبت، دیرپا اور انصاف پر مبنی حل کی تلاش میں تھے کہ دیکھا جائے تو یہ ساری رونقیں اور محفلیں اپنی اصل میں اسی وطنِ عزیز کی بقا اور ترقی سے منسلک تھیں۔
ظاہر ہے اس مبارک سفر کے ایجنڈے میں بھی وطن کی خوش حالی اور امن و ترقی کے لیے دعا، اولین ترجیحات میں شامل ہے اس کے علاوہ ان بہت سے احباب کی فرمائشیں بھی بہت اہم اور ضروری ہیں کہ جنھوں نے اپنے نام کے ساتھ دُعا کے لیے کہا ہے رب کریم توفیق دے کہ ان سب کے نام یاد رہیں۔
یہ اوربات ہے کہ اُن کی یہ خواہشیں میرے وہاں پہنچنے اور انھیں لفظوں میں ڈھالنے سے پہلے یقینا وہاں پہنچ چکی ہیں جو ان سب کی منزل ہے اور اب چلتے چلتے ایک حمد اور ایک نعت کے دو مختصر اقتباسات اس امید اور دُعا کے ساتھ کہ ربِ کریم اپنے اور اپنے محبوب کی مدح میں مزید کچھ کہہ سکنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اے ربِ ملائک و جّن وبشر میں حاضرہوں میں حاضر ہوں
خدمت میں تری شرمندہ نظر میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں
جو تیری ثنا کے لائق ہو اک لفظ بھی ایسا پاس نہیں
کیا تابِ سخن کیا عرضِ ہنر میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں
یہ ارض و سما کی پہنائی یہ میری ادھوری بینائی
مری آنکھیں اپنے خواب سے بھرمیں حاضر ہوں میں حاضر ہوں
............
عجب یہ ربتہ دُعا کو ملا مدینے میں
کہ لفظ کوئی نہ خالی گیا مدینے میں
گیا تھا جب تو کوئی اور آدمی تھا میں
میں اپنے آپ سے واقف ہوا مدینے میں